کشمکش بھری زندگی
ریتیلی زمین کے تپتے صحرا میں
اٹھا پٹخ کے بیچ
کبھی وقت ہی نہیں رہا
زندگی کے پاس
کہ کبھی سنہرے خوابوں کی جوت جلاتی
جانے کب بوجھل ہوگئی آنکھیں
ذمہ داریوں کے بوجھ
اٹھاتے تھکتے کندھے
وقت کے تیزی سے گھومتے پہیے میں قید
دل کے ہزاروں ارمانوں کو
باندھنے کی کوشش کرتے کرتے
کب خود کو مٹا ڈالا
پتہ ہی نہ چلا……….
کبھی خود کو نہ جانا
نہ پہچانا………….
مدتوں بعد آج
دل کے کسی کونے میں
اجلے ارمانوں کی ایک لہر دوڑی
کہ وقت کے پہیوں کو ذرا تھام کر
سنہرے خوابوں کو خود میں قید کر
اپنے پنکھوں کو آزاد کر دوں
اڑنے کے لیے
اپنے زندگی کی تاریکیوں کو مٹا کر
نئے جہاں کی تلاش کروں
خود کو ٹٹولوں
چلوں آج خود سے
ملاقات کروں ………..
صالحہ صدیقی
(جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی)