حنیف ترین
بساطِ ارض پہ دشمن نہ دے سکے کوئی شہ
نکل کے پیادوں سے خود کو جہاں پناہ کرو
ملک تیزی سے بدل رہاہے۔آج قومی میڈیا کاایک بڑا طبقہ پورے ملک میں متواترہورہے احتجاج کی خبروں کوناظرین و قارئین کے سامنے پیش کرنے لگ گیا ہے۔ٹی وی ہو یااخبارات،قومی میڈیا ہو عالمی ذرائع ابلاغ،ہر جگہ خبروںکا مرکز اِن دنوںجامعہ ملیہ اسلامیہ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اورشاہین باغ سے شروع ہونے والے احتجاجات ہی ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ’ سڑک سے سنسدتک‘ سی اے اے ،این آر سی اور این پی آر کے خلاف جاری عوامی تحریک توکچھ میڈیاادارے منفی انداز میں بھی پیش کررہے ہیں۔ تعصب پسندمیڈیا گھرانوں کے رویوں میںتبدیلی نہیں آئی ہے اور ایسے ذہنی مریضوںسے اس کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی کہ وہ عوامی احتجاج کے حوالے سے کوئی اچھی رائے قائم کریں گے۔صحیح صورت حال سے عام لوگوں کو واقف کرانے کے معاملہ میں این ڈی ٹی وی آج سب سے آگے ہے اور ملک کا دانشور وسمجھ دارطبقہ اسی چینل کی خبروں پر یقین بھی کررہاہے۔ جیسے جیسے سیکولرزم ،جمہوریت اورآئین کو بچانے کیلئے احتجاج کادائرہ بڑھ رہاہے، ویسے ویسے حکومت کے اندر گھبراہٹ بھی بڑھتی جارہی ہے اور وہ ہندوتو وادیوں کواکٹھا کرنے کیلئے طرح طرح کے داؤ پیچ اپنارہی ہے۔ اگر ایسانہ ہوتا توہمارے مودی جی اوران کی پوری ٹیم باربار اپوزیشن اور خاص کر کانگریس کے سرپر احتجاجات کاٹھیکرانہ پھوڑتی۔دیش کے چوکیدار (مودی)کواب تویہ بھی کہنا پڑرہاہے کہ لوگ پاکستان کے خلاف احتجاج کریں، ہندوستانی پارلیمنٹ کے خلاف نہیں۔ مودی جی پارلیمنٹ میں آپ کی اکثریت ہے، آپ نے یہ بل وہاں سے منظور کرالیا مگراب عوام کابھی یہ حق ہے کہ وہ اس کے خلاف پُرامن احتجاج کرے اور حکومت کو بتائے کہ اس نے غلط کیاہے، مگراسے کیا کہاجائے کہ حکومت کوآسام سے لے کر مدراس تک ہورہے احتجاجی مظاہرے نظرہی نہیں آرہے ہیں۔ کیرالہ کے کوچی میں یکم جنوری 2020(نئے سال کے پہلے دن) کو جوعظیم الشان پرامن مظاہرہ ہوا اور جس میں 6-7لاکھ لوگوں نے شرکت کی، اس کے بارے میں مشہور انگریزی اخبار’ٹیلی گراف‘ لکھتاہے کہ اس مظاہرے کو دیکھ کر سپریم کورٹ کے ایک سینئر وکیل نے کہاہے کہ ’عدم تشدد پرمبنی ایساپرامن سیاسی عمل کئی گنابہتر اور پراثرہوگا۔ ان سیاست دانوں کی عرض داشتوں کے مقابلے میں جو عدالتوں میں داخل کی جارہی ہیں‘۔
اس سے دودن قبل بھی کیرالہ کے مشہور شہر کوزی کوڈ میں ایسا ہی بڑا احتجاج ہوچکاہے۔ شایداسی احتجاج کانتیجہ ہے کہ کیرالہ حکومت نے پارلیمنٹ سے پاس اس بل کے خلاف اسمبلی سے ایک تجویزمنظورکی ہے،جس میںحکومت سے یہ تقاضاکیا گیاہے کہ اس قانون کو مسترد کیاجائے۔اس کے بعد کئی دوسری ریاستوں نے بھی اسی راہ پر چلنے کا فیصلہ کیااور یکے بعد دیگرے کئی ریاستوںکی اسمبلیوں سے اس قانون کے خلاف قراردادکی منظوری عمل میں آچکی ہے۔
