اقتدار کا کردار اور منصب کی رسوائی

0
0

 

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
عہدے اور مناصب جس قدر معزز،محترم ،باعث عز و شرف اور ذریعہ شہرت ہوتے ہیں’اسی قدر نازک اور حساس بھی ہوتے ہیں’،یہ جہاں انسانوں کو شہرتوں کا پر عطا کرتے ہیں’وہیں ذرا سی بے احتیاطی پر تحت الثریٰ کی گمنام تاریکیوں میں ہمیشہ کے لیے وجود کو قید بھی کردیتے ہیں،عہدہ ومنصب کے لحاظ سے انتہائی ذمہدارانہ کرداروں پر قوم اصحاب مناصب کو سرآنکھوں پر بٹھاتی ہے’مگر جب کرداروں کی پستی،مفادپرستی اور ذاتی خود غرضیوں کے بطن سے رونما ہونے والے افعال ایک باعزت جہانبانی کے فرض کو داغدار کرتے ہیں’تو انہیں قوم کی نگاہوں میں وہ عزت بھی حاصل نہیں ہوتی ہے جو معاشرے میں کسی عام ملازم یا مزدور کی ہوتی ہے’،کسی ملک میں پریسیڈینٹ کا مرتبہ انتہائی اعلیٰ ہوتاہے سیکولر نظام اور جمہوری دستور کے مطابق اس ملک میں بھی یہ منصب نہایت معزز اور اعلیٰ ہے’اور مناصب میں رتبے کے لحاظ سے بلند ہے’یہ اور بات ہے کہ یہاں کی روایت میں وزارت عظمیٰ کی فعالیت کی گونج میں کبھی اس کی آواز سنائی نہ دے سکی تاہم باوجود اس کے آج بھی اس کی اہمیت اس قدر ہے کہ’جدید قوانین کی توضیع، یا ترمیم و تنسیخ اس کی اجازت اس کی دستخط کے بغیر ممکن نہیں ہے،ملک کے ارتقائ  اس کے امن وامان کے لئے اور تمام باشندوں کے تحفظ کے لئے جہاں وزیراعظم کا جمہوری کردار ضروری ہے’اس سے کہیں زیادہ صدر جمہوریہ کی ذمہ داری ہے’کہ ملک کی سالمیت کے لئے فکر وانتظام کرے اور ان تمام پلاننگ اور قوانین کی تنسیخ کرے جس سے ملک میں نقض امن کا خطرہ ہو،جس سے ملک کا وقار مجروح ہو، اس کے برعکس  صدارت جب احساس ذمہ داری سے محروم ہوتی ہے’،اس کے فرائض منصبی کسی دوسری طاقت کی زنجیروں میں قید ہوجاتے ہیں’،اس کے اختیارات کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہوتی ہے،اس کی بصیرتیں بک جاتی ہیں’ اس کا شعور سوداگران وقت کی دکانوں میں گروی رکھ دیا جاتاہے،اس کی زبان اس کے کردار وعمل اس کی صداقت وعدالت اور اس کے انصاف وعدالت کنیز کی حیثیت اختیار کرجاتے ہیں’تو پھر اس کے ایوانوں میں حق کی روشنی اور باطل کی تاریکیاں،دن کے اجالے اور رات کے اندھیرے، مظلوموں کی آہیں اور شہ زوروں کی شہنائیاں سب برابر ہوجاتی ہیں’، بدقسمتی سے اس وقت ملک کا یہ معزز رتبہ اسی پست کرداروں کی ظالمانہ بیڑیوں میں قید ہے’یہاں سے وہی لفظ اور وہی جملے نکلتے ہیں’جتنی دیگر حکمران وقت کی طرف سے اجازت ہوتی ہے’حالیہ خون آشام فضاؤں میں لہو لہو ارض وطن میں رقص کرتی ہوئی فسطائیت اور اسے استحکام عطا کرنے میں اس منصب کا بھی بنیادی کردار ہے’، ایک جمہوری ملک میں مذہب کی بنیاد پر کسی کو شہریت فراہم کرنا اور کسی کو محروم کرنا جہاں انصاف وانسانیت کا قتل ہے’وہیں جمہوریت اور ملک کے سیکولرازم کا بھی خون ہے’ این ار سی اور سیٹیزن شپ امینڈمنٹ بل کی سنگینی اس کے خون آشام نتائج اور انارکی کی شکل میں رونما ہونے والے اثرات کا محسوس کرنا اس منصب کی ذمہ داری تھی مگر ایوان زیریں اور ایوان بالا میں اکثریت اور شیشہ سازی کے نتیجے میں پاس ہونے والے شرمناک بل پر بغیر کسی غور وفکر کے اس طرح پریسیڈینٹ نے اسے اپنی دستخط کے ذریعے قانونی جواز فراہم کیا گویا وہ اسی کے انتظار میں تھے کہ کب یہ فرقہ وارانہ اور فاشسٹ بل آئے اور اسے قانونی شکل دے کر ملک کی اکثریتی اقلیت مسلمانوں پر مادر وطن کے دروازے بند کردیئے جائیں، اس غلط فیصلے اور بے بصیرت اور اندھے کردار کا جو نتیجہ ملک میں اضطراب اور آتش و آہن کی صورت میں ظاہر ہونا وہ ہوا،لیکن خود اس منصب کی عوام کے نزدیک انٹرنیشنل تعلیم گاہوں کے نزدیک سیکولر ذہن رکھنے والے لاکھوں باشندوں کے نزدیک کیا حیثیت باقی رہ گئی 23دسمبر میں پانڈیچری یونیورسٹی میں تقسیمِ اسناد کے سلسلے میں منعقدہ اجلاس ہونے والے واقعے سے لگایا جاسکتا ہے،دنیا کا ہر طالب علم یہ چاہتا ہے کہ اس کی زندگی ہر سرپرائز خواہ وہ کسی شعبے سے ہو صدر کے ہاتھوں حاصل کرے کہ یہ نہ صرف اس طالب علم بلکہ اس دانشگاہ کے لئے بھی بڑی سعادت اور اعزاز ہے’ لیکن یہاں معاملہ برعکس ہوا اور ایک ٹاپ طالبہ نے اپنی کامیابی کا گولڈ میڈل پریسیڈینٹ کے ہاتھوں سے لینے سے انکار کرکے اس معزز منصب کے تمام وقار کو مسمار کرڈا لا مزید دو طالب علم ارون کمار اور ایک دیگر طالبہ نے اس تقریب میں شرکت کرنا گوارہ ہی نہیں کیا، ملک کے سب سے اعلیٰ عہدے کے لئے یہ واقعہ زنانے دار طمانچہ ہے اور اس کے سیاہ کرداروں پر، اس کے دہرے پیمانے پر،اور جمہوریت کے پردے میں فرقہ وارانہ متعصبانہ اور جابرانہ اعمال وافعال پر۔۔۔یہ تنبیہ ہے’عدالت وانصاف کی راہ اختیار کرنے کی،  ایک جرس ہے اپنے طرزِ عمل پر غور کرنے کے لئے، لیکن افسوسناک پہلو یہ ہیکہ ملک ہر طرف سے جل رہا ہے’سیاسی قیادت اور حاکمیت پوری دنیا میں رسوا ہورہی ہے’عوام سڑکوں پر اتر کر ظلم سہ رہی ہے کھلے آسمان کے نیچے پوری رات گذارنے پر مجبور ہے’،خلیج سے لے کر یورپی ممالک تک اس سیاہ قانون کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں مگر نہ وزارت کی پیشانیوں پر کوئی شکن ہے’نہ ہی صدارت کے سینے میں اس کا احساس،انہیں اس بات کا اس قدر غرور ہے’کہ طاقت کے ذریعے ہم تمام خودساختہ قوانین کا نفاذ کرلیں گے کہ ملک کی قسمت کا فیصلہ اب ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ مسلمانوں کی دشمنی اور اقتدار کے نشینے انھیں اس قدر اندھا کردیا ہے’کہ حقائق کی روشنی بھی انہیں نظر نہیں آتی،کہ تیس کروڑ مسلمانوں کے علاوہ کروڑوں افراد پر مشتمل دوسری اقلیتوں پر زندگی کے دروازے بند کرکے ملک کی کون سی ترقی وجود میں آسکتی ہے’،اور ملک کی سلامتی کے لحاظ سے کروڑوں افراد کو بے دخل کرکے کون سی انسانیت کی خدمت انجام دی جاسکتی ہے’، اس سیاہ اور انسانیت سوز قانون کے خلاف پوری دنیا چیخ رہی ہے’،کہ روئے زمین پر شاید پہلی بار کسی اقتدار نے اپنی عوام کی شہریت کے خلاف جنونی منصوبہ بندی کی ہے’،مادیت کے ہزاروں طوفانوں کے باوجود دنیا کے تمام ممالک کم از کم اپنی عوام کے حق میں انتہائی سنجیدہ ہیں اوراس کے لئے زندگی کی تمام سہولیات کی فراہمی میں کوشاں ہیں ، لیکن برا ہو بغض و عناد اور فرقہ پرستی کا کہ یہ انسانوں کو انسانیت کی سطح سے اتار کر حیوانیت کی راہوں پر کھڑا کردیتی ہے’ٹھیک یہی صورت حال اس وقت ملک میں موجود ہے’،اس شرمناک حرکت پر تمام سیکولر ملکوں نے احتجاج کیا ہے’ ملیشیا کے مہاتیر محمد نے کہا ہے’کہ یہ قانون انسانیت سے گرا ہوا ہے’اگر ہم بھی اپنے ملک میں اسے نافذ کریں تو بے شمار بھارتی ہجرت پر مجبور ہوں گے مگر ہم ایسا نہیں کرتے بلکہ انھیں نیشنلٹی دی جاتی ہے’،، خلیجی تعاون کونسلGccیعنی مشرق وسطی کے ممالک سعودی عرب کویت قطر بحرین متحدہ عرب امارات عمان نے اس بے بصیرت اور فسطائی حکومت کے خلاف میٹینگ بلالی ہے’آج اسلامی تعاون تنظیم جدہ سعودی عربیہOICنے 57ممالک کے ساتھ خلاف ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ہے’، نیز سعودیہ نے ہند میں درآمد ہونے والے 83/فیصد خام تیل کی فراہمی پر پابندی عائد کرنے کا ارادہ کیا ہے ایران نے بھی اس کا انتباہ دے دیا ہے’علاوہ ازیں ترکی نےUNOہیومن رائٹس کمیشن کو ایلٹی میٹم دیا ہے کہ وہ ہندوستان پر اس قانون کی تنسیخ پر دباؤ ڈالے بصورت دیگر اس نے اس کا متبادل تلاش کرنے کا اعلان کیا ہے’۔۔ حاصل یہ ہے کہ اگر اقتدار نے نوشتہ دیوار نہیں پڑھا اور انسانیت کے خلاف اس سیاہ قانون کو واپس نہیں لیا ملک کے عوام کے جذبات کا خیال نہ کیا۔ مظاہرین پر جارحیت کا سلسلہ بند نہیں کیا،نازی ازم کی راہ کو ترک نہیں کیا،جمہوریت کی سالمیت میں سنجیدگی اختیار نہ کی تو ایشیا میں سفارتی سیاسی اور اقتصادی اعتبار سے بالکل وہ تنہا ہوجائے گی ملک پہلے ہی سے اقتصادی حوالے سے جوجھ رہا ہے’ایشیائی ممالک کے ان اقدامات کے نتیجے میں کس قدر پستیاں اس کا مقدر ہوں گی اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا