ٹھہرے جہاں جہاں بھی تجھے یاد کر چلے
یہ بات دیکھتے ہیں چمن میں خزاں نصیب
اہلِ چمن بہار کو برباد کر چلے
غربت میں اجنبی کی طرح پیش آئے سب
ویسے تو ہم زمانے سے فریاد کر چلے
جن کی خوشی کے واسطے لاکھوں جتن کئے
ہاتھوں سے اپنے وہ برباد کر چلے
اپنی بلا سے اب وہ رقیبوں سے جا ملیں
دل کو ہر آرزو سے ہم آزاد کر چلے
جن کی جہاں میں مل نہ سکے گی کوئی مثال
ایسے ستم وہ سینکڑوں ایجاد کر چلے
افسانے بے رخی کے کریں گے وہ نام ذد
جن سے یہاں ہم اپنی یہ روداد کر چلے
چشمہ وہ اور ہیں جنھیں خوشیاں نصیب ہیں
ہم تو غمِ حیات سے دل شاد کر چلے
چشمہ فاروقی
جامعہ نگر،دہلی
9540261238