اس احتجاج کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس میں اب ہرجگہ عورتوں اورلڑکیوں کی شمولیت بڑھتی جارہی ہے۔ کہتے ہیں جس تحریک میں عورتیں بہت بڑی تعداد میں شامل ہوجائیں، وہ ضرورکامیاب ہوتی ہے۔ شاہین باغ میں ہزاروں عورتیں سڑک پربیٹھ کر پچھلے 52دنوں سے احتجاج کررہی ہیں جس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ احتجاج24 گھنٹے چلنے والاایسادھرناہے جس میں زیادہ تر پردہ نشیںعوتیںقیادت سنبھال رہی ہیں۔ان کی ہمت کی داد دی جانی چاہیے کہ یہ برفیلی اورسرد ہواؤں میں بھی 24گھنٹے یہیں جمی بیٹھی ہیں اورشہریت ترمیمی قانون کے خلاف نعرے لگا رہی ہیں۔ ان کی ہمت اوربہادری نے اب اپنا کام کرنا شروع کردیاہے۔شہریت ترمیمی قانون ،این آرسی اور این پی آرکے خلاف شاہین باغ سے شروع ہونے والااحتجاج ملک بھرمیں پھیل چکاہے اور نئے نئے گروپس اس تحریک میںشامل ہوتے چلے جارہے ہیں۔ سماجی اور سیاسی لیڈران بھی اب ان کی حمایت کے لیے آگے آرہے ہیں۔ جیسا کہ پہلے ہی ذکرکیاگیاہے کہ انھیں قومی میڈیاکاایک طبقہ اب بھی مستقل طورپراس کو نظراندازبھی کررہاہے یاپھر خبروں کو توڑ مروڑکر پیش کررہاہے۔حالانکہ سوشل میڈیا اورکچھ ایماندار و رفرض شناس میڈیااداروںو ٹی وی چینلوںکے ذریعہ ان کی خبروں کو مسلسل کوریج دے رہے ہیں۔
ہندوستانی جمہوریت پوری دنیا میں اپنا اعلیٰ مقام رکھتی ہے اور ہندوستان کی پہچان دنیا میںرواداری،اخوت اور بھائی چارہ کی وجہ سے ایک ایسے ملک کے طورپر ہوتی رہی ہے،جہاںسے اُٹھنے والاعدم تشدد کا پیغام پوری عالم انسانیت کیلئے ایک مثال بن گیا۔انسانیت،اخوت،سناتن دھرم کی خوبیوںاورسیکولرزم کے اعلیٰ اقدارپر عمل آوری کایہی وہ جذبہ ہے،جس کی وجہ سے ہمیشہ دنیا ہندوستان کی عظمت کی معترف رہی، مگر بی جے پی وآرایس ایس کی جانب سے مذہب کاتڑکا لگاکرمذہب کی گندی سیاست کھیلنے کا سلسلہ پروان چڑھا ہے،دنیا بھر میں ہندوستان کا وقار خاک میں مل رہاہے۔
کچھ دیر کیلئے اگریہ مان بھی لیا جائے کہ یہ ملک کل کوہندوریاست بن گیا، تمام اقلیتوں کو دونمبر کا شہری بنا دیاگیا،منوسمرتی کولاگوکر دیاگیا ، ریزرویشن کو ختم کردیاگیا اوریکساں سول کوڈ بھی نافذ کردیاگیا توکیا ملک کا دلت طبقہ اسے مان لے گا؟ بالکل نہیں،تواس طرح تویہ ملک دارالامن نہیں رہ کرخانہ جنگی کاگڑھ بنا جائے گا۔مجبوراً لوگ اس کے خلاف کھڑے ہوں گے جس سے پورے ملک میںفسادات پھوٹ پڑیں گے پھریہ سلسلہ کہاںتک جائے گا،ہم اس کا اندازہ بھی نہیںلگا سکتے۔ پھر یہ بھی توہوسکتا ہے مسلمان اوردلت ایک ہوجائیں اور اپنے اوپر آئی مصیبتوں کا ساتھ مل کر مقابلہ کریں۔ تب ملک کا کیاہوگا؟
کیا آرایس ایس دیکھ نہیں رہی ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اٹھا طلبہ کااحتجاج اب پورے ملک میں پہنچ چکاہے، جس میں اکثریتی طبقہ بھی جوق درجوق شامل ہورہا ہے۔ اس احتجاج کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس میںشامل ہونے والے لوگوںمیں 90فیصد نوجوان ہے، جس کی عمر20سے 30کے درمیان ہے۔ یہ وہی طبقہ ہے جوانٹرنیٹ کے ساتھ سوتا اورجاگتا ہے۔ ان نوجوانوں میں مذہب کے تئیں وہ جنون نہیں ہے، جو 30سے زائدعمروالوں میں ہے لہٰذا ان کو ایک دوسرے سے الگ کرنا ممکن نہیں۔ حکمراںجماعت نے پوری کوشش کی کہ اس احتجاج کوکسی طرح فرقہ وارانہ رنگ میں رنگ دیا جائے مگر بھلاہو سوشل میڈیا کا کہ ایسی ایسی ویڈیو وائرل ہوئی کہ حکومت میںشامل ایسے لوگ اپناسامنہ لے کر رہ گئے۔
حکومت اورگودی میڈیا نے اپوزیشن خاص کر کانگریس کا نام لے کر احتجاجات کو بدنام کرنے کی کوشش کی،مگر سچ یہ بھی ہے کہ حکومت کا یہ حربہ بھی ناکام ہوگیا۔ حکومت شاید اندھی ہوگئی ہے جسے یہ نہیں دکھ رہاہے کہ ان احتجاجوں میں لوگ اپنی مرضی سے شامل ہورہے ہیں، کہیں کوئی جماعت یاپارٹی نہ توان مظاہروں کی پشت پناہی کررہی ہے اور نہ ہی کسی طرح سے وہ احتجاج میں شامل ہے ، جوعموماًعام دنوں میں یا موسم انتخاب کی بڑی بڑی ریلیوں میں لوگوںکو بہلاپھسلاکرلے جایا کرتی ہے۔ جب کہ اس کے برخلاف حکومت کی حمایت میں کی گئی ریلیوںکا معاملہ بالکل اُلٹا ہے۔ان میں نہ توزیادہ لوگ شامل ہورہے ہیں اورنہ ہی ان میں وہ جذبہ اور خلوص نظرآتاہے، بلکہ سوشل میڈیاپرایسے کئی ویڈیوز دیکھنے کو مل جاتے ہیں جو پیسے لے کر احتجاج میں شامل ہونے کی ازخود کہانی بیان کرتے ہیں۔ دنیاجانتی ہے کہ آرایس ایس کے 60لاکھ سے زیادہ ممبرہیں جو پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اور یہ سارے ممبر نہایت وفادار اورہندوتو پرجان چھڑکنے والے ہیں لہٰذا جہاں بھی حکومت کے حق میںپروگرام ہورہے ہیں، اُن میں زیادہ تریہی لوگ شامل ہوتے ہیں اور تھوڑے بہت بی جے پی ورکر بھی تقریب کاحصہ بنتے ہیں۔
اپنی عزت، وقار، گھر اور اقتصادیات کے ساتھ ایمان کوبچانے کیلئے اب ’ کرویایامرو‘کے حالات پیداہوگئے ہیں ،کیوں کہ جس طرح کی نفرت،تعصب،حیوانیت اورظلم جبر سے بھرپور دور اس حکومت نے بنایا ہے، اس سے امن پسند عوام کااحتجاج میں شامل ہونا لازمی ہوگیاہے، کیونکہ این آرسی کے نفاذکی صورت میں کروڑوں مسلمانوں اوردلتوںکی شہریت ختم کردی جائے گی اورانھیںدونمبر کاشہری بناکر انھیں ڈٹینشن کیمپوں میں ڈال دیا جائے گا۔ ممکن ہے یہودیوں کی طرح انھیں بھی ایک ساتھ ختم کرنے کی بھی ان کی پلاننگ ہو۔ کیوں نئے لوگوں کوشہریت دے کر انھیں اپناپختہ ووٹربناکرملک کے اقتدار پرتادیرقابض رہنا بھی ان فاششٹ طاقتوں کی پالیسی کاایک حصہ ہے۔ وطن عزیز کوبچانے کے لیے ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ احتجاج کا حصہ بن کر حکومت کواپنی طاقت دکھائے اور یہ اس وقت تک جاری رہے،جب تک نفرت،جھوٹ اور فریب پرمبنی یہ کالاقانون ختم نہیں ہوجائے۔
یہ ملک پیار محبت کاگہوارہ ہے۔ یہاں کا ہرشہری اپنے وطن سے دل وجان سے بھی زیادہ محبت کرتاہے، تبھی تواس کی حفاظت کیلئے اپنی جان دینے میں وہ کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا،1947کی آزادی کی لڑائی اس کی مثال ہے۔ جس طرح تمام برادران وطن نے ساتھ مل کریہ لڑائی لڑی تھی اور انگریزوں کے خلاف ملک کے باشندوںنے متحد ہوکر لوہالیاتھا اور لاکھوں کی تعداد میںاپنی جانیں ملک کی سالمیت کے لیے قربان کی تھی،وہی وقت پھر آگیاہے۔ہمیںملک کو بچانے کیلئے اور نفرت پسندسیاسی طاقتوں کامضبوطی کے ساتھ مقابلہ کرنا ہوگا۔ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ یہ طاقتیں ہمارے درمیان پیار اور بھائی چارے کوختم کرکے ہمیں ایک دوسرے کادشمن بنارہی ہیں اور اس کیلئے مذہب کوبطورہتھیار استعمال کیاجارہاہے۔ پچھلے دنوں میرٹھ میں احتجاج کے دوران کئی نوجوانوںکوپولیس کی گولیوں سے بھون دیاگیا اوریہ حکومت کے اشاروں پرہوا۔حکومت نے ’بدلہ‘ لینے کی بات کرکے پولیس کو احتجاجیوں کومارڈالنے کی چھوٹ دی تھی،جس کا نتیجہ کیا نکلا،ہم سبھوں نے دیکھا۔بہت سے مظاہرین کی جائیدادیں قرق کی گئیں اور ہزاروں لوگوں کو جیل میں ڈال دیاگیا۔گویایہ ایساظلم و جبر ہے جس کی مثال پچھلے 72سالوں میں نہیں ملتی۔ آپ کومعلوم ہوناچاہیے میرٹھ وہی جگہ ہے جہاں سے1857کی جنگ آزادی کی شروعات ہوئی تھی۔
آج دنیا کے تمام بڑے اخبارات اورٹی وی چینل پراحتجاج کی خبریں دکھائی جارہی ہیں،ان پربڑے بڑے اداریے لکھے جارہے ہیںجس میں مودی حکومت کے نفرت آمیز اور متعصبانہ برتاؤ کا ذکر بھی ہوتاہے مگردنیاکے ’سربراہ‘ ممالک نے ابھی تک اس پر نہ توکوئی بڑابیان دیا ہے اور نہ ہی مودی حکومت کی سرزنش کی ہے۔
احتجاج کرنا ہمارا آئینی حق ہے ہمیں پر امن احتجاج جاری رکھنا ہے، چاہے اس کے لیے ہمیں کیسی بھی قربانی کیوں نہ دینی پڑے،کیوں کہ یہ آخری موقع ہے۔ ہمیں تمام دوسری قوموں کو اپنے ساتھ ملاکر گاؤں گاؤں، بستی بستی اور شہرشہر میںگھر سے باہرنکلناہے۔ غیرمسلموں سے اپنے تعلقات کو بنانے اورانھیں مستحکم کرنے کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی اور ان سے بہتراخلاق کامظاہرہ بھی کرناہوگا۔ یہ ہندوستان ہمارا وطن ہے،لہٰذاوطن عزیزکی بہبودی کیلئے ہمیں بڑی قربانی دیناہمارافریضہ ہے،ہم یہیںپیداہوئے ہیں اور یہیں ہی مریں گے بھی!
اداس ذہنوں کو لفظوں سے نور کیا دے گا
کتابِ فکر کے جب حاشیے ہی کالے ہیں
¡¡
Dr. Hanif Tarin
صدر’مرکزعالمی اردومجلس‘بٹلہ ہاؤس،جامعہ نگر،نئی دہلی25-
# : 9971730422
tarinhanif@gmail.com