اردو زبان و ادب کے فروغ میں الہ ٰ ا ٓباد کا اہم حصہ رہا ہے ۔یہ شہر ہمیشہ سے ہی علم وادب کا گہوارہ رہا ہے ، سر زمیں الہ ٰ آباد کا ایک ایسا چمکتا ستارہ جس نے سید احتشام حسین و ممتاز حسین کے بعد اردو تنقیدکی روایت کو آگے بڑھانے کی وراثت کا زمہ اپنے سر لیا ،وہ نام سید محمد عقیل کاہے ۔ عقیل صاحب کی شناخت اردومیںبحیثیت تنقید نگا ر کے معروف ہے،یہ بات بہت کم لوگ ہی جانتے ہیں کہ انھوں نے شاعری میں بھی دست آزمائی کی تھی۔جہاں تک بات تنقید نگاری کی ہیں تو عقیل صاحب اردو تنقید نگاری کا وہ نام ہے جنھوں نے اس کی سمت و رفتار کو نیا موڑ دیا ۔تحقیق و تنقید نگاری اور ترقی پسند تحریک کے رہنما کے طور پر آپ کی شخصیت اردو ادب میں کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔آپ کی تصانیف کی اشاعت نے خود ہی یہ فریضہ انجام دیا ہے ۔آپ کی تصانیف نہ صرف عصری تحقیق و تنقیدکی عکاس ہے بلکہ قاری کے فکری ذہن کے دریچوں کو بھی کھولتی ہیں۔مارکسی نقاد کی حیثیت سے آپ نے شعر و ادب کے مختلف موضوعات پر قلم فرسائی کرنے کے ساتھ ترقی پسند رحجان کی اشاعت میں بھی مدد کی،آپ کا مطالعہ وسیع،انگریزی ادب پر دسترس،مغربی ادب و تنقید سے خاصی واقفیت ، اور انداز بیان صاف ،ستھرا ،اور اظہار بیان سلجھا ہوا ہے ،یہی وجہ ہے کہ قاری بہت جلد اور بہت آسانی سے خود کو ان کے خیال سے ہم آہنگ کر لیتا ہے۔
آپ کی تحقیق و تنقید نگاری و دیگر اصناف میں آپ کی خدمات کا جائزہ یا ان پر گفتگو کر نے سے قبل آپ کی سوانح پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔کیونکہ کسی بھی مصنف یا تخلیق کا ر کو عام انسان سے تخلیق کار بننے میں اس کی ذاتی زندگی ،عہد و ماحول ،اس کے معاشرے کے حالات و واقعات کے اثرات اہم رول ادا کرتے ہیں۔سیدمحمد عقیل صاحب کی پیدائش الہٰ آباد کے تہذیبی قصبے کراری جہاں ہر طرف مرثیہ خوانی ،قصیدہ خوانی ،عربی ،فارسی کا دور دورہ تھا،شعر و ادب وہاں کی آب و ہوا میں رچتی بستی تھی ،اس خوبصورت علمی جگہ آپ کی پیدائش ہوئی ،ابتدائی تعلیم کرشچین کالج الہٰ آباد میں ہوئی ،1946میں ہائی اسکول پاس کیا ،انٹر میڈیٹ کے امتحان میں امتیازی نمبروں سے پاس ہو نے کے بعد 1950میں انگریزی ،تاریخ ،اور اردو جیسے مضامین کے ساتھ بی ۔اے( B.A) کا امتحان پاس کیا ۔1952میں ایم ۔اے(M.A) اردو امتیازی نمبروں سے پاس کیا ،ان کو جتنے نمبر ملے تھے وہ ان سے پہلے کسی اور شاگرد کو حاصل نہیں ہوئے تھے ،ان کی اسی کامیابی سے اسی سال انھیں بحیثیت استاد شعبہ ٔ اردو میں مقرر کر لیا گیا ۔درس و تدریس کے ساتھ ساتھ وہ تحقیق (ڈی ۔فل ) کا کام بھی کر نے لگے ۔1955میں انھوں نے اپنا تحقیقی مقالہ بعنوان ’’اردو مثنوی کا ارتقا (شمالی ہند میں ) لکھ کر ڈی ۔فل کی ڈگری حاصل کی ۔جو کتابی صورت میں شائع ہوکر منظر عام پر بھی آچکی ہے ۔
شعبہ ٔ اردو الہٰ آباد یونیورسٹی میں ایک کلب ’’تھرسڈے کلب ‘‘ کے نام کا ہوتا تھا جس کے تحت ہر جمعرات کو کلاس ختم ہونے کے بعد صدر شعبہ ٔ اردو کے کمرے میں ادبی نششتیں ہوا کرتی تھی ۔اس میںاستاد یا ریسرچ اسکالر اپنے مقالے پڑھتے تھے ،اس نششت میں فراق گورکھپوری ،رام کمار ورما،ڈاکٹر سرسوتی پرساد ،ڈاکٹر سعید حسن اور دیگر انگریزی ہندی کے ممتاز اہل قلم بھی شریک ہوا کرتے تھے ،یوں تو بحیثیت ترقی پسند ادیب ،اور تنقید نگار کے عقیل صاحب کی شخصیت سے اردو داں طبقہ بخوبی واقف ہیں لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ انھوں نے شاعری میں بھی طبع آزمائی کی اور کامیاب آزاد نظمیں بھی کہیں ان کی نظم ’’بقائے دوام ‘‘ جو ایک مختصر نظم ہے ،اس نظم کے اشعار ملاحظہ فرمائیں :
صرف تاریخ باقی رہے گی
تاج مٹ جائے گا
اور محبت کے قصے
وقت کا اک لبادہ پہن کر
ذہن انساں میں پھرتے رہیں گے
جاوداں ہے محبت
جاوداں ہے تاریخ آدم
تاج مٹ جائے گا
نئی صدی جہاں خش و خاشاک اُڑاتی آئی وہیں اپنے ساتھ نئی کونپلوں کو پروان چڑھانے والی برکھا بھی سمیٹ لائی ہے۔ اسی طرح رفتہ رفتہ نئی آوازیں یا زمانے کے ساتھ ساتھ چلنے والی آوازیں بھی سنائی دینے لگیں۔ ایسے میں کہیں سے کوئی آواز اٹھتی کہ ادب کو زندگی سے قریب لانا چاہیے ۔کوئی آواز کہتی کہ ہم اپنے سرمایے سے دستبردار نہیں ہو سکتے تو ایسے میں کوئی پکار اٹھتا ہے کہ ہم صرف دو باتیں جانتے ہیں خلوص اور آزادی یا جیو اور جینے دو۔ ان تمام آوازوں کے اپنے راگ، رنگ ،ہنگامے، سوچ ،فکر، دلائل اور تاویلات نے باہم مل کر ایک نئی اُلجھن پیدا کردی تھی۔ ایک ایسی الجھن جو نئی لہروں کے مچلنے کا سبب بن گئی۔ اس طرح ان نئی لہروں سے نکل کر زندگی اور تخلیقیت نئے سفر کی نئی منزلوں کی مسافر بن گئی، لیکن زندگی اور تخلیقیت کی یہ نئی مسافرت جس کا دُھندلکا ایک بھول بھلیاں کی مانند تھا۔ ایسی بھول بھلیاں جس میں چند ہی لوگ صحیح راستے کا انتخاب کرکے اس پر گامزن ہوپاتے ہیں۔ اس طرح عقیل صاحب نے ان بھول بھلیوں اوردھندلکے میں اپنے تجربات و مشاہدات سے خود اپنے لیے صحیح راستوں کا انتخاب کیا سید محمد عقیل کی شاعری میں ترقی پسند ی اوصاف نمایاں نظر آتے ہے ۔ترقی پسند ادب و شاعری کا اہم وصف حقیقت نگاری ہے ،یہ تحریک عوام الناس کی خواہشوں آرزوؤں کی ترجمان ہے ،یہ صرف وقت گزاری یا لطف اندوزی کے لیے نہیں بلکہ زندگی کو بہتر بنانے اور اسے سنوارنے پر زور دیتی ہے ،عقیل صاحب کی شاعری علامتی انداز میں اپنی شاعری سے بھی یہ پیغام عام کرتے نظر آتے ہے ، نظم ایک بیانیہ صنف ِشاعری ہے ،جس میں اشاروں ‘کنایوں اور علامتوں کا نظام ہوتا ہے ۔مگر اس میں ہم آہنگی استحکام اور گھٹاو ٔ ویسا نہیں ہوتا جیسا کہ غزل میں ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نظم میں ارتقا اور تسلسل کی گنجائش ہے ۔لیکن عقیل صاحب کی شاعری میں غزلیہ عنصر بھی کہیں کہیں پیدا ہو گیا ہیں ۔ان کی نظم ’’ایلورا‘‘ جو ایک طویل نظم ہے اس نظم سے آخری چند مصرعے ملاحظہ فرمائیں:
آج نر گس کی کھلتی ہوئی نرم کلیاں
آم کی پھانک سے جھانکتی ہیں
سیکڑوں سال سے مسکراتی گلابی ہنسی
اک مغنی کا زخمہ بنی
ساز دل چھیڑتی ہے
زلفیں ساون کے بادل بنیں
پتھروں کا جگر چیرتی ہیں
شیو کی کافر جٹاؤں میں لٹکے ہوئے
کتنے محمود
اپنا گرز گراں چھوڑ کر
آج ضربوں کی آواز میں کھو گئے ہیں
جوئے شیر
معجزہ ایک تھی
اور ایلورا ؟
حسن ملکوت ہے
عشق کے ساز کا ایک بکھرا سا نغمہ
جا بجا جس کے بت بن گئے ہیں
کوئی فر ہاد کو ڈھونڈ لائے
اُردو زبان کی بنیاد گزاری میں جہاں سب سے بڑاحصہ امیر خسرو کا رہا ہے وہیں ہر بدلتے دور میں اردو زبان کی بدلتی ہوئی اشکال اور آبیاری میں لاتعداد اردو بولنے اور لکھنے اور اسے پروان چڑھانے والوں کا بھی خاصا حصہ رہا ہے۔ ٹکسالی، اودھی سے ہوتے ہوئے فارسی آمیز اردو اور پھر خالص اردو جو آج سکۂ رائج الوقت کی طرح تندرست و توانا شکل میں نظر آتی ہے کی زلفِ گرہ گیر کے اسیرہر زمانے میں ہر قوم ،ہر مذہب اور ہر دیش میں موجود ہیں، بلکہ اب تو یہ دیکھا جا رہا ہے کہ اردو کی نئی نئی بستیاں آباد ہو رہی ہیں ۔جاپان، چین ،سویڈن ،ناروے، مشرقی و مغربی کینڈا، ڈنمارک ،نیپال وغیرہ میں نہ صرف اردو عرفِ عام کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے بلکہ ان ملکوں میں اردو لکھنے پڑھنے اور بولنے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہاں اردو کے پروگرام تشکیل دیتے ہوئے سیمینار، مشاعرے، ادبی مجالس کا تو انعقاد ہو رہی رہا ہے بلکہ ان سارے پروگراموں کے علاوہ اردو کی ترویج و ترقی کے لیے اردو رسالوں کی کامیاب طباعت و اشاعت اور ترسیل بھی کامیابی سے جاری ہے۔ اسی طرح برسوں پہلے داغؔ دہلوی نے کہا تھا کہ:
اُردو ہے جس کا نام سبھی جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں دھوم ہماری زباں کی ہے
اگرچہ ہمارا فکری ماحول بد ل چکا ہے اور آج ہم اس زمانے کا حصہ بن کر رہ گئے ہیں جو سائنسی عقل پرستی کا زمانہ ہے لیکن ان حالات میں بھی عقیل صاحب نے اپنی لغت اور اپنے موضوعات کا تعین خود کیا ہے۔ ان کے لہجے اوراسلوب پر ان کی اپنی چھاپ ہے جسے کسی قدر توجہ کے ساتھ جانا پہچاناجاسکتا ہے۔ مضامین اور شعر وشاعری میں دلچسپی کے ساتھ ساتھ عقیل صاحب کو افسانے سے بھی خاص شغف رہا۔یہی وجہ تھی کہ انھوں نے ’’شبنم غبار ‘‘کے نام سے غزلیں ،نظمیں کہیں اور شائع بھی کرائی ۔انھوں نے افسانے اور شاعری کے ساتھ مضامین بھی لکھنے شروع کیے ان کا پہلا مضامین کا مجموعہ ’’نئی فکریں ‘‘1953میں شائع ہوا ۔عقیل صاحب نے ترجمے بھی کیے انھوں نے سامرسٹ مام کے ناول کا ترجمہ ’’کیک اور شراب ‘‘ کے عنوان سے کیا جو 1956 میں شائع ہوا۔ان کی جدید شاعری پر پہلی مربوط کتاب ’’نئی علامت نگاری ‘‘ 1974میں شائع ہوئی ۔’’تنقید و عصری آگہی ‘‘1976میں شائع ہوئی ،’’انتخاب افسانہ ‘‘ بی اے کے نصاب کے مطابق یو۔پی اردو اکادمی 1978میںشائع ہوئی ،اس میں عقیل صاحب کامقدمہ نہ ہونے کے باعث سرورق پر ان کا نام نہیں دیا گیا ۔’’سماجی تنقید اور تنقید ی عمل ‘‘1980میں ان کے مضامین کا تیسرا مجموعہ شائع ہوا ،اس مجموعے کے دو حصے ہیں ،پہلے حصے میں سماجی تنقید سے متعلق مضامین ہیں جب کہ دوسرے حصے میں تنقیدی عمل سے متعلق مضامین شامل ہیں ۔
’’اعجاز صاحب کی مختصر تاریخ ادب اردو کا ترمیم شدہ ایڈیشن ‘‘ 1984میں شائع ہوئی ۔عقل صاحب کی یہ کتابیں اردو ادب کے سر مایے میں ایک اہم اضافہ ہیں ۔
عقیل صاحب ایک سادہ مزاج سنجیدہ انسان تھے،لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ زندگی کو خوش مزاجی سے نہیں جیتے ان کے بچپن کی شرارتوں کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر اعجاز حسین اپنی خود نوشت ’’ میری دنیا ‘‘ جو 1966 میں شائع ہوئی لکھتے ہیں کہ :
’’ میاں صاحب زادے دیہات کی تفریحی زندگی میں منہمک ہوگئے ،کھیتوں کی سیر ،درختوں پر چڑھنا ،گلی ڈنڈا ،شکار ،پیرنا سب ان کے لیے مطالعہ و انہماک کا نصاب بن گئے ۔ا س انہماک میں شہری تہذیب سے بھی بے نیاز ہوگئے ،دھول گرد کا کھیل ،نہ کھانے کا ٹھیک نہ پینے کا وقت ،جب چاہا گاجر ،مولی ،امرود ،شکر کند ،سے پیٹ بھر لیا ،تالاب میں یا کنوئیں پر پانی پی لیا ۔‘‘(ص : 271)
اس اقتباس کے مطالعہ سے عقیل صاحب کے بچپن کی ایک نٹ کھٹ شرارتی بچے کی جو شبیہ ہمارے نظروں کے سامنے ابھرتی ہے اس کا آگے کی زندگی پر عکس بھی نظر نہیں آتا مراد یہ کہ وہ جس قدر نفاست کفش ثابت ہوئے اس کی مثال بھی آپ ہے ،اس خود نوشت میں اعجاز صاحب لکھتے ہیں کہ ’’ اب یہ مشہور ہے کہ عقیل صاحب سے اچھا جوتا یونیورسٹی کے استادوں میں کوئی نہیں پہنتا ۔‘‘
عقیل صاحب کی زندگی کے الگ لاگ مرحلے کی جس طرح الگ الگ کہانیاں ہیں بالکل اسی طرح ان کے ادبی تخلیقی سفر کی بھی الگ الگ کہانیاں ہیں ۔ انھوں نے کبھی ایک رنگ میں خود کو نہیں رنگا بلکہ ہمہ جہت اردو کی خدمات انجام دی ۔بقول علی احمد فاطمی :
’’سید محمد عقیل کا شمار ان نامور ترقی پسند نقادوں میں ہتا ہے جو تفہیم ادب کے لیے نظر اور نظریہ کو ناگزیر سمجھتے ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ نظریہ کے بغیر ادب کا سائنٹیفک مطالعہ ممکن ہی نہیں ۔‘‘(بحوالہ : عصری ادب ،ص 78)
عقیل صاحب کے نزدیک ادب کے لیے بہت ضروری ہے کہ بدلتے وقت کے ساتھ بدلتے تقاضوں کی روشنی میں شعر و ادب کو پرکھنا چاہیئے ۔وہ زمانی تغیرات کو نظر انداز نہیں کرتے ۔کیونکہ انھیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ ہر عہد کی تفہیم بدلتے وقت و حالات میں مختلف ہو جاتی ہے ،آج جو حالات ہمارے سامنے ہے وہ ماضی میں جس معنویت کا حامل تھا آج وہ بالکل مختلف ہے ،لہٰذا ہمیں نئی تفہیم کے ساتھ چیزوں کو پرکھنے کی کوشش کرنی چاہیئے ۔تا کہ بدلتے وقت اور بدلتے تقاضوں کے ساتھ اس میں نئی چیزیں بھی شامل ہو ،اس سلسلے میں وہاب اشرفی نے اپنے تنقیدی مضامین کے دوسرے مجموعے ’’آگہی کا منظرنامہ ‘‘(۱۹۸۹ئ) کے دیباچے میں اپنے ادب کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار ان لفظوں میں کیا کہ :
’’ادب کو سڑنا گلنا نہیں ہے تو اس کی تازگی برقرار رکھنا پڑے گی اور اس کے لیے عالمی سطح پر ادبی رویوں کے تبدل و تغیر پر نگاہ رکھنی پڑے گی اور اس کے لیے وسیع اور گہرے تقابلی مطالعے کا چیلینج قبول کرنا پڑے گا ،ورنہ ادبی تفہیم کا لامتنا ہی پس منظر آنکھوں سے اوجھل رہے گا اور اگر ایسا ہوا تو پس ماندگی مقدر بن جائے گی ۔میرا موقف یہ ہے کہ جہاں ادب کے کچھ مقامی مطالبات ہے تو گویا اس کی کاوش ہے کہ وہ اپنے ادب کو نئے رنگ و روغن دے کر اسے عالمی سطح پر لا کھڑا کرے ۔‘‘
بہر حال اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ عقیل صاحب کا نظریہ ادب و تنقید کو لے کر کس قدر واضح اور صاف تھا ،بلا شبہ عقیل صاحب ہمہ جہت شخصیت کے مالک انسان تھے ، ان کی شخصیت کے کئی روشن پہلو ہیں، ووہ صرف ترقی پسند تحریک کے رہنما یا تحقیق نگار نہیں بلکہ اردو ادب کے بے لوث خادم بھی تھے ۔انھوں نے صرف تنقید ہی نہیں کی بلکہ ان کو شاعری اور فکشن سے بھی خاص شغف تھا۔لیکن افسوس کہ ان کے اس اہم گوشے کو کبھی سنجیدگی سے غو ر و فکر نہیں کیا گیا ،جب کہ چند اشعا ر کے مطالعہ سے یہ بات بخوبی عیاں ہو جاتی ہیں کہ ان کے تخلیقی وجدان میں جمالیات اور حقیقت پسندی کی فکر موجود تھی۔ان کی شاعری کی ندرت اور ان میں بیان کیے گئے خیالات ہمیں بخوبی محسوس ہوتے ہیں ،جس سے ان کی شاعری میں زندگی کی حرارت اور حرکی توانائی بھی پیدا ہوگئی ہے ۔ان کی نظم نگاری ہو یا غزل گوئی ان کے یہاں صرف الفاظ کی اداکارانہ ترتیب نہیں ہیں بلکہ فکر و تخیل ،تجربات و مشاہدات اور احساسات جذبات کے تخلیقی حسن کے ساتھ فنی اظہار بھی ملتا ہیں۔بلاشبہہ وہ ایک انفرادی حیثیت کے حامل تخلیق کار تھے جن کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتاغرضکہ اردو زبان وادب کے حوالے سے ان کی خدمات ان گنت ہے ۔یقینا آپ کی خدمات اردو ادب کے لیے ناقابل فراموش ہیں ،جن کو چند صفحات پر بیان کر دینا ممکن نہیں، عقیل رضوی نے 20 دسمبر 2019 کو اس جہان فانی کو الوداع کہہ دیا ۔آج بھلے ہی وہ ہمارے درمیان نہ ہو لیکن ان کی تصنیفات ،ان کی ادبی خدمات سے ہر اردو داں طبقہ ہمیشہ مستفید ہوتا رہے گا ۔
صالحہ صدیقی
(رسرچ اسکالر جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی)
Email- salehasiddiquin@gmail.com