صیغۂ راز و اسیرِ ذات

0
0

:  انیس صدیقی صیغۂ راز و اسیرِ ذات
یاد نہیں پڑتا کہ انیس صدیقی سے میرا تعارف کب ہواتھا۔ان سے باقاعدہ متعارف ہونے اور ملاقاتوں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب نیشنل ڈگری کالج (ایوننگ) میں بہ طور جزوقتی اُردو لکچرر میرا تقرر ہوگیاتھا اور انیس صدیقی وہاں نیشنل پی یو کالج میں مستقل طورپر اُردو لکچرر کی خدمات انجام دے رہے تھے۔ان دنوں کالج کے اوقات کار کے بعد ہماری ملاقاتیں معمول بن گئی تھیں۔یہ سلسلہ قریب آٹھ دس ماہ چلتا رہا۔ میں انجینئرنگ کی ملازمت کے ساتھ ساتھ شام میں اُردو پڑھایا کرتاتھا(میں نے انجینئرنگ کے بعد اُردو میں ایم اے کیاہے)جب میری ملازمت بہ حیثیت اسسٹنٹ انجینئر مستقل ہوگئی تو مجھے اُردو لکچرر کی ملازمت ترک کرنی پڑی اور ہماری ملاقاتوں میں وقفے درآنے لگے۔ اس دوران ہم نے گلبرگہ کے جدید قلم کاروں کاایک انتخاب ترتیب دینے کا منصوبہ بنایا۔یہ سن 1995 کی بات ہے اس کام کی ابتدا ہوبھی چکی تھی لیکن میری ملازمت کی مصروفیات کے باعث یہ کام کچھ عرصے تک معطل رہا ۔ قریب چار پانچ برسوں بعد اس کام کی تجدید ہوئی اورسن 2001میں یہ انتخاب ’’افلاک‘‘کے زیرِ عنوان شائع ہوا جس کے مرتبین راقم الحروف اور انیس صدیقی تھے۔اس عرصے میں مجھے انیس صدیقی کو کچھ قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اس کے بعد بھی تاحال میں انھیں دیکھ ہی رہا ہوں ،میں انھیں کتنا دیکھ پایا ہوں قطعی طورپر کہنا دشوار ہے۔ہاں اسے دیکھنے کی کوشش ضرور کہا جاسکتاہے۔ جب میں نے انیس صدیقی کو پہلی بار دیکھا تھا تو مجھے پتہ چلا کہ دنیا میں مجھ سے بھی زیادہ دبلے پتلے لوگ موجود ہیں۔اس وقت ان کا وزن مطلوبہ معیار سے بارہ پندرہ کلوگرام کم رہا ہوگا۔ ان کی جسامت میں سب سے وزنی چیز ان کی مونچھیں اور عینک ہواکرتی تھی۔ادھر مونچھوں اور عینک کے وزن میں قابل لحاظ تخفیف ہوئی ہے اور پچھلے 25سالوں میںان کے وزن میں سالانہ قریب ایک کلوگرام کا اضافہ ہوتا آرہاہے۔ سانولی رنگت،گھنے بال،گہری مونچھیں،ناک قدرے چھوٹی ،اسی مناسبت کا دہانہ،عینک سے ڈھکی متناسب گہری سیاہ آنکھیں، درمیانہ قد، بے حد ہلکی توند،ہلکے رنگوں والی پینٹ شرٹ میں ملبوس،ہمیشہ اِن شرٹ کئے ہوئے۔کالج کے اوقات میںجوتے پابندی سے پہنتے ہیں کالج کے بعد پیروں میں ایک ہی برانڈ کی چپل پہنے ہوتے ہیں لگتا ہے برسوں سے ایک ہی چپل پر اکتفا کررہے ہیں۔انھیں پینٹ شرٹ کے علاوہ کسی اور لباس میں شاید ہی دیکھا گیاہو۔بہت Typed Tasteہیں۔خالص سبزی خور،ادھراس معاملے میں کسی قدر بے راہ روی کا شکار ہوئے ہیں انڈے کو زحمت دے رہے ہیں۔ چکن کاایک آدھ ڈرائی پیس یوں نوش فرماتے ہیں جیسے ممنوعہ چیز چھو رہے ہوں۔کچھ لوگ پیداہی کھانے کے لیے ہوتے ہیں،کچھ جینے کے لیے کھاتے ہیں،انیس صدیقی کا شمار ضرورت سے کم کھانے والوں میں ہوتاہے اوروہ بھی بہت سی تحدیدات کے ساتھ،یہ یقین سے کہاجاسکتاہے کہ ان کے ساتھ کھانے والا کبھی بھر پیٹ نہیں کھاسکتا۔میٹھے کے شوقین ہیں۔ان کی سگریٹ نوشی گھر سے باہر فارغ اوقات میں ہوتی ہے۔مروتوں اور اخلاقیات کے مارے انیس صدیقی اس معاملے میں خاصے بے نیاز اور اخلاقیات سے صرفِ نظر کرتے نظر آتے ہیں۔اس بے نیازی کی وجہ ان کی خود اعتمادی ہے یا دنیا کوخاطر میں نہ لانے کا رویہ میں سمجھ نہ سکا۔ان کا یہ شوق عمر کی حدبندیوں کا قائل نہیں ۔شہر میں کچھ ہی لوگ ہوں گے جن کے آگے یہ اپنے شوق کو روک پاتے ہیں۔تاہم ان کا یہ شوق سرِ عام نہیں ہوتا۔ انیس صدیقی حددرجہ کم سخن،بے حد کم آمیز اور نستعلیق قسم کے آدمی ہیں۔حلقۂ احباب بے حد مختصر ومخصوص ہے۔سماجی روابط کو ضرورت سمجھتے ہیں اور ضروری حد تک ہی روابط کے قائل ہیں۔غیر جذباتی ،تعقل پسند منطقی سوچ کے حامل ہیں۔میں نے انہیں کبھی کسی معاملے میں جذباتی ہوتے نہیں دیکھا۔ دنیا اوراپنے اطراف سے ان کا تعلق(بہ ظاہر) بڑا غیر جذباتی ہوتاہے۔ان کی کم آمیزی کا عالم یہ ہے کہ اگر انھیںکسی سے ملنا ہوتو مقررہ وقت سے پانچ منٹ پہلے پہنچنے میں بھی گھبراتے ہیں کہ کسی غیر مطلوبہ شخص سے ملنا نہ پڑجائے۔ لہٰذا مقررہ وقت سے پانچ دس منٹ بعد پہنچنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔  کبھی ایسا ہوکہ مقابل کو آنے میں کچھ تاخیر ہوجائے تو وہ انتظار میں خود کو اس قدر سمیٹے سکوڑے ہو ئے نظر آئیں گے کہ ہوا کے علاوہ ان کا کسی سے رابطہ نہ ہونے پائے۔ احباب سے ملاقات اور چائے نوشی کے ٹھکانے بھی مخصوص ہوتے ہیں۔اس کا م کے لیے بھی ایسی ہوٹل کا انتخاب کرتے ہیں جس پر کسی کی نظر نہ جاتی ہو اورہوٹل میں ہوٹل مالک ،بیرا اور پنکھے کی ہواکے علاوہ کچھ نہ ہو۔احباب سے مصافحہ بھی اس طرح کرتے ہیں جس طرح دو انگریزملاقات پر آپس میںگال مس کرتے ہیں۔معانقہ تو ان کے نزدیک انتہائی غیر جمالیاتی اور غیر ضروری کارگزاری ہے۔کسی کے گھر جانا یا کسی کو اپنے گھر بلانا اپنی کم آمیزی کی تحدیدات میں رخنہ اندازی تصور کرتے ہیں۔اعزا و اقرباسے ان کی ملاقات سوگ سہاگ کے موقعوں پر گھر سے باہر ہی ہواکرتی ہے۔انیس صدیقی اپنا ہرکام بہت رازداری بلکہ پراسرار رازداری سے کرنے کے قائل ہیں۔وہ کام کب کرتے ہیں ،کس طرح کرتے ہیں ان کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا۔ان کا ہرکام صیغۂ راز میں ہوتاہے۔کبھی کبھی لگتاہے یہ کسی خفیہ ایجنسی سے متعلق فرد ہیں۔ان کے ملنے جلنے والے کم افراد کو ان کے گھر کا پتہ معلوم ہوگا۔ اپنی پچیس سالہ دوستی میں میں نے ان کے فرزند کی ایک جھلک سرراہ موٹر سیکل پر دیکھی ہے۔یہ عقدہ بھی میرے استفسار کے بعدہی کھلا۔اس کم آمیزی سے قطع نظر حسنِ اخلاق،اقدارکا پاس ولحاظ ان کے مزاج کا خاصہ ہے۔میں نے انھیں کبھی بداخلاقی کا مرتکب ہوتے نہیں دیکھا۔حدتویہ کہ وہ کسی کے ساتھ ہوں ، بات چیت ختم ہوگئی ہو،ان کو اور مقابل کو نکلنا بھی ہو،تب بھی انیس صدیقی خود سے کبھی اجازت طلب نہیں کریں گے جب تک کہ مقابل اس کارِ خیر میں پہل نہ کرے۔اونچی آواز میں گفتگو کرنا وہ شاید ہی جانتے ہوں۔میں سوچتا ہوں پڑھاتے وقت ان کے طلبا کا کیا حال ہوتاہوگا۔بے حد محتاط لئے دیئے رہنے والے فرد ہیں۔گفتگو بھی کرتے ہیں تو لگتاہے سوناتول رہے ہیں۔مبادا ناپ تول میں فرق ہوجائے تو قابل گرفت نہ ٹھہریں۔شہرت پسندی اور نمود طلبی سے ان کو کوئی علاقہ نہیں ہے۔خود کو چھپائے رکھنے کے لیے طرح طرح کے جتن کرتے رہتے ہیں۔جب کہ فی زمانہ لوگ باگ اس کارِ قبیح کو مقصدِ حیات بنائے ہوئے ہیں۔ انیس صدیقی اپنے طبعی میلان،مناسبت اور رغبت سے ہٹ کر کوئی کام کرنا پسند نہیں کرتے۔جب انھوں نے انٹر پاس کرلیا اس وقت طلبا کا رجحان بلکہ جنون میڈیکل ، انجینئرنگ اور سائنس کے میدانوں کی طرف تھا اس وقت بھی انھوںنے اپنے لیے آرٹس کا میدان چنا اور اُردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور پیشہ تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کے لیے بھی انھوں نے صحافت کے موضوع کا انتخاب کیا جس سے انھیں بے حد شغف تھا۔اکثر لوگوں کی طرح نہیں جو گائیڈ کی رہنمائی میں قرعہ اندازی کے ذریعے اپنے موضوع کا انتخاب کرتے ہیں۔انیس صدیقی کو طالب علمی کے زمانے سے ہی ادبی صحافت سے دل چسپی رہی ہے۔بہت ہی کم عمری میں انھوںنے ایک سہ ماہی رسالہ’’نوائے عصر‘‘جاری کیا جو اپنے علاقے اوراس کے باہر بھی پسند کیا جارہاتھا کہ اکثرادبی رسالوں کی طرح یہ بھی مسدودی کا شکار ہوگیا لیکن انیس صدیقی کی اپنے موضوع سے دل چسپی جو ں کی توں برقرار رہی۔اوپر ذکر آچکا ہے کہ انیس صدیقی اپنے مزاج سے سرِمو انحراف کے قائل نہیں ہیں۔اس سلسلے میں عرض کردوں کہ اگروہ کسی بک اسٹال پر کتابیں خریدنے جائیں تو انھیں وہاں اپنی مطلوبہ ومقصودہ کتابوں کی تلاش کے سوا کچھ نہیں سوچھتا اورنہ کچھ اورنظر آتاہے۔وہ صرف صحافت،اشاریہ سازی اور تحقیق سے متعلق کتابیں ہی خریدیںگے۔سامنے میر،غالب ، اقبال،منٹو،بیدی نہ جانے کون کون ہوں گے مگرانھیں کوئی نظرنہیں آئے گا۔ان کا ہمراہی پتہ نہیں کون کون سی مطلوبہ ،غیر مطلوبہ کتابیں اپنی جھولی میں بھر رہاہوتاہے مگران کی آنکھ کو ادھر ادھر بھٹکنا ہرگز گوارا نہیں۔ خوردنوش ،لباس اوراحباب کے معاملے میں بھی یہی رویہ کارفرمانظر آتاہے۔بڑے ہی Choosy واقع ہوئے ہیں۔حلقۂ احباب کا یہ مختصر دائرہ بھی تواتر کے ساتھ سکڑ تااور پھر اپنی جگہ لیتا رہتاہے۔ دائرہ کا سمٹنا ہمیشہ کسی سبب اسباب کا رہین منت نہیں ہوتا اس کے لیے بس ’’انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو‘‘والی کیفیت ہی کافی ہوتی ہے اور دائرے کی اپنی جگہ بحالی کے لیے بھی کسی کدوکاوش کی چنداںضرورت نہیں ،تقاضائے وقت ہی اس بحالی کا موجب ہوتاہے۔کچھ برسوں سے انھوںنے اپنی کم آمیزی کے تحفظ کے لیے ایک نئی راہ نکالی ہے۔وہ یہ کہ انھیں کسی کافون ریسیو نہ کرنے کے دورے پڑنے لگے ہیں، جب ان پر یہ دورہ پڑتاہے کوئی بھی شخص اس کیفیت کی زد میں آسکتاہے۔یہ عمل شعوری ہے ،نفسیاتی یا کچھ اور سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس کیفیت میں رہنے والے انیس صدیقی کو ہمارے ایک بزرگ دوست صنف نازک کے مقابلے میں اپنا رقیب تصور کرتے ہیں۔وہ برسوں سے اس خیال میں اُلجھے ہوئے ہیںکہ ان کی منظورِ نظر کی نظر التفات انیس صدیقی پر ہے اور اس کا سبب بھی انیس صدیقی ہی ہیں۔مجھے اس بات کو تسلیم کرنے میں اس لیے بھی تامل ہے کہ جو شخص مصافحہ سے کتراتا ہو اور معانقہ کو غیر ضروری سمجھتا ہو اس سے اس عملِ احسن کی توقع کیو ںکرکی جاسکتی ہے۔تاہم ہمارے بزرگ دوست کے صاحبِ نظر ہونے میںبھی کوئی کلام نہیں۔ انیس صدیقی ایسے مسلمان ہیں جن سے نماز روزہ کی پابندی نہیں ہوپاتی اور نہ کبھی انھیں نماز پڑھتے یا روزہ رکھے دیکھا گیا۔اس کو تاہی اور بے عملی پر ان کا دل ملامت بھی کرتارہتا ہے۔ان بے عملیوں کی وجوہات انیس صدیقی ہی بہتر جانتے ہیں تاہم اس بات میں کوئی کلام نہیں کہ وہ ان بیسیوں بدعملیوں سے بچے رہنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جن کا ان فرائض کی ادائیگی کے باوصف اکثر لوگ ارتکاب کرتے رہتے ہیں۔امید کی جانی چاہیے کہ بے عملیوں پر کڑھنے والا دل یقینا راہِ عمل پر گامزن ہوگا۔ انیس صدیقی نے کتابوں کی ترتیب وتدوین،تحقیق اور اشاریہ سازی پر بڑے اہم کام کیے ہیں۔بلاشبہ یہ بڑے سلیقہ مند اور نفیس ترتیب کار کہلائے جانے کے مستحق ہیں ۔ان کی پہلی مرتب کردہ کتاب’’افلاک‘‘(بہ اشتراک اکرم نقاش)دوسری کتاب’’گلبرگہ میں شعرو ادب‘‘(بہ اشتراک حامد اکمل)تیسری کتاب ’’سوتکلف اور اس کی سیدھی بات‘‘(بہ اشتراک رحیل صدیقی)اور چوتھی کتاب ’’خاکہ نگاری اُردو ادب میں‘‘ہے۔ان کے پی ایچ ڈی کے مقالے کی تلخیص بہ عنوان’’کرناٹک میں اُردو صحافت‘‘ محققین کے لیے حوالے کی حیثیت رکھتی ہے۔ پچھلے کچھ برسوں میں انیس صدیقی نے اشاریہ سے اپنی غیرمعمولی دل چسپی اوراس سلسلے میں اپنے تحقیقی جوہر کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔انیس صدیقی شمس الرحمن فاروقی کے مداحوں اور عقیدت مندوںمیں شمار ہوتے ہیں۔جب یہ گلبرگہ کے ایک مقامی اخبار کا ادبی صفحہ ترتیب دیا کرتے تھے جس میں انھوںنے فاروقی صاحب کی تحریروں کے لیے ایک مستقل کالم ’’فاروقیات‘‘ کے زیرِ عنوان مختص کردیاتھا۔فاروقی صاحب کی تحریروں سے انیس صدیقی کا عشق وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا سو انھوںنے’ شب خون‘ کے توضیحی اشاریہ پر کام شروع کردیا۔یہ کام شب خون کی اشاعت کی مسدودی کے بعد شروع ہوا اور برسوں کی محنت شاقہ کے بعد یہ کتاب’ ’شب خون کا توضیحی اشاریہ‘‘ کے نام سے قریب 1500صفحات پر مشتمل دو جلدوں میں این سی پی یو ایل کے زیراہتمام شائع ہوئی۔اس کے بعد ان کی ایک اور کتاب ’’علامتوں کے صحرا کا مسافر‘‘ شمس الرحمن فاروقی کی نثری نگارشات کے اشاریہ پر مشتمل ہے ۔ان کی ایک اور زیرِ اشاعت کتاب شب خون میں شائع شدہ فاروقی صاحب کے وفیات ناموں کے اشاریہ پر مشتمل ہوگی۔انھیں آج کل ’شب خون اور شمس الرحمن فاروقی‘ کے علاوہ شاید ہی کچھ اور دکھائی دیتاہو۔میری دعاہے کہ انھیں اوربھی کچھ دکھائی دے اوران کی کچھ دیگر تحقیقی کاوشیں ہمیں دیکھنے کا موقع ملیں۔ تدریس کے میدان میں بھی ان کی صلاحیتیں قابل ستائش ہیں ۔یہ ایک بہترین استاد،اپنے فرائض کی انجام دہی میں اپنی مثال آپ ہیں۔یہ مختلف نصابی کمیٹیوں میں بہ حیثیت رکن اور بہ حیثیت صدر نصابی کمیٹی گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ان سارے کاموں کی خبربھی متعلقہ افراد کے علاوہ بہت کم لوگوں کو ہواکرتی ہے۔جیسے وہ کوئی کام نہیں ایساجرم کررہے ہیں جس کی پردہ پوشی ازحد ضروری ہو۔یہ تین مرتبہ کرناٹک اردواکاڈمی کے رکن رہے ہیں۔پہلی مرتبہ جب یہ اکاڈمی کے رکن نامزد کیے گئے انھوںنے پوری طرح آنکھیں بھی نہیں کھولی تھیں۔دوسری اور تیسری نامزدگی کے وقت ان کی آنکھیں اور ذہن مکمل طور پر کھلا اور روشن تھا۔کرناٹک اُردو اکاڈمی کے سالانہ ترجمان’’اذکار‘‘ کی ادارت بھی ان کے ذمے رہی۔بہت سے ریاستی سطح کے انعامات واعزازات سے سرفراز ہوئے۔ان کا یہ سفر جاری ہے۔قوی امید ہے یہ طویل مسافت طئے کریں گے۔ ترتیب کار،اشاریہ ساز،ادبی صحافی،تحقیق کار اور استاد انیس صدیق اپنی گوناگوں کارگزاریوں کے اظہار کے ساتھ ساتھ خود کو چھپائے اور بچائے رکھنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔  nnn

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا