سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کی پی ایس اے کے تحت نظر بندی

0
0

بہن کا عدالت عظمیٰ سے رجوع
موصوف کو حراست میں رکھناسیاسی حریفوں کو طاقت سے دبانے کے عمل کا حصہ :سارہ عبداللہ پائلٹ
لازوال ڈیسک/کے این ایس

نئی دہلی/سرینگرجموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت نظر بندی کو اُنکی بہن سارہ عبداللہ پائلٹ نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا اور اس ضمن میں باضابط طور پر ایک درخواست بھی دائر کردی ۔انہوں نے سابق وزیر اعلیٰ کی نظر بندی کو آزادی اظہار سمیت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی سے تعبیر کیا ۔یاد رہے کہ اس وقت جموں وکشمیر کے3سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ ،عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت متعدد مین اسٹریم لیڈران پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) نظر بند ہیں ۔کشمیر نیوز سروس( کے این ایس ) مانیٹر نگ ڈیسک کے مطابق جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی بہن سارہ عبداللہ پائلٹ نے اپنے بھائی(عمر عبداللہ) کی غیرقانونی طور پر حراست اور پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت ان پر عائد کیے گئے الزامات کے خلاف سپریم کورٹ آف انڈیا میں درخواست دائر کردی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق سارہ عبداللہ پائلٹ نے کہا کہ ان کے بھائی کو حراست میں رکھنا آزادی اظہار سمیت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے اور یہ تمام سیاسی حریفوں کو طاقت سے دبانے کے عمل کا حصہ ہے۔واضح رہے کہ جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کو 5اگست کو آرٹیکل 370 کے ذریعے جموں وکشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد سے مستقل حراست میں رکھا گیا ہے۔گذشتہ چھ ماہ تک عمر عبدااللہ کو بغیر کسی الزام کے حراست میں رکھا گیا تھا لیکن گزشتہ ہفتے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت ان پر مختلف الزامات عائد کیے گئے تاکہ حراست کو جواز فراہم کیا جا سکے۔سارہ عبداللہ نے سپریم کورٹ میں دائر اپنی درخواست میں موقف اپنایا کہ گزشتہ ماہ کے دوران حراست میں لئے گئے تمام افراد کے خلاف اسی طرح سے گرفتاری کے حکم نامے جاری کیے گئے۔ان کا کہنا تھا کہ حکم کے مطابق حکومتی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنانا بھارتی ریاست پر تنقید کے مترادف ہے، یہ جمہوری سیاست کی کھلی خلاف ورزی اور بھارت کے آئین کی پامالی ہے۔انہوں نے عمر عبداللہ کی تمام تقاریر، خطاب اور پیغامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پہلی مرتبہ حراست کے بعد سے اب تک انہوں نے صرف اور صرف امن اور تعاون کا مطالبہ کیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق سارہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ ان کے بھائی پر جھوٹے اور من گھڑت الزامات عائد کیے گئے ہیں اور انہیں عوام میں مقبولیت اور ان پر حاصل اثر و رسوخ کی وجہ سے الزامات کا نشانہ بنایا گیا۔نجی نیوز چینل این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق عمر عبداللہ پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے شدت پسندی اور انتخابات کے بائیکاٹ کے مطالبات کے دوران اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب دی۔الزامات کے مطابق حریت رہنماو¿ں کی جانب سے انتخابات کے بائیکاٹ کے مطالبات کے دوران سابق مرکزی وزیر عمر عبداللہ عوام پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو ووٹ ڈالنے پر آمادہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا تھا کہ جب انہوں نے انتخابات میں حملوں اور بائیکاٹ کے مطالبات کے باوجود عوام سے ووٹ ڈالنے کا مطالبہ کیا تھا، تو ان کے حلقے میں لوگ بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کےلئے نکلی تھی۔اپنی درخواست میں سارہ عبداللہ نے ان الزامات کو مضحکہ خیز الزامات قرار دیتے ہوئے کہا کہ عمرعبداللہ پر لوگوں کو انتخابات میں شرکت اور ووٹ کے جمہوری حق کے استعمال پر آمادہ کرنے کے الزامات ہیں۔ان کا کہناتھا کہ اس کے علاوہ سابق وزیر اعلیٰ جموں و کشمیر پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے حکومت کی جانب سے آرٹیکل370 کے خاتمے کی مخالفت کی اور ٹوئٹر پر لوگوں کو اس کے خلاف آواز اٹھانے کی ترغیب دی لیکن ان الزامات کے خلاف ثبوت کے طور پر کسی بھی ٹوئٹر پوسٹ کا حوالہ نہیں دیا گیا۔سی آر پی سی107 کے تحت عمر عبداللہ کو6ماہ تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے جس کا خاتمہ 5فروری2020 کو ہوا تھا۔تاہم 5فروری کوحکومت نے عمر عبداللہ اور سابق خاتون وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ ( پی ایس اے )کا استعمال کرتے ہوئے کسی ٹرائل کے بغیر مزید3ماہ تک حراست میں رکھنے کی منظوری دی تھی جس میں ایک یا دوسال تک توسیع کی جا سکتی ہے۔اس کے علاوہ متعدد دیگر مین اسٹریم لیڈران پر بھی پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق کرکے نظربند رکھا گیا ہے ۔جن رہنماﺅں کو نظر بند رکھا گیا ،اُن میں علی محمد ساگر ،سر تاج مدنی ،نعیم اختر وغیرہ شامل ہے ۔تاہم 20سے زیادہ سیاسی رہنماﺅں کو رہا بھی کیا گیا ،جن میں سے بیشتر کو اپنی رہائش گاہوں پر نظر بند رکھا گیا اور اُن کی آزاد نقل وحرکت پر تاحال بندشیں عائد ہیں ۔کشمیر میں گزشتہ چھ ماہ سے سیاسی تعطل ہے جسکی وجہ سے ایک بڑا سیاسی خلا پیدا ہوگیا ہے ،جس کو پر کرنا دہلی کےلئے کسی چیلنجز سے کم نہیں ۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا