یو این آئی
نئی دہلی؍؍بی جے پی کے’کانگریس مکت بھارت‘ کے خواب کو مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان اسمبلی انتخابات میں چکناچور کرنے سے حوصلہ افزا کانگریس نے عام انتخابات میں وزیر اعظم نریندر مودی کو مات دینے کا ہر داؤ کھیلا لیکن کراری شکست نے اسے ایسا دھچکا دیا کہ مایوس ہوکر اس کے نوجوان لیڈر راہل گاندھی نے صدر کا عہدہ چھوڑ دیا اور پھر پارٹی قیادت کے بحران سے دوچار رہی ۔ مرکز میں 2014 میں مودی حکومت آنے کے بعد کانگریس نے پہلی مرتبہ گزشتہ سال کے آخر میں ان تین ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے ’وجے رتھ‘کو روکا اور اقتدار میں واپسی کی ۔ اس حوصلہ افزا پارٹی کو لگا کہ عوام کو مسٹر مودی سے بھروسہ اُٹھا گیا اور وہ پھر سے مرکز میں اقتدار میں واپسی کر سکتی ہے ۔ پارٹی کے اس وقت کے صدر راہل گاندھی نے بی جے پی کو شکست دینے کی حکمت عملی کے تحت براہ راست مسٹر مودی کو نشانہ بناتے ہو ئے انہیں رافیل لڑاکا طیارے سودے کے سلسلے میں گھیرنا شروع کر دیا ۔ پارٹی نے اس کے لئے کئی طرح کے دستاویزات اور دیگر ثبوت نکالنے شروع کر دیے اور مسٹر گاندھی کے ساتھ ہی ان کی پوری ٹیم کے اراکین عوامی جلسوں اور میڈیا کے ذریعے یہ ثابت کرنے میں لگ گئے کہ رافیل سودے میں دلالی ہوئی ہے اور مسٹر مودی اس میں براہ راست طور پر شامل رہے ہیں ۔ انتخابی مہم کے دوران بھی کانگریس نے مودی کو ہرانے کے لئے رافیل کو ایشو بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ مسٹر گاندھی اپنی تقریبا ہر انتخابی ریلی میں اس معاملے کو جم کر اچھالا اور میڈیا کے ذریعے اسے ہوا دینے کی پوری کوشش کی ۔ مسٹر مودی کے لئے کانگریس صدر کا ’چوکیدار چور ہے‘ نعرہ اتنا مشہور ہوا کہ مسٹر گاندھی کی کوئی بھی انتخابی ریلی اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتی ۔ کانگریس کے ریاستی کوارٹر وں اور عوامی جلسوں میں رافیل کی علامت بنا کر لوگوں کو یہ بھروسہ دینے کی پوری کوشش کی گئی کہ رافیل سودے میں چوری ہوئی ہے ۔بی جے پی کو شکست دینے کے لئے کانگریس قیادت نے علاقائی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کئے ۔ جہاں اتحاد ممکن نہیں ہوا بی جے پی کو شکست دینے کے لئے وہاں علاقائی پارٹیوں کے ساتھ میل جول کر کے فضا کو تبدیل کرنے کا پوری کوشش کی گئی ۔ عام انتخابات سے ٹھیک قبل پارٹی نے مسٹر گاندھی کی بہن پرینکا گاندھی واڈرا کو’ ترک‘کے پتے کے طور پر استعمال کر کے انہیں سیاست میں اتارا اور اتر پردیش کا انچارج جنرل سیکریٹری بنا کر سب کو چونکا دیا ۔ مسٹر گاندھی کی قیادت میں کانگریس نے اتر پردیش میں نیا تجربہ کیا اور ریاست کو مشرقی اور مغربی دو حصوں میں بانٹ کر دو سیکرٹری جنرل مقرر کر دیے ۔مغربی اترپردیش کا ذمہ نوجوان لیڈر جوتر آدتیہ سندھیا کو مشرقی اتر پردیش کی ذمہ داری پرینکا گاندھی واڈرا کو سونپی ۔ اس حکمت عملی سے کارکنوں میں جوش و خروش پیدا ہو گیا ۔ مسٹر گاندھی نے پرینکا گاندھی اورسندھیا کو میدان میں اتار کر ملک کے عوام کو یہ پیغام دینے کی بھی کوشش کی کہ کانگریس میں’یوا جوش‘ ہے ۔ لوک سبھا انتخابات کے نتائج نے کانگریس اور اس کے لیڈروں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ۔ مسلسل دوسری مرتبہ پارٹی اتنی سیٹیں بھی جیت نہیں پائی کہ اسے لوک سبھا میں اپوزیشن پارٹی کی مقام مل سکے ۔ کراری شکست سے پارٹی میں مایوسی چھا گئی ۔ مسٹر گاندھی نے شکست کی ذمہ داری لیتے ہوئے صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ۔ پارٹی کے اعلیٰ پالیسی ساز گروپ ورکنگ کمیٹی نے ان کے عہدے سے استعفیٰ نہ دینے کی اپیل کی وہ اپنی ضد پر اڑے رہے ۔عام انتخابات میں شکست کی وجہ سے ملی مایوسی دور کرنے کے لئے محترمہ سونیا گاندھی نے پھر سے پارٹی کی کمان سنبھالی ۔ مسٹر گاندھی پارٹی صدر کے عہدے پر نہیں رہتے ہوئے بھی بڑے لیڈر کے طور پر سرگرم رہے اور پارٹی نے مہاراشٹر، ہریانہ اور جھارکھنڈ اسمبلیوں کے انتخابات میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس سے امید کی نئی لہر پیدا ہو گئی ۔مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں پارٹی مخلوط حکومت میں شامل ہو گئی اور ہریانہ میں اسے امید سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی ۔پارٹی کا آئندہ اور اہم امتحان دہلی میں ہے ۔ جھارکھنڈ میں علاقائی پارٹیوں سے اتحاد کر کے بی جے پی کو اقتدار سے باہر کرنے میں ملی کامیابی نے بی جے پی کے سامنے مشکلات کھڑی کر دی ہے ۔دہلی کے گزشتہ اسمبلی انتخابات میں اروند کیجریوال کی قیادت والی عام آدمی پارٹی نے 70 رکنی اسمبلی میں ریکارڈ 67 سیٹیوں پر جیت حاصل کی تھي ۔ بی جے پی کو تین سیٹیں ملی تھیں ۔ کانگریس کھاتہ بھی نہیں کھول پائی تھی ۔