سوڈان میں استاد کے قتل پر خفیہ اداروں کے 29 افسران کو سزائے موت کا حکم

0
0

خرطوم؍؍سوڈان کی ایک عدالت نے خفیہ اداروں کے 29 افسران کو ایک استاد پر تشدد کرنے اور انھیں قتل کرنے کے جرم میں سزائے موت کا فیصلہ سنایا ہے۔رواں برس فروری میں 36 سالہ احمد الخیر حراست میں ہلاک ہوگئے تھے۔ انھیں سوڈان کے سابق صدر عمر البشیر کی حکومت کے خلاف مظاہروں میں شرکت کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔عمر البشیر کی حکومت گرنے سے قبل جمہوریت پسند کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد یہ ایسا پہلا عدالتی فیصلہ ہے۔استغاثہ کے کہنا ہے کہ سزائے موت ایک انصاف پر مبنی سزا ہے۔ جبکہ دفاع کے وکیل نے کہا ہے کہ وہ فیصلے کے خلاف درخواست دائر کریں گے۔فیصلہ سنائے جانے کے بعد جج نے احمد الخیر کے بھائی سعد سے پوچھا کہ آیا وہ ان 29 افراد کو معاف کرنا چاہتے ہیں جس پر انھوں نے جواب دیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ انھیں پھانسی دی جائے۔عدالت کے فیصلے کے مطابق احمد الخیر کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس سے ان کی موت واقع ہوئی۔ اس میں مشرقی ریاست کسالا کے حراستی مرکز کے افسران ملوث تھے۔سابق صدر عمر البشیر کے دور میں سوڈان نے سنہ 2018 میں سزائے موت کی منظوری دی تھی اور دو لوگوں کو پھانسی کی سزا سنائی تھی۔سوڈان میں احمد الخیر کے ساتھ پیش آنے والے واقعے نے وسیع پیمانے پر توجہ حاصل کی تھی اور ان کی ہلاکت نے 75 سالہ صدر عمر البشیر کے خلاف مظاہروں میں اضافہ کر دیا تھا۔سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کے جڑواں شہر ام درمان میں یہ عدالتی فیصلہ سننے کے لیے بڑی تعداد میں لوگ اکٹھے ہوئے تھے۔مظاہرین کے خلاف کئی ماہ تک چلنے والے آپریشن میں کم از کم 170 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ سوڈانی فوج نے بالآخر صدر عمر البشیر کو ایک بغاوت میں ہٹا دیا تھا۔ اس سے 30 برس قبل ایک بغاوت کے نتیجے میں عمر البشیر نے اقتدار سنبھالا تھا۔دسمبر کے اوائل میں انھیں بدعنوانی کے جرم میں دو سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ عدالت نے کہا تھا کہ وہ اپنی سزا ایک اصلاحتی ادارے میں گزاریں گے کیونکہ وہ قید کے لیے ضعیف ہیں۔بدعنوانی کا یہ کیس اس 25 ملین ڈالر سے جڑا ہے جو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے انھیں دیے تھے۔ عمر البشیر کے خلاف 1989 کی بغاوت، قتل عام اور مظاہرین کے قتل سے متعلق الزامات بھی ہیں۔عمر البشیر نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ رقم سعودی عرب اور سوڈان کے علاقائی تعلقات کے تناظر میں دی گئی تھی اور ’اسے امداد کے طور پر استعمال کیا گیا تھا، نہ کہ ذاتی مفادات کے لیے۔‘

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا