شاہین باغ سے اٹھنے والی آواز آج پورے ملک کی آواز بن گئی ہے – ہم نیمنصور پارک، روشن باغ، الہ آباد میں این آر سی، سی اے اے کے خلاف احتجاج کرتی ہوئی خواتین اور وہاں کے عوام سے اس مسئلہ پر بات چیت کی اور لوگوں کی رائے جاننے کی کوشش کی – احتجاج کر رہے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ فاشسٹ حکومت کچھ بھی سننے کو تیار نہیں ہے- یہ تحریک جامعہ اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے شروع ہوکر جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اور شاہین باغ ہوتے ہوئے آج ملک کے ہر کونے کونے تک پھیل گئی ہے اور آج تقریباً ایک ماہ سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی حکومت کچھ سننے کو تیار نہیں ہے یہ فسطائی حکومت گونگی اور بہری ہوگئی ہے اور جبراً اس کالے قانون کو نافذ کرنے پر آمادہ ہے لیکن ہم ایسا ہرگز نہیں ہونے دینگے -انکا کہنا ہے کہ پر امن احتجاج کرنا ہمارا جمہوری حق ہے جو ہمیں آرٹیکل 14 کے تحت ہندوستان کے آئین سے حاصل ہے اور یہ بنیادی حق ہم سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا، اس کے لئے ہماری لڑائی جاری رہے گی اور ہم سب ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں – ہم آپ کو بتا دیں کہ اس تحریک کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس کو خواتین لیڈ کر رہی ہیں اور الہ آباد میں بھی اس تحریک کی شروعات 11، جنوری کو محض تین لڑکیوں نے کی جو کہ اسٹوڈنٹس ہیں اور انکی محنت سے روشن باغ دیکھتے دیکھتے ایک دوسرے شاہین باغ میں تبدیل ہو چکا ہے، سائرہ احمد جو کہ اس تحریک کی روح رواں ہیں بہت دلیری سے اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں ہم نے ان سے اس احتجاج کے بارے میں بات چیت کی – ہم سائرہ کی ہمت اور جزبہ کو سلام کرتے ہیں- سائرہ احمد کا کہنا ہے کہ نیا شہریت قانون ہندوستان کے سیکولرزم اور جمہوریت کے متصادم ہے جو کہ ہندوستان کے آئین کی روح ہے اور یہ کالا قانون مزہب پر مبنی امتیازی سلوک اور ملک کے بعض طبقوں کو لسانی اور ثقافتی طور پر تقسیم کرتا ہے اور آئ ین کے بنیادی اصولوں کو پامال کر تا ہے ساتھ ہی یہ جمہوریت کے بھی خلاف ہے –