بچے اور خواتین گھروں میں محصور،متعلقہ محکمہ خاموش تماشائی
مخصوص نسبندی مرکز بھی تاحال کتوں کی تعداد کو کم کرنے میںبے سود ثابت ،عوام برہم
کے این ایس
سرینگر؍وادی کشمیر کے شہر و دیہات میں آوارہ کتوں نے ضلع ،تحصیل اور گائوں دیہات میں پر قبضہ جما لیا،جس کے نتیجے میں عام لوگوں خاص کر چھوٹے بچے اور خواتین میں زبردست خوف و ہراس پیدا کرکے انکی زندگی کو اجیرن بنا دی ہے ۔اس دوران منسلک ادارہ بے بس اور لاچاری کا مظاہرہ کرکے اس حوالے سے نہ آوارہ کتوں کی نئی نسل کی روک تھام میں نہ ہی کوئی متبادل راستہ تلاش کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں لوگوں کو دن بدن سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔کشمیر نیوز سروس ( کے این ایس) کے مطابق وادی کشمیر کے شہر،دیہات کے ساتھ ساتھ مختلف ضلع مقامات اور قصبہ جات میں عام شہری آوارہ کتوں کی بھر مار سے زبردست خوف و ہراس کے شکار ہورہے ہیں، جبکہ آوارہ کتوں کے حملوں میں زخمی ہونے والے شہریوں کی تعدادمی جس تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے وہ نہایت ہی تشویشناک ہے۔کشمیر نیوز سروس نمائندے کے مطابق آئے روز میڈیا سے ملنے والی خبروں کے مطابق شہر اور قصبہ جات میں ایسے واقعات کی تعداد سینکڑوں کی ہے ،جبکہ دیہات کے اندر صورتحال زیادہ ہی خطرناک بنتی جارہی ہے، جس کی بنیادی وجہ آوارہ کتوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہے۔ نمائندے کے مطابق صورتحال سے یہی اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آئندہ برسوں کے اندر عوام کو کس بدترین صورتحال کا سامنا ہوگا اور آوارہ کتوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو قابو کرنے کیلئے کوئی ہنگامی اور موثر اقدامات ممکن نہیں لگتا ہے اور نہ ہی اس حوالے سے فوری طور پر ایسی کوئی امید دور دور تک نظر نہیں آرہی ہے.مقامی لوگوں نے کے این ایس نمائندے کو بتایا کہ شہر سرینگر میں قائم میونسپل کارپویشن نے آوارہ کتوں کی نسبندی کرانے کا ایک جدید ترین مرکز قائم کرنے کا منصوبہ مرتب کیا تھا، لیکن یہ منصوبہ صرف کاغذات تک ہی محدود بن کے رہ گیا ہے اور عملی سطح پہ اس پر کوئی کام نہیں ہوسکا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق کہ فی الوقت ایسا ایک مرکز جو شوہامہ میں چل رہا ہے محدود انتظامات کے سبب موثر ثابت نہیں ہورہا ہے، کیونکہ یہاں پر روزانہ دو درجن کے قریب کتوں کی نسبندی کی سہولیات میسر ہیں ،جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھلا ایسے حالات میں جہاں آوارہ کتوں کی تعداد لاکھوں میں ہے ،کہ کیسے ممکن ہے ۔انکا مزید کہنا تھا کہ اگر یہ حال ریاست کے دارالحکومت سرینگر کا حال ہے تو ظاہر سی بات یہ ہے کہ قصبہ جات اور دور دراز دیہات کی صورت حال کیا ہوسکتی ہے۔ نمائندے کے مطابق کہ وادی کشمیر میں لوگوں کے تئیں آوارہ کتوں کے تشدد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہاہے ، لیکن روزانہ بنیادوں پرپیش آنے والے ان واقعات کے تئیں بلدیاتی حکام کی خاموشی انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے ، کیونکہ روزانہ کہیں نہ کہیں سے کتوں کے حملوں میں راہگیروں کے زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہونا ایک عام سی بات بن گئی ہے۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ صورتحال تو تشویشناک حد تو یہ ہے کہ اس مصیبت پر قابو پانے کی کوئی کوشش نہیں کی جارہی ہے جس سے یہ خدشہ بڑھ رہا ہے کہ ہسپتالوں میں رجسٹر کئے جانے والے آوارکتوںکے حملوں میںزخمی ہوئے متعدد کیسوں کی تعداد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید اضافہ ہونے کا امکان بڑھ جائے گا۔ سیول سوسائٹی سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ وادی کی بستیوں اور قصبہ جات میں جہاں سے بھی گذر ہوتاہے۔وہاں گند و غلاظت اور کوڑے کرکٹ کے بڑے بڑے ڈھیر نظر آتے ہیں ، جس کی وجہ سے کتوں کی تعداد میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اور آوارہ کتّے لوگوں کیلئے وبال جان بن رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ گزشتہ کئی برسوں سے تواتر کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں راہ گیران حملوں کا شکار ہوکر اسپتالوں میں پہنچ جاتے ہیں جن میں کئی افراد موت کی آغوش میں چلے گئے ہیں۔آوارہ کتّے عادتاً چھوٹے بچوں پر ہی زیادہ حملے کرتے نظر آرہے ہیں اور متعدد مقامات پر بچوں کی ایک بڑی تعداد کی آوارہ کتوں کے حملوں کے شکار ہوئے ہیں ۔جس کے باعث والدین اس صورت حال سے شدید اور تکلیف دہ ذہنی اضطراب میں مبتلا ہورہے ہیں . قابل ذکر بات یہ ہے کہ آے روز میڈیا سے ملنے والے خبروں کے مطابق شہر اور قصبہ جات میں آوارہ کتوں کے ذریعہ خونچکانی کے واقعات کی خبریں آتی رہتی ہیں۔مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ انتظامیہ نے ان سانحات کے محرکات کے بارے میں چپ سادھ رکھی ہے۔مقامی لوگوں کے مطابق کہ اگرچہ شہر سرینگر اور دیگر ضلع مقامات اور قصبہ جات میں آوارہ کتّوں کی تعداد کے بارے میں اعداد وشمار دستیاب نہیں ہے لیکن ظاہری طور پر جو تناسب دکھائی دے رہا ہے وہ کسی بھی مہذب سماج میں قابل قبول نہیں ہوسکتا۔انکا کہنا ہے کہ آوارہ کتوں کی تعداد میں اس پیمانے پر اضافہ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے لوکل باڈیز اداروں نے کتّوں کا بند کردیا ہے جبکہ پارلیمنٹ نے اس حوالے سے ایک قانون بنایا ہے ، جس کی رو سے آوارہ کتّوں کی ہلاکتوں پر پابندی تو عائد کردی گئی ہے ،لیکن ان کی تعداد کو قابو کرنے کے لئے نس بندی جیسے دیگر ذرائع استعمال کرنے کی ہدایات دی گئی ہے لیکن ریاست کے اندر انتظامیہ کے افسران چشم پوشی کا مظاہرہ کررہے ہیں اور وہی دوسری جانب بار بار کی یقین دہانیوں اور اعلانات کے باوجود نس بندی کا کوئی منظم پروگرام عمل میں نہیں لایا جارہا ہے اور یہ الگ بات ہے کہ جب کہیں پہ کتوں کے کاٹے کی شکایات بار بار سامنے آتی ہیں تو یہ اقدام کئے جاتے ہیں .عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ میونسپل قوانین کے مطابق انتظامیہ کو ایسے کتّوں کے خلاف کارروائی کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے ، جو سماج کے لئے مصیبت کا درجہ اختیار کریں ، لیکن عملاً ایسا نہیں کیا جارہاہے اور مجموعی طور آوارہ کتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد تشویشناک صورت حال اختیار کررہا ہے اور اگر سرکار کی جانب سے فوری طور موثر اور انقلابی اقدامات نہیں اٹھائے گئے تو مستقبل قریب میں وادی میں ایک بحرانی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے, جس پر بعد میں قابو پانا نا ممکن بن جائے گا ۔