سی اے اے کیخلاف جامعہ مارچ

0
0

’یہ لو آزادی‘ کہتے ہوئے شرپسند نے چلائی گولی،طالب علم شاداب زخمی
فائرنگ کے بعد مظاہرے میں شدت؛ بھاری تعداد میں پولیس فورس تعینات
لازوال ڈیسک

نئی دہلی؍؍شہریت قانون اور این آر سی کے خلاف احتجاجی مظاہرے پورے ملک میں جاری ہیں اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا بھی گزشتہ ایک مہینے سے یونیورسٹی کیمپس کے باہر پرامن مظاہرہ کر رہے ہیں۔ 30 جنوری کو جب یہ مظاہرہ یونیورسٹی احاطہ کے باہر پرامن طریقے سے جاری تھا تو ایک شرپسند شخص نے اچانک کٹّا لہرانا شروع کر دیا درجنوں پولس اہلکار کی موجودگی میں بے خوف انداز میں گولی چلا کر ایک طالب علم کو زخمی کر دیا۔ زخمی طالب علم اس وقت جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قریب ہولی فیملی اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔میڈیا ذرائع سے موصول ہو رہی خبروں کے مطابق زخمی کا نام شاداب ہے اور وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ماس کمیونکیشن کا طالب علم ہے اورجموں وکشمیرکے خطہ چناب کے بھدرواہ کارہنے والاہے۔ خبروں کے مطابق گولی چلانے والے کی بھی شناخت ہو چکی ہے اور اسے نابالغ بتایا جا رہا ہے، جسے پولس نے گرفتار کر لیا ہے۔ پولس نے اس سلسلے میں زیادہ جانکاری میڈیا کو نہیں دی ہے اور صرف اتنا کہا ہے کہ اسے گرفتار کر لیا گیا ہے اور پوچھ تاچھ ہو رہی ہے تاکہ ضروری کارروائی کی جا سکے۔گولی چلانے والے نوجوان نے اس واقعہ سے قبل جس طرح کی زبان استعمال کی، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہندوتوا ذہنیت کا حامل ہے۔ جو ویڈیو سامنے آیا ہے اس میں ’ہندوستان زندہ باد‘، ’دہلی پولس زندہ باد‘ کا نعرہ لگایا اور پھر ’یہ لو آزادی‘ کہتے ہوئے فائرنگ کر دی۔ وہ لگاتار لوگوں کو دھمکی دیتا ہوا بھی نظر آیا۔ واقعہ پیش آنے کے بعد پولس اسے گرفتار کر کے نیو فرینڈس کالونی تھانہ لے گئی ہے۔اس دوران دہلی کے جامعہ علاقے میں ہندوتوا انتہا پسند کی فائرنگ کے بعد مظاہرے میں شدت آ گئی ہے۔ مظاہرین نے بیریکیڈ کو توڑنے کی کوشش کی ہے۔ علاقے میں پولیس فورس کی ایک بڑی تعداد تعینات کر دی گئی ہے۔ پولیس مظاہرین کو ہٹانے میں مصروف ہے، جبکہ طلبا پر لاٹھی چارج کرنے کی بھی اطلاع موصول ہوئی ہے۔جمعرات کے روز دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی سے راج گھاٹ تک شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور قومی شہریت رجسٹر (این آر سی) کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے مارچ کے دوران ایک شخص نے فائرنگ کر دی تھی۔ فارئنگ کے دوران جامعہ کا طالب علم شاداب فاروق زخمی ہو گیا۔ شاداب کو علاج کے لئے ہولی فیملی ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا جہاں سے انہیں ایمس کے لئے ریفر کر دیا گیا۔ادھر، میڈیا رپورٹوں میں دعوی کیا جا رہا ہے کہ جامعہ علاقہ میں فائرنگ کرنے والا شخص نابالغ ہے۔ فائرنگ سے قبل حملہ آور نے فیس بک پر نفرت آمیز پوسٹ ڈالی تھیں اور فائرنگ کے وقت ’فیس بک لائیو‘ بھی کیا تھا۔ واقعہ کا المناک پہلو یہ ہے کہ جس وقت حملہ آوار دیسی طمنچہ سے فائرنگ کر رہا تھا، تو پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔واضح رہے کہ آج یعنی 30 جنوری کو مہاتما گاندھی کے یوم شہادت کے موقع پر وہ طلباء راج گھاٹ تک مارچ نکالنا چاہتے تھے جو 15 دسمبر سے جامعہ کے گیٹ نمبر-7 کے باہر احتجاج کر رہے ہیں۔ یہ طلباء شہریت ترمیمی قانون کے خلاف راج گھاٹ تک پا پیادہ مارچ نکالنے کے لئے آگے بڑھنا چاہتے تھے۔ تاہم، پہلے فائرنگ کے واقع اور بعد میں پولیس کی طرف سے روکے جانبے کے بعد مارچ ناکام ہو گیا۔پولیس نے جمعرات کی سہ پہر کے بعد جمنا پر بنے قدیم ترین لوہے کے پل کے ایک حصہ کو بند کر دیا تھا۔ لوہا پل کا یہ حصہ ’شانتی ون‘ اور پھر وہاں سے مہاتما گاندھی کی سمادھی راج گھاٹ تک پہنچنے کا ایک اہم راستہ ہے۔ مشرقی دہلی کے گیتا کالونی سے راج گھاٹ کی طرف جانے والے جمنا کے پل کو بھی پولیس نے بیریکیڈ لگا کر بند کر دیا۔ گیتا کالونی سے راج گھاٹ تک فلائی اوور پر نیم فوجی دستہ تعینات کیا گیا تھا۔فائرنگ کے اس واقعے کے بعد دہلی پولیس نے آناً فاناً میں وسطی دہلی میں واقع جامع مسجد پر اضافی پولیس فورس تعنات کر دی کیونکہ ہجوم کو پہلے جامع مسجد پر ہی پہنچنا تھا اور اس کے بعد راج گھاٹ کی طرف کوچ کرنا تھا۔ تاہم، پولیس نے راج گھاٹ کی طرف مارچ کی اجازت دینے سے صاف انکار کر دیا۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا