کورونا وائرس کے بارے میں وہ انکشافات اور تفصیلات جو اب تک ہم جان چکے ہیں

0
0

چین کے شہر ووہان میں پہلی بار نمودار ہونے والے وائرس سے اب تک سو سے زائد ہلاکتیں اور ساڑھے 4 ہزار سے زائد افراد بیمار ہوچکے ہیں۔یہ وائرس جسے 2019 ناول کورونا یا این کوو کا نام دیا گیا ہے، کے بارے میں سب سے پہلے عالمی ادارہ صحت نے 31 دسمبر کو بتایا تھا اور جب سے اس کے بارے میں تحقیقات کی جارہی ہے۔چین کے سائنسدانوں نے اسے وائرس کے ایک خاندان کورونا وائرسز سے جوڑا ہے جس میں 2000 کی دہائی کا خطرناک سارس وائرس بھی شامل ہے۔سائنسدان اب تک پوری طرح اس نئے وائرس کی تباہ کن صلاحیت کو سمجھ نہیں سکے ہیں جبکہ محققین نے اب اس کی ابتدا، اس کی منتقلی اور پھیلاو کے بارے میں تعین کرنا شروع کیا ہے۔چین کی جانب سے اس کے پھیلا? کے حوالے سے بڑے پیمانے پر اقدامات کیے گئے ہیں جبکہ عالمی ادارہ صحت نے گزشتہ ہفتے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے قرار دیا کہ فی الحال اسے عالمی سطح پر عوامی ایمرجنسی قرار دینا قبل از وقت ہوگا۔اس وائرس کے بارے میں صورتحال بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور اب اس پراسرار وائرس کے بارے میں آپ وہ سب کچھ جان سکیں گے جو اب تک سامنے آچکا ہے اور ایسے کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں جن سے آپ اس میں مبتلا ہونے کا خطرہ کم کرسکتے ہیں۔کورونا وائرس کو جراثیموں کی ایک نسل Coronaviridae کا حصہ قرار دیا جاتا ہے اور مائیکرو اسکوپ میں یہ نوکدار رنگز جیسا نظر آتا ہے، اور نوکدار ہونے کی وجہ سے ہی اسے کورونا کا نام دیا گیا ہے جو اس کے وائرل انویلپ کے ارگرد ایک ہالہ سے بنادیتے ہیں۔کورونا وائرسز میں آر این اے کی ایک لڑی ہوتی ہے اور وہ اس وقت تک اپنی تعداد نہیں بڑھاسکتے جب تک زندہ خلیات میں داخل ہوکر اس کے افعال پر کنٹرول حاصل نہیں کرلیتے، اس کے نوکدار حصہ ہی خلیات میں داخل ہونے میں مدد دیتا ہے بالکل ایسے جیسے کسی دھماکا خیز مواد سے دروازے کو اڑا کر اندر جانے کا راستہ بنایا جائے۔ایک بار داخل ہونے کے بعد یہ خلیے کو ایک وائرس فیکٹری میں تبدیل کردیتا ہے اور مالیکیولر زنجیر کو مزید وائرسز بنانے کے لیے استعمال کرنے لگتا ہے اور پھر انہیں دیگر جگہوں پر بھیجنے لگتا ہے، یعنی یہ وائرس دیگر خلیات کو متاثر کرتا ہے اور یہی سلسلہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔عموماً اس طرح کے وائرسز جانوروں میں پایا جاتا ہے جن میں مویشی، پالتو جانور، جنگلی حیات جیسے چمگادڑ میں دریافت ہوتا ہے اور جب یہ انسانوں میں منتقل ہوتا ہے تو بخار، سانس کے نظام کے امراض اور پھیپھڑوں میں ورم کا باعث بنتا ہے۔ایسے افراد جن کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے یعنی بزرگ یا ایچ آئی وی۔ ایڈز کے مریض وغیرہ، ان میں یہ وائرسز نظام تنفس کے سنگین امراض کا باعث بنتے ہیں۔سارس یا مرس جیسے کورونا وائرسز آسانی سے ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہوجاتے ہیں، سارس وائرس 2000 کی دہائی کی ابتدا میں سامنے آیا تھا اور 8 ہزار سے زائد افراد کو متاثر کیا تھا جس کے نتیجے میں 800 کے قریب ہلاکتیں ہوئیں۔مرس 2010 کی دہائی کے ابتدا میں نمودار ہوا اور ڈھائی ہزار کے قریب افراد کو متاثر کیا جس سے 850 سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔2019 ناول کورونا وائرس بظاہر چین کے شہر ووہان کی ہوانان سی فوڈ ہول سیل مارکیٹ سے پھیلنا شروع ہوا۔ووہان ایک کروڑ 10 لاکھ سے زائد آبادی کا شہر ہے اور اس مارکیٹ میں مچھلیوں کے ساتھ ساتھ دیگر جانوروں جیسے چمگادڑ اور سانپ کا گوشت بھی فروخت کیا جاتا ہے اور وائرس سامنے آنے کے بعد اس مارکیٹ کو یکم جنوری کو بند کردیا گیا۔ماضی میں پھیلنے والے وبائی امراض میں بھی مارکیٹیں ان کے آغاز اور پھیلاوکا باعث ثابت ہوئی ہیں اور اب تک جن افراد میں اس وائرس کی تصدیق ہوئی ہے، ان میں سے بیشتر حالیہ ہفتوں میں ووہان سی فوڈ مارکیٹ میں جاچکے تھے، یعنی یہ مارکیٹ وائرس کی ابتدا کے معمے کا اہم حصہ ہے، مگر سائنسدانوں کو فی الحال مختلف تجربات اور ٹیسٹوں کے بعد اس کی تصدیق کرنا ہوگی۔طبی جریدے جنرل آف میڈیکل وائرولوجی میں شائع ایک رپورٹ میں چین کے محققین نے عندیہ دیا تھا کہ سانپوں میں 2019 ناول کورونا وائرس کے پھیلا? کا باعث بننے والا ممکنہ جاندار ہے، اس مقصد کے لیے انہوں نے وائرس کے جینیاتی کوڈ کا تجزیہ کرنے کے بعد اس کا موازنہ 2 اقسام کے سانپوں میں چینی کوبرا اور کرایت سے کیا گیا۔ محققین کے مطابق سانپوں کا جینیاتی کوڈ اور اس وائرس میں بہت زیادہ مماثل پائی جاتی ہے۔مگر اس تحقیق کے فوری بعد 2 دیگر تحقیقی رپورٹس میں اس دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس وائرس کو پھیلانے والا جاندار چمگادڑ ہے۔چین کے ہی سائنسدانوں کے ایک گروپ نے ایک آن لائن مقالے میں کہا کہ انہوں نے وائرس کے جینیاتی کوڈ کا موازنہ پہلے کے سارس کورونا وائرس اور چمگادڑ کے دیگر کورونا وائرسز سے کیا اور انہوں گہرائی میں جینیاتی مماثلت کو دریافت کیا۔یہ وائرس اپنے جینز کے 80 فیصد حصے کو ماضی کے سارس وائرس اور چمگادڑوں میں پائے جانے والے کورونا وائرز کے 96 فیصد حصے سے شیئر کرتا ہے، سب سے اہم بات یہ تھی کہ تحقیق میں ثابت کیا گیا کہ یہ وائرس خلیات پر بالکل اسی طرح داخل اور کنٹرول کرسکتا ہے جیسا سارس کرتا ہے۔ماضی کی دریافتوں سے قطع نظر اب بھی اس نئے وائرس کی بنیادی حیاتیاتی معلومات کے بارے میں جاننے کے لیے بہت کچھ باقی ہے اور پھر مستند طور پر بتایا جاسکے گا کہ کونسا جانور انسانوں میں اس کی منتقلی کا باعث بنا، فی الحال سانپ اور چمگادڑوں کو ہی اس کا سبب سمجھا جارہا ہے۔اب تک چین سمیت 17 ممالک میں ساڑھے 4 ہزار سے زائد کیسز کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ لگ بھگ 7 ہزار مشتبہ کیسز سامنے آئے ہیں۔چین میں اب تک 4495، ہانگ کانگ میں 8، مکاومیں 6 (ہانگ کانگ اور مکاو چین کے زیرتحت خودمختار ریاستیں ہیں تو انہیں ایک ہی سمجھ لیں)، تھائی لینڈ میں 14، امریکا میں 5، آسٹریلیا میں 5، تائیوان میں 5، جاپان میں 4، ملائیشیا میں 4، سنگاپور میں 4، فرانس میں 3، ویت نام میں 2، جرمنی میں ایک، کمبوڈیا میں ایک، کینیدا میں ایک، نیپال میں ایک، سری لنکا میں ایک اور آئیوری کوسٹ میں ایک کیس کی تصدیق ہوئی ہے۔اس وائرس کے پھیلاونے کے لیے ایک آن لائن میپ کو سینٹر فار سسٹمز سائنس اینڈ انجنیئرنگ کے زیرتحت تشکیل دیا گیا جس میں عالمی ادارہ صحت، امریکا، چین اور یورپی ڈیزیز کنٹرولز سینٹرز کے ڈیٹا کے ذریعے ہر وقت اپ ڈیٹ کرتے ہوئے مصدقہ، مشتبہ اور صحت یاب مریضوں کے ساتھ اموات کی تعداد دیکھی جاسکتی ہیں۔اب تک 107 اموات اس وائرس کے نتیجے میں ہوچکی ہیں جو سب چین میں ہوئیں اور فی الحال چین سے باہر ایسی کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی۔اس نئے کورونا وائرس کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟ائنیز سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینٹیشن نے ووہاں میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم بھیج کر اس نئے وائرس کے بارے میں تفصیلات اکٹھی کی اور مریضوں کے ٹیسٹ کیے تاکہ اس کنٹرول کرنے کے اقدامات پر غور کیا جاسکے۔نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں اس ٹیم کے نتائج کو شائع کیا گیا جن کے مطابق 3 مریضوں کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا، الیکٹرون مائیکرو اسکوپ کو استعمال کرکے جینیاتی کوڈ پر تحقیق کی گئی اور اس کے بعد ٹیم پہلی بار ناول کورونا وائرس کو دیکھنے اور جینیاتی طور پر شناخت کرنے میں کامیاب ہوئی۔جینیاتی کوڈ کو سمجھنے سے سائنسدانوں کو 2 پہلو?ں کے بارے میں سمجنے میں مدد مل سکے گی، یعنی انہیں ایسے ٹیسٹ بنانے میں کامیابی حاصل ہوسکتی ہے جو مریضوں کے نمونوں میں اس وائرس کی شناخت کرسکے اور ویکسین یا طریقہ علاج کو تشکیل دینے میں مدد مل سکے گی۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا