آزادی کی دوسری لڑائی پہلی لڑائی سے بڑی ہے

0
0

جولوگ اس لڑائی میں حصہ نہیں لیں گے وہ اپنے بچوں کو کیا منہ دکھائینگے

عبدالعزیز

ہندستان سے انگریزوں کو بھگانے یا غلامی سے نجات پانے کیلئے آزادی کی طویل ترین لڑائی لڑنی پڑی تھی۔ بہتوں نے اس لڑائی میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ قربانی دینے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ جن لوگوں کا نام تاریخ میں نہیں ہے لیکن انھوں نے لڑائی میں حصہ لیا ہے تو ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں۔ آزادی حاصل ہوئی۔ آزادی کے تحفظ کیلئے کوششیں بھی جاری رہیں لیکن ایسے لوگ بھی ملک میں رہے اور ہیں جنھیں دشمنِ آزادی بھی کہا جاسکتا ہے۔ ایمرجنسی کے زمانے میں بھی آزادی پر قدغن لگا تھا لیکن بہت جلد بہت معمولی جدوجہد یا لڑائی سے جو مصائب اور مشکلات کا سامنا ملک کے باشندوں کو کرنا پڑا تھا ان سے نجات مل گئی اور آزادی کی گاڑی پھر سے پٹری پر آگئی۔ جو لوگ انگریزوں کے وفادار تھے لڑائی میں ان کا کوئی حصہ نہیں تھا ان کی خواہش اور آرزو یہی تھی کہ جو لوگ لڑائی میں حصہ لئے ہیں وہ کامیاب نہ ہوں، کیونکہ ان کے نزدیک مجاہدین آزادی کا ہندستان ہوگا۔ ان کا ہندستان میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ یہ سوچ اس طبقے کی تھی جس کو آج سنگھ پریوار کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 1925ء میں آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کی تشکیل ہوئی۔ آر ایس ایس کی کارگزاریاں اس کا لٹریچر، اس کی سیاسی سرگرمیاں اب ایسی نہیں رہیں جو لوگوں کو معلوم نہ ہوں۔ ہندو مہا سبھا آر ایس ایس کے ہی نظریے پر قائم تھی۔ دونوں کے نقطۂ نظر میں کوئی فرق نہیں تھا۔ ساورکر ہندو مہا سبھا کے لیڈر تھے جو بعد میں آر ایس ایس میں شامل ہوئے اور آر ایس ایس کے نظریہ ساز ہوئے۔ ہندوتو کا تصور انہی کا دیا ہوا ہے۔ اس گروپ کا یا اس قبیلے کا سب سے پست خیال یہ تھا کہ ہندوؤں کو متحد اور منظم کرنے کیلئے مسلمانوں سے نفرت اور ملک کو پاک کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی فلسفے پر وہ آج تک قائم ہے اور جو بھی ان کی راہ میں روڑا ثابت ہوا، چھوٹا یا بڑا اسے راہ سے ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ گاندھی جی ہندو مسلم کے علمبردار تھے، جس کی وجہ سے آر ایس ایس اور ساورکر کے شاگرد ناتھو رام گوڈسے نے گاندھی جی کا قتل کیا۔ اس سازش میں ساورکر بھی شامل تھے اور انھیں بھی گرفتار کیا گیا تھا لیکن تکنیکی وجوہ سے بعد میں انھیں رہا کردیا گیا۔ آر ایس کی ذہنیت کے لوگ آزادی کے بعد اور آزادی سے پہلے اپنے کام میں لگے رہے۔ کانگریس کو ہٹانے کیلئے جو محاذ جے پرکاش نرائن کی قیادت میں بنا یا وی پی سنگھ کی سربراہی میں بنا بدقسمتی سے دونوں محاذوں میں جن سنگھی شامل ہوگئے۔ جنتا پارٹی ایمرجنسی کے نتیجے میں بنی تھی جس میں جن سنگھ ضم ہوگئی اور جب جنتا پارٹی سے جن سنگھی الگ ہوئے تو انھوں نے اپنی پارٹی کا نیا نام بھارتیہ جنتا پارٹی رکھا۔ اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں ’این ڈی اے‘ یا ’بی جے پی‘ کی حکومت پانچ چھ سال تک قائم رہی۔ اس دوران آر ایس ایس نے اپنا بہت سا ایجنڈا نافذ کرنا چاہا لیکن کوئی بڑی کامیابی نہیں ملی۔ 2014ء میں نریندر مودی کی سربراہی میں جو حکومت بنی اور پھر 2019ء میں نریندری مودی دوبارہ برسر اقتدار آئے تو ملک کا منظر بالکل بدل گیا۔ 2014ء سے 2019ء تک مسلمانوں پر اور دَلتوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے۔ مسلمانوں کے کاروبار کو بھی تہس نہس کردیا گیا اور ملک کی معاشی حالت بھی ابتر ہوگئی۔ بے روزگاری بڑھی، کسان پریشان ہوئے اور وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہوئے۔ نوٹ بندی کی وجہ سے سیکڑوں لوگوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے جو معاشی ابتری ہوئی اس کا آج تک اثر ہے۔ ان سب کے باوجود فرقہ پرستانہ ماحول پلوامہ کا سانحہ اور بالاکوٹ کے سرجیکل اسٹرائیک کے ذریعے مودی اور شاہ نے ایسا سماں باندھا کہ ہندو مسلمان کو پولرائز کرنے میں سنگھ پریوار والے کامیاب ہوگئے۔ 39% ووٹ کے ذریعے بھاری اکثریت سے بی جے پی کامیاب ہوئی۔ اس کامیابی کے بعد کئی کالے قوانین اکثریت کے زعم میںبنانے میں کامیاب ہوئی۔ راجیہ سبھا میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود دباؤ اور لالچ کے ذریعے وہاں بھی انھیں کامیابی ملی۔ ملک کے باشندے مصیبتوں پر مصیبتیں سہنے کے باوجود خاموش رہے، لیکن این آر سی کے چرچے اور شہریت ترمیمی بل کے پاس ہونے کے بعد ملک سراپا احتجاج بن گیا۔ آج ملک کے کونے کونے میں اس قانون کے خلاف احتجاج ہورہے ہیں۔ اس لڑائی میں نوجوان خاص طور پر طالب علم بہت آگے ہیں۔ خواتین مردوں سے بہت آگے ہیں۔ سرد راتوں میں اپنے بال بچوں کے ساتھ بیٹھ کر مظاہرے کر رہی ہیں۔ سڑکوں پر لوگ اتر آئے ہیں۔ رام منوہر لوہیا نے کہا تھا کہ جب لوگ سڑکوں پر نہیں اترتے ہیں تو سنسد گمراہ ہوجاتی ہے۔ لوگ سڑکوں پر اترگئے اورمظاہرین پر گولیاں برسائی گئیں۔ صرف اتر پردیش میں 24سے زائد افراد شہید ہوئے۔ آسام اور دیگر شہروں میں بھی کئی لوگ جاں بحق ہوئے۔ سیکڑوں بلکہ ہزاروں لوگ جیلوں میں ہیں۔ پورا کشمیر قید خانے میں تبدیل کردیا گیا۔ اس کا خصوصی کردار بھی ختم کرکے اسے دو حصوں میں منقسم کردیا گیا۔ چھ مہینے ہونے کو آئے لیکن کشمیری آج بھی بنیادی حقوق اور بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں۔ عوامی تحریک یا عوامی جدوجہد یا عوامی احتجاج کامیابی کی طرف رواں دواں ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ حکومت بیک فٹ پر آگئی ہے لیکن وہ کالے قانون کو واپس لینے کیلئے تیار نہیں ہے۔ ہندستانیوں کے جذبات و احساسات اور سرگرمیوں کو مزید آزمانا چاہتی ہے۔  آج (23جنوری) کے انگریزی روزنامہ ’دی ٹیلیگراف‘ کے میٹرو میں تین تصاویر شائع کی گئی ہیں۔ ایک تصویر میں ’ٹاٹا اسٹیل لٹریری میٹ‘ وکٹوریہ میموریل ہال کے تعاون سے ایک اجتماع کو مصنف اور کانگریس کے ایم پی ششی تھرور خطاب کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ایک دوسرے اجتماع کو مصنف امیتا گھوش ایڈریس کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ بھی اجتماع وکٹوریہ میموریل میں ہوا۔ دونوں اجتماعات میں لوگ کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں اور دونوں اجتماعات کالے قانون کے خلاف منعقد کئے گئے ہیں۔ تیسری تصویر میں جو کالے قانون کی حمایت میں ہے اس اجتماع کو بی جے پی کے ممبر راجیہ سبھا اورمصنف سپن داس گپتا خطاب کرتے نظر آرہے ہیں اور ان کے اجتماع میں وشو بھارتی کے وائس چانسلر ودیوت چکرورتی بھی تھے۔ اس اجتماع میں کرسیاں خالی نظر آرہی ہیں، صرف چند شرکاء برائے نام نظر آرہے ہیں۔ اس سے اور اس طرح کے بہت سے مناظر اور سرگرمیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کالے قانون کے حمایتی کم ہورہے ہیں اور اللہ کے فضل و کرم سے کالے قانون کی مخالفت میں حمایتی روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ لوگوں کے جذبات کالے قانون کے خلاف اس قدر ابھر آئے ہیں کہ شاہین باغ دہلی اور مختلف علاقوں میں جو شاہین باغ کے طرز پر احتجاج ہورہے ہیں اور عورتیں رات دن ایک مقام پر دھرنے میں بیٹھی ہوئی ہیں، انھیں سرد ہواؤں تک کی پرواہ نہیں ہے ۔ اپنے چھوٹے چھوٹے اور ننھے منے بچوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہیں راقم نے اپنے ایک مضمون ’’شاہین باغ کا احتجاج: عالم آزاد کی آواز‘‘ … ’’کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر ‘‘میں تفصیل سے شاہین باغ کرشماتی مناظر پیش کئے ہیں۔ محترم مشرف عالم ذوقی اور جناب غوث سیوانی کے تاثرات بھی اس میں شامل ہیں۔  ششی تھرور نے مذکورہ اجتماع میں کہا ہے کہ ملک بھر میں جو احتجاج نئے کالے قانون کے خلاف ہورہے ہیں وہ در اصل آزادی کی دوسری جدوجہد ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے، کیونکہ پورا ملک کم و بیش اٹھ کھڑا ہوا ہے اور جبر و ظلم سہنے کیلئے بھی سینہ تانے ہوئے ہے۔ حقوق انسانی کے علمبردار مسٹر ہرش مَندر اسی جنوری کے مہینے میں ’ایف ڈی سی اے‘ کی دعوت پر کلکتہ آئے تھے۔ انھوںنے پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’سی اے اے، این آر سی‘ اور ’این پی آر‘ کے خلاف جو لڑائی لڑی جارہی ہے وہ آزادی دوسری لڑائی نفرت اور امتیازات کے خلاف ہے۔ ایک 65 سالہ آدمی جو مذکورہ اجتماعات میں شریک تھا اس کا کہنا ہے کہ جو لوگ انگریزوں کے ظلم و بربریت، جارحیت اور ناانصافی کے خلاف لڑے تھے آج وہ ہمارے نزدیک انتہائی قابل احترام ہیں۔ اور آج جو ظلم و بربریت، ناانصافی کے خلاف جنگ آزمائی ہورہی ہے اگر اس جنگ میں جو لوگ شریک نہیں ہوں گے اپنے بچوں سے وہ کیسے آنکھیں ملائیں گے؟  حقیقت تو یہ ہے کہ ’جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی‘۔ زندگی میں اگر جذبۂ انقلاب، جذبۂ اظہاراور جذبۂ ہمدردی نہ ہو تو اس کا وجود ملک و قوم اور انسانیت کیلئے بے معنی ہوتا ہے۔ اس کا وجود اور عدم وجود یکساں ہوتا ہے۔ جو لوگ قبروںمیں پڑے ہیں اور جو قبروں سے باہر ہیں مگر وہ ظلم و جبر کو دیکھ کر خاموش ہیں، دونوںمیں کوئی فرق نہیں ہے۔پہلے کی لڑائی انگریزوں سے تھی وہ گورے تھے اور آج جن سے لڑائی درپیش ہے وہ کالے ہیں۔ بس گورے اور کالے کا فرق ہے۔ دونوں جبر و ظلم میں یکساں ہیں۔ ایک طرح سے دیکھا جائے کہ یہ جو دوسری لڑائی ہے وہ کچھ زیادہ ہی سنگین ہے۔ یہ کالے انگریز عوام کو بھی مغالطے میں رکھتے ہیں اور دنیا بھی ان کے مغالطے میں آجاتی ہے۔ ملک کے سارے ادارے اس وقت مفلوج ہوتے جارہے ہیں۔ عدلیہ سے جو تھوڑی بہت امید باندھی گئی تھی وہ امید بھی ختم ہورہی تھی۔ سپریم کورٹ کے کل کے رویے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ججوں کو حالات سے بے خبری سی ہے۔ ملک بھر میں کیا ہورہا ہے اس پر ان کی نظر نہیں ہے۔ کشمیر کے معاملے میں بھی بے عملی کا ثبوت دیا ہے۔ کالے قانون کے معاملے میں کچھ ایسا عمل ظاہر ہورہا ہے جیسے ہندستان کی صورت حال حسب معمول ہے۔ حبیب جالب نے اپنے ملک میں جب عدالتیں بے عمل ہوگئی تھیں تو کہا تھا ؎ اس دیس میں لگتا ہے عدالت نہیں ہوتی…جس دیس میں انسان کی حفاظت نہیں ہوتی‘ ۔ اسی نظم کا آخری شعر کچھ اس طرح ہے  ؎’ہر شخص سر پہ کفن باندھ کے نکلے …حق کیلئے لڑنا تو بغاوت نہیں ہوتی‘۔  حبیب جالبؔ اور فیض احمد فیضؔ کی نظمیں ہندستان بھر کے احتجاجی مظاہروں میں پڑھی جارہی ہیں۔ ان سے بہت سے فائدے دیکھنے میں آرہے ہیں۔ ان کے ملک کی عدالت تو بدل گئی ہے۔ بدعنوانی پر بڑے سے بڑے لوگ جیل میں ڈالے جارہے ہیں، یہاں تک کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی حراست میں ہیں۔ وہاں کے سابق صدر پربھی مقدمہ چل رہا ہے۔ ضمانت پر رہا ہیں۔ ایک اور سابق صدر جو آمر بھی تھے وہ ملک سے باہر ہیں۔ عدالت نے ان کو سزائے موت کا فیصلہ سنایا ہے۔ اس وقت جو نظمیں فیض اور جالب کی پڑھی جارہی ہیں، دیکھنا ہے کہ ان کا اثر ہماری عدالتوں پر اب پڑتا ہے یا نہیں۔ آخر میں ہم یہی لکھیں گے اور کہیں گے کہ ’’ہم بھی دیکھیں گے ‘‘۔ (یو این این)

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا