نقصان کا تخمینہ 18 ہزار کروڑ سے زیادہ

0
0

2019 کشمیر کی معیشت کے لئے مہلک ترین سال ثابت
یو این آئی

سرینگر؍؍وادی کشمیر میں رواں برس کے پانچ اگست کو پیدا شدہ صورتحال اور قبل ازیں 14 فروری کو جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ میں سی آر پی ایف کے کانوائے پر ہونے والا ہلاکت خیز حملہ ملک کے اس واحد مسلم اکثریتی خطے کی معیشت کے لئے زہر ہلاہل ثابت ہوا۔ سال رواں کے دوران جہاں کشمیر کی معیشت کو زائد از 18 ہزار کروڑ روپے کے نقصان سے دوچار ہونا پڑا وہیں 4 سے 5 لاکھ افراد بے روزگار ہوئے یا غم روزگار میں اپنے دیرینہ پیشے چھوڑ گئے۔ بتادیں کہ مرکزی حکومت نے جب رواں برس کے پانچ اگست کو جموں وکشمیر کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے منسوخ کیں اور اس کو دو حصوں میں تقسیم کرکے دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تبدیل کیا تو ایک دن قبل ہی یعنی چار اگست کی شام کو کشمیر میں ہر طرح کی فون اور انٹرنیٹ خدمات منقطع کی گئیں اور وادی بھر کو فوجی چھاونی میں تبدیل کرکے ہر ایک علاقے میں پابندیاں کا اطلاق عمل میں لایا گیا۔ اگرچہ پابندیوں کو مرحلہ وار طریقے سے ہٹایا گیا لیکن جہاں پانچ اگست کے فیصلوں کے خلاف شروع ہونے والی ہڑتال قریب چار ماہ تک جاری رہی وہیں ہر طرح کی انٹرنیٹ خدمات ہنوز معطل ہی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کشمیر کی معیشت کی تنزلی 14 فروری کے پلوامہ حملے، جس میں کم از کم 40 سی آر پی ایف اہلکار ہلاک ہوئے، کے بعد شروع ہوئی اور ما بعد پانچ اگست اس کو ایک بہت بڑا دھچکا لگا۔کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر شیخ عاشق نے یو این آئی اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ما بعد پانچ اگست وادی کی معیشت کو 18 ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا اور چار سے پانچ لاکھ افراد روزگار سے محروم ہوئے یا دوسرے پیشوں کو اختیار کرگئے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے وادی کو اس وقت دنیا کی طویل ترین انٹرنیٹ قدغن کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں چیزیں درآمد کرنے والی انڈسٹریوں بالخصوص دستکاری شعبے کو غیر معمولی نقصان پہنچا۔شیخ عاشق نے کہا کہ ما بعد پانچ اگست کشمیر میں کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جو متاثر ہونے سے رہ گیا ہو۔ انہوں نے کہا: ‘ہم 5 اگست کے بعد سے لگاتار یہ کہتے آئے ہیں کہ ایسا کوئی شعبہ نہیں ہے جو متاثر ہونے سے رہ گیا ہو۔ چاہے وہ سیاحت ہے یا ہینڈی کرافٹس، چاہے وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ہے یا انڈسٹریز، چاہے وہ باغبانی و زراعت ہے یا ٹرانسپورٹ کا شعبہ۔۔۔۔ یہ تمام شعبے بری طرح سے متاثر ہوئے ہیں۔ یہ کہنا جائز نہیں ہوگا کہ وہ شعبہ زیادہ متاثر ہوا اور یہ کم’۔ چیمبر کے صدر نے کہا کہ پانچ اگست کو جموں وکشمیر کی خصوصی منسوخی کے بعد وادی کی معیشت کو 18 ہزار کروڑ روپے کا نقصان پہنچا۔ انہوں نے کہا: ‘ہم نے ابھی ایک ہفتے قبل کہا کہ کشمیر کی معیشت کو 17 ہزار 8 سو کروڑ روپے کا نقصان ہوا’۔ان کا مزید کہنا تھا: ‘ہم نے ما بعد 5 اگست کے 120 دنوں پر ایک رپورٹ جاری کی۔ یہ رپورٹ وادی کے دس اضلاع پر مبنی ہے جو بہت زیادہ متاثر رہے ہیں۔ ہم نے نقصان کا تخمینہ لگانے کے لئے دو فارمولے استعمال کئے۔ ہم نے جی ڈی پی اور جموں وکشمیر اکنامک سروے 2017-18 کا استعمال کیا۔ ہم نے پایا کہ 120 دنوں کے دوران کشمیر کی معیشت کو 17 ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ پھر ہم نے اس رپورٹ کو پبلک ڈومین میں لایا۔ ہم نے ہر ایک شعبے کے متعلقین سے انپٹس حاصل کئے تھے’۔ شیخ عاشق نے کہا کہ وادی میں پانچ اگست کے بعد چار سے پانچ لاکھ افراد بے روزگار ہوئے۔ انہوں نے کہا: ‘چیمبر کی حالیہ رپورٹ کے مطابق کشمیر میں 4 سے پانچ لاکھ لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں۔ بیشتر شعبے بری طرح سے متاثر ہوئے تھے جس کے نتیجے میں ان شعبوں سے وابستہ افراد روزی روٹی سے محروم ہوگئے۔ ہوٹل اور سیاحتی شعبے سے وابستہ لوگ آج بھی بے کار ہیں’۔ انہوں نے کہا: ‘ہمارے دستکار بے کار بیٹھے ہیں کیونکہ انٹرنیٹ کی معطلی کی وجہ سے ان کا اپنے بیوپاریوں اور گاہکوں سے رابطہ منقطع ہے۔ انٹرنیٹ کسی بھی انڈسٹری جو چیزیں درآمد کرتی ہیں، کے لئے بنیادی ہتھیار ہے۔ ہم خواتین کو خودمختار بنانے کی باتیں کرتے ہیں لیکن دوسری جانب ہینڈی کرافٹ سے وابستہ ہماری پچاس فیصد خواتین کام سے محروم ہوچکی ہیں۔ وہ گھروں میں بیٹھ کر کام کرتی تھیں لیکن پانچ اگست کے بعد پیدا شدہ صورتحال کی وجہ سے بے روزگار ہوگئیں’۔ شیخ عاشق نے کہا کہ چیمبر کا کام کاروباری شعبے کو حائل مشکلات کو سرکاری کی نوٹس میں لانا ہوتا ہے اور ہم نے اپنا کردار بخوبی انجام ادا کیا ہے۔ انہوں نے کہا: ‘چیمبر کا اپنا ایک کردار ہوتا ہے۔ جب بھی بزنس سیکٹر نقصان میں چلا جاتا ہے تو ہمارا کام اس کو سرکار کی نوٹس میں لانا ہوتا ہے۔ ہم نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اب جو بھی اقدامات اٹھانے ہیں، سرکار کو اٹھانے ہیں’۔ کشمیر چیمبر کے صدر نے کہا کہ بدقسمتی سے وادی کو اس وقت دنیا کی طویل ترین انٹرنیٹ قدغن کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا تھا: ‘ہماری حالیہ رپورٹ کا مقصد ہندوستان اور عالمی سطح پر لوگوں کو یہ بتانا تھا کہ پابندیوں کی وجہ سے کشمیر کی معیشت کو کس قدر نقصان پہنچا ہے۔ ہمیں پانچ اگست سے انٹرنیٹ کی کلی معطلی کا سامنا ہے۔ یہ دنیا کی طویل ترین انٹرنیٹ قدغن ہے۔ یہ بہت ہی بدقسمتی کی بات ہے’۔شیخ عاشق نے کہا کہ چیمبر نے حال ہی میں انڈسٹریز و کامرس کے مرکزی وزیر پویش گوئل سے ملاقات کی اور انہیں کشمیر کی معیشت کو ہوئے نقصان سے باخبر کیا۔ انہوں نے کہا: ‘ہم نے حال ہی میں انڈسٹریز و کامرس کے مرکزی وزیر پویش گوئل جو کہ مرکزی ریلوے وزیر بھی ہیں، سے ملاقات کی۔ ہم نے انہیں بتایا کہ کشمیر کی معیشت کو پہنچنے والا نقصان 17 ہزار کروڑ روپے ہے۔ چونکہ انٹرنیٹ کی معطلی لگاتار جاری ہے نتیجتاً معیشت کو ہونے والا نقصان تھم نہیں رہا ہے۔ مرکزی وزیر نے کہا کہ وہ اس رپورٹ کا جائزہ لیں گے اور اس پر کوئی فیصلہ لیں گے’۔ ان کا مزید کہنا تھا: ‘ہماری مسٹر گوئل سے ملاقات بہت اچھی رہی۔ انہوں نے کہا کہ قالین بافی، جو ہماری ہریٹیج انڈسٹری ہے، کی بحالی کے لئے اقدام اٹھائے جائیں گے۔ اس کے علاوہ سیاحت اور ٹرانسپورٹ شعبوں کی ترقی کے لئے کام کیا جائے گا’۔یہ پوچھے جانے پر کہ کیا کشمیر کی صورتحال کا جموں کی معیشت پر بھی اثر پڑا ہے، تو ان کا کہنا تھا: ‘ہم متاثر لوگ ہیں کیونکہ یہاں پابندیاں عائد ہیں۔ بے شک اس کا اثر جموں میں ہماری تاجر برادری پر بھی پڑا ہوگا۔ ہم اس سے انکار نہیں کرسکتے’۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا