اللہ اور رسول سے زیادہ دانشمند ہونے کا خبط رکھنے والے مسلمان نہیں ہوسکتے

0
0

 

اللہ اور رسول کے فیصلہ کے خلاف کسی مومن کو کوئی الگ فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ’

’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو، اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔  اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ نبیؐ کے ساتھ اونچی آواز سے بات کیا کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہو جائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔  جو لوگ رسولِ خدا کے حضور بات کرتے ہوئے اپنی آواز پست رکھتے ہیں وہ درحقیقت وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کیلئے جانچ لیا ہے، ان کیلئے مغفرت ہے اور اجر عظیم‘‘۔ (سورہ الحجرات ۱۔۳) اپنی رائے اور خیال کو اللہ اور رسول سے مقدم رکھنے والا مسلمان نہیں ہوسکتا  یہ ایمان کا اولین اور بنیادی تقاضا ہے۔ جو شخص اللہ کو اپنا رب اور اللہ کے رسول کو اپنا ہادی و رہبر مانتا ہو، وہ اگر اپنے اس عقیدے میں سچا ہے تو اس کا یہ رویہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ اپنی رائے اور خیال کو اللہ اور رسول کے فیصلے پر مقدم رکھے یا معاملات میں آزادانہ رائے قائم کرے اور ان کے فیصلے بطور خود کر ڈالے بغیر اس کے کہ اسے یہ معلوم کرنے کی فکر ہو کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے ان معاملات میں کوئی ہدایت دی ہے یا نہیں اور دی ہے تو وہ کیا ہے۔ اسی لئے ارشاد ہوا ہے کہ اے ایمان لانے والو، اللہ اور رسول کے آگے ’’پیش قدمی نہ کرو‘‘، یعنی ان سے آگے بڑھ کر نہ چلو، پیچھے چلو۔ مقدم نہ بنو، تابع بن کر رہو۔ یہ ارشاد اپنے حکم میں سورۂ احزاب کی آیت ۳۶ سے ایک قدم آگے ہے۔ وہاں فرمایا گیا تھا کہ جس معاملہ کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے کردیا ہو اس کے بارے میں کسی مومن کو خود کوئی الگ فیصلہ کرنے کا اختیار باقی نہیں رہتا۔ اور یہاں فرمایا گیا ہے کہ اہل ایمان کو اپنے معاملات میں پیش قدمی کرکے بطور خود فیصلے نہیں کر لینے چاہئیں بلکہ پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت میں ان کے متعلق کیا ہدایات ہیں۔  یہ حکم مسلمانوں کے محض انفرادی معاملات تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ان کے جملہ اجتماعی معاملات پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ در حقیقت یہ اسلامی آئین کی بنیادی دفعہ ہے جس کی پابندی سے نہ مسلمانوں کی حکومت آزاد ہوسکتی ہے، نہ ان کی عدالت اور نہ پارلیمنٹ۔ مسند احمد، ابو داؤد، ترمذی اور ابن ماجہ میں یہ روایات صحیح سندوں کے ساتھ منقول ہوئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب حضرت معاذ بن جبلؑ کو یمن کا حاکم عدالت بنا کر بھیج رہے تھے تو آپ نے ان سے پوچھا کہ تم ’’کس چیز کے مطابق فیصلے کرو گے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ’’کتاب اللہ کے مطابق‘‘۔ آپؐ نے پوچھا ’’اگر کتاب اللہ میں کسی معاملے کا حکم نہ ملے تو کس چیز کی طرف رجوع کرو گے‘‘؟ انہوں نے کہا ’’سنت رسول اللہ کی طرف‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’اگر اس میں بھی کچھ نہ ملے‘‘؟ انہوں نے عرض کیا ’’پھر میں خود اجتہاد کروں گا‘‘۔ اس پر حضورؐ نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا ’’شکر ہے اس خدا کا جس نے اپنے رسول کے نمائندے کو وہ طریقہ اختیار کرنے کی توفیق بخشی جو اس کے رسول کو پسند ہے‘‘۔ یہ اپنے اجتہاد پر کتاب اللہ و سنت رسول کو مقدم رکھنا اور ہدایت حاصل کرنے کیلئے سب سے پہلے ان کی طرف رجوع کرنا ہی وہ چیز ہے جو ایک مسلمان جج اور ایک غیر مسلم جج کے درمیان وجہ امتیاز ہے۔ اسی طرح قانون سازی کے معاملہ میں یہ بات قطعی طور پر متفق علیہ ہے کہ اولین ماخذ قانون خدا کی کتاب ہے اور اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت۔ پوری امت کا اجماع تک ان دونوں کے خلاف یا ان سے آزاد نہیں ہو سکتا کہا کہ افراد امت کا قیاس و اجتہاد۔  یعنی اگر کبھی تم نے اللہ اور اس کے رسول سے بے نیاز ہو کر خود مختاری کی روش اختیار کی یا اپنی رائے اور خیال کو ان کے حکم پر مقدم رکھا تو جان رکھو کہ تمہارا سابقہ اس خدا سے ہے جو تمہاری سب باتیں سن رہا ہے اور تمہاری نیتوں تک سے واقف ہے۔ اللہ کے رسول کی مجلس میں بیٹھنے کے آداب اور گفتگو  یہ وہ ادب ہے جو رسول اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھنے والوں اور آپ کی خدمت میں حاضر ہونے والوں کو سکھایا گیاتھا۔ اس کا منشا یہ تھا کہ حضورؐ کے ساتھ ملاقات اور بات چیت میں اہل ایمان آپ کا انتہائی احترام ملحوظ رکھیں۔ کسی شخص کی آواز آپ کی آواز سے بلند تر نہ ہو۔ آپ سے خطاب کرتے ہوئے لوگ یہ بھول نہ جائیں کہ وہ کسی عام آدمی یا اپنے برابر والے سے نہیں بلکہ اللہ کے رسول سے مخاطب ہیں۔ اس لئے عام آدمیوں کے ساتھ گفتگو اور آپ کے ساتھ گفتگو میں نمایاں فرق ہونا چاہئے اور کسی کو آپ سے اونچی آواز میں کلام نہ کرنا چاہئے۔  یہ ادب اگر چہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کیلئے سکھایا گیا تھا اور اس کے مخاطب وہ لوگ تھے جو حضورؐ کے زمانے میں موجود تھے، مگر بعد کے لوگوں کو بھی ایسے تمام مواقع پر یہی ادب ملحوظ رکھنا چاہئے جب آپ کا ذکر ہو رہا ہو، یا آپ کا کوئی حکم سنایا جائے، یا آپ کی احادیث بیان کی جائیں۔ اس کے علاوہ اس آیت سے یہ ایماء بھی نکلتا ہے کہ لوگوں کو اپنے سے بزرگ تر اشخاص کے ساتھ گفتگو میں کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہئے۔ کسی شخص کا اپنے بزرگوں کے سامنے اس طرح بولنا جس طرح وہ اپنے دوستوں یا عام آدمیوں کے سامنے بولتا ہے، در اصل اس بات کی علامت ہے کہ اس کے دل میں ان کیلئے کوئی احترام موجود نہیں ہے اور وہ ان میں اور عام آدمیوں میں کوئی فرق نہیں سمجھتا۔  اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ دین میں ذات رسولؐ کی عظمت کا کیا مقام ہے۔ رسول پاکؐ کے سوا کوئی شخص، خواہ بجائے خود کتنا ہی قابل احترام ہو، بہر حال یہ حیثیت نہیں رکھتا کہ اس کے ساتھ بے ادبی خدا کے ہاں اس سزا کی مستحق ہو جو حقیقت میں کفر کی سزا ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ ایک بد تمیزی ہے، خلاف تہذیب حرکت ہے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام میں ذرا سی کمی بھی اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس سے آدمی کی عمر بھر کی کمائی غارت ہوسکتی ہے۔ اس لئے کہ آپ کا احترام در اصل اس خدا کا احترام ہے جس نے آپؐ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اور آپ کے احترام میں کمی کے معنی خدا کے احترام میں کمی کے ہیں۔  یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آزمائشوں میں پورے اترے ہیں اور ان آزمائشوں سے گزر کر جنہوں نے ثابت کردیا ہے کہ ان کے دلوں میں فی الواقع تقویٰ موجود ہے وہی لوگ اللہ کے رسول کا ادب و احترام ملحوظ رکھتے ہیں۔ اس ارشاد سے خود بخود یہ بات نکلتی ہے کہ جو رسول ؐ کے احترام سے خالی ہے وہ در حقیقت تقویٰ سے خالی ہے، اور رسول کے مقابلے میں کسی کی آواز کا بلند ہونا محض ایک ظاہری بد تہذیبی نہیں ہے، بلکہ باطن میں تقویٰ نہ ہونے کی علامت ہے۔  حضورؐ کے عہد مبارک میں جن لوگوں نے آپ کی صحبت میں رہ کر اسلامی آداب و تہذیب کی تربیت پائی تھی وہ تو آپ کے اوقات کا ہمیشہ لحاظ رکھتے تھے۔ ان کو پورا احساس تھا کہ اللہ کے کام میں کس قدر مصروف زندگی بسر فرماتے ہیں، اور ان تھکا دینے والی مصروفیتوں کے دوران میں لازماً کچھ وقت آپ کے آرام کیلئے اور کچھ وقت آپ کی اہم مشغولیتوں کیلئے اور کچھ وقت اپنی خانگی زندگی کے معاملات کی طرف توجہ کرنے کیلئے بھی ہونا چاہئے۔ اس لئے وہ آپ سے ملاقات کیلئے اسی وقت حاضر ہوتے تھے جب آپ باہر تشریف فرما ہوں، اور اگر کبھی وہ آپ کو مجلس میں موجود نہ پاتے تو بیٹھ کر آپ کے برآمد ہونے کا انتظار کرتے تھے اور کسی شدید ضرورت کے بغیر آپ کو باہر تشریف لانے کی زحمت نہ دیتے تھے۔ لیکن عرب کے اس ماحول میں، جہاں عام طور پر لوگوں کو کسی شائستگی کی تربیت نہ ملی تھی، بارہا ایسے اَن گھڑ لوگ بھی آپ سے ملاقات کیلئے آجاتے تھے جن کا تصور یہ تھا کہ دعوت الی اللہ اور اصلاح خلق کا کام کرنے والے کو کسی وقت بھی آرام لینے کا حق نہیں ہے، اور انہیں حق ہے کہ رات دن میں جب چاہیں اس کے پاس آدھمکیں، اور اس کا فرض ہے کہ جب بھی وہ آجائیں وہ ان سے ملنے کیلئے مستعد رہے۔ اس قماش کے لوگوں میں عموماً اور اطراف عرب سے آنے والوں میں خصوصاً بعض ایسے ناشائستہ لوگ بھی ہوتے تھے جو آپ سے ملاقات کیلئے آتے تو کسی خادم سے اندر اطلاع کرانے کی زحمت بھی نہ اٹھاتے تھے بلکہ ازواج مطہرات کے حجروں کا چکر کاٹ کر باہر ہی سے آپؐ کوپکارتے تھے۔ اس طرح کے متعدد واقعات احادیث میں صحابہ کرامؓ نے روایت کیے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کی ان حرکات سے سخت تکلیف ہوتی تھی مگر اپنے طبعی حلم کی وجہ سے آپ اسے برداشت کئے جارہے تھے۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ میں مداخلت فرمائی اور اس ناشائستہ طرز عمل پر ملامت کرتے ہوئے لوگوں کو یہ ہدایت دی کہ جب وہ آپ سے ملنے کیلئے آئیں اور آپ کو موجود نہ پائیں تو پکار پکار کر آپ کو بلانے کے بجائے صبر کے ساتھ بیٹھ کر اس وقت کا انتظار کریں جب آپ خود ان سے ملاقات کیلئے باہر تشریف لائیں۔ رسول اللہ کا نمائندہ ہوتا ہے  بین یدی اللّٰہ و رسولہ کے الفاظ سے یہ بات نکلتی ہے کہ اللہ و رسول کے معاملہ الگ الگ نہیں ہے۔ اللہ کا رسول اللہ کا سفیر و نمائندہ ہوتا ہے۔ اس کو بن پوچھے مشورہ دینا خود اللہ تعالیٰ کو مشورہ دینا ہے، اس کی بات پر اپنی بات کو مقدم کرنا اللہ کی بات پر اپنی بات کو مقدم کرنا ہے اور اس سے بڑھ کر اپنے کو مدبر سمجھنا خود خدائے علیم و حکیم سے بڑھ کر اپنے کو مدبر و حکیم سمجھنا ہے۔ یہ آدمی کے اس رویہ کے لازمی نتائج ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کسی شخص کو اس کی بلاوت کے سبب سے ان نتائج کا احساس نہ ہو لیکن ان کے لازمی نتائج ہونے سے انکار ناممکن ہے۔ واتقوا اللّٰہ، ان اللّٰہ سمیع علیم۔ یہ ان لوگوں کو تنبیہ ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ اور رسول سے زیادہ دانشمند اور مدبر ہونے کے خبط میں مبتلا نہ ہو۔ واللّٰہ سمیع  علیم ہے۔ وہ تمہاری ساری باتوں کو سن بھی رہا ہے اور ان کے پیچھے جو محرکات کام کر رہے ہیں ان سے بھی اچھی طرح واقف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے تو اس کا مکافات عمل کا قانون لازماً ظہور میں آئے گا۔ اس قانون کا ذکر آگے والی آیت میں آرہا ہے۔ ملت کے گمراہ افراد  اس آیت میں ہمارے زمانے کے ان لوگوں کو بھی تنبیہ ہے جو اسلام کی خدمت کے دعوے کے ساتھ اس کے اقدار کے مسخ اور اس کے قوانین کی تحریف کر رہے ہیں۔ ان کا گمان یہ ہے کہ اللہ اور رسول نے جس شکل میں اسلام دیا ہے اس شکل میں وہ اس دور میں نہیں پل سکتا۔ ضروری ہے کہ زمانہ کے تقاضوں کے مطابق اس کی اصلاح کی جائے۔ چنانچہ وہ شریعت کے احکام میں اپنی رائے کے مطابق ترمیم کر رہے ہیں۔ بس یہ فرق ہے کہ آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو پہلے ہی سے سبقت کر کے چاہتے تھے کہ اللہ و رسول کے آگے اپنے مشورے پیش کردیں، اس زمانے کے مدعیان اسلام کو یہ موقع نہ مل سکا اس وجہ سے وہ اب ان غلطیوں کی اصلاح کر رہے ہیں جو ان کے نزدیک اللہ و رسول سے ’العیاذ باللہ‘ دین کے معاملے میں ہوگئی ہیں۔
شہر مونگیر میں ایک شب وروز دوسری قسطشرف الدین عظیم قاسمی الاعظمیامارت شرعیہ سے تقریباً ساڑھے دس بجے ہم اپنے مستقر ریلوے کالونی پہونچ گئے، ہمارے میزبان محترم شکیل چچا نے اپنے ملازم کو ہمارے کھانے کے انتظام کا حکم دے رکھا تھا تھوڑی دیر وہ مچھلی سبزی اور دیگر اقسام پر مشتمل پر تکلف کھانا حاضر کردیا میزبان نے بڑی محبت اور مکمل اہتمام سے کھانا کھلایا ان کی دلچسپی محبت اور ضیافت سے طبیعت میں ان کی عظمت کا نقش قائم ہوچکا تھا کھانے کے بعد ان سے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی ساڑھے گیارہ ہونے کو تھا ٹرین کا بھی وقت ہوچکا تھا مجھے حیرت تھی کہ اس قدر اطمینان سے کیوں بیٹھے ہیں’معلوم ہوا کہ موبائل کے ذریعے وہ ٹرین کی مسافت سے بالکل باخبر ہیں’،دس منٹ بعد اپنے ڈرائیور کو فون کیا وہ گاڑی لیکر حاضر ہو گیا میزبان کی معیت میں اسٹیشن آئے گوہاٹی ایکسپریس آئی اور محترم شکیل صاحب کی محبت وعنایات کی خوشگوار سوغات کے ساتھ روانہ ہوگئے۔صوبہ بہار کے بارے میں سنا تھا کہ یہاں ٹرینوں میں ریزرویشن کوئی معنیٰ نہیں رکھتا اس کی تصویر اس ٹرین میں دیکھنے کو ملی ٹرین آئی تو بھیڑ کی وجہ سے اپنے ڈبے میں ہم سوار نہ ہو سکے کسی طرح پیچھے والے ڈبے میں چڑھے لیکن اپنی سیٹ پر نہ جاسکے کھڑے کھڑے دروازے پر ہی پٹنہ آئے یہاں ایک بھیڑ اتریہم بھی اتر کر اپنی بوگی میں آئے کسی طرح بیٹھنے کی جگہ مل سکی اسی کو یہاں کے ماحول میں غنیمت سمجھا۔ اس بے ہنگم بھیڑ کی وجہ ایک تو یہ سمجھ میں آئی کہ عوام کے پاس ٹراولنگ کے ذاتی ذرائع نسبتاً بہت کم ہیں ،دوسرے لوکل ٹکٹ لیکر اے سی ڈبوں میں بیٹھنے کی جر?ت ٹی سی کی لاپرواہی ہے وہ آتے ہیں ریزرویشن ناموں کو پکارتے ہیں اور جنرل والوں کی بھیڑ سے کسی قسم کا تعرض نہیں کرتے،بہرحال شام چھ بجے ہم جمال پور جنکشن پہونچے۔یہاں ہمارے رفقائ  مولانا عبداللہ اعظمی اور مولانا صابر اعظمی منتظر ہونے کو تھے وہ بھاگلپور اپنے استاد مولانا شمس پرویز سابق استاذ جامعہ فیض عام دیوگاؤں اعظم گڈھ کے دولت کدے پر کل ہی سے تشریف فرما تھے اور اس وقت انٹر سٹی ایکسپریس سے جمال پور ہی آرہے تھے اتفاق سے ہماری ٹرین کچھ پہلے آئی اور مخالف سمت سے وہ لوگ آدھے گھنٹے بعد آئے ،ملاقات کے بعد فوراً باہر آئے اور کنوینیر کی رہنمائی کے مطابق ایک آٹو ریزو کر کے مونگیر کی طرف چل پڑے یہاں سے مونگیر شہر تقریباً دس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ،آٹو اچھی رفتار سے دوڑتا رہا ،دس کلومیٹر کا یہ راستہ انتہائی ہموار اور بہترین ہے’ پر پیچ اور مخدوشیت کے اس تصور کو جھٹلا رہا ہے جو قدیم وجدید سماعتوں کے نتیجے میں ذہن ودماغ میں راسخ تھا،ساڑھے سات بجے ہم رحمانی فاؤنڈیشن پہونچے، رحمانی فاؤنڈیشن۔۔۔۔۔یہ ایک بافیض اور علمی و مرکزی ادارہ ہے اور اعلیٰ قسم کی دانشگاہ بھی،بالکل لب روڈ پر واقع اس کی عمارتیں بڑی جاذب نظر اور اسلامی فن تعمیر کا بہترین نمونہ ہیں’،شاہراہ پر ایستادہ گیٹ کے بالکل سامنے مرکزی اور قدیم عمارت ہے سامنے وسیع وعریض صحن میں بڑے سلیقے سے سبزہ زار اور گلزاروں کی کیاریاں ہیں’جو اس کے حسن میں اضافے کا باعث ہیں’،طرز تعمیر کو دیکھ کر اس ادارے کے اساطین وزعمائ  ملت کے اعلیٰ ذوق اور ان کی دانشورانہ حسن طبیعت پر طبیعت عش عش کر اٹھی، اس مرکزی عمارت کی ساخت ہیئت دارالمصنفین شبلی اکیڈمی سے بالکل ملتی جلتی ہے۔بائیں سمت کی طویل عمارت بی ایڈ کالج کا کلاس روم ہے’اور چار منزل پر مشتمل ہے جس میں منت اللہ رحمانی ہال ہے’اسی ہال میں سمینار کا انعقاد ہونا تھا، یہ تعمیر بھی جدید انداز کی خوبصورت اور دلکش ہے۔فاؤنڈیشن کی عمارت کے سامنے استقبالیہ ٹیبل لگے تھے سردی کے متعلق دل خوفزدہ تھا مگر یہاں موسم خاصا معتدل تھا سردی تھی مگر گلابی۔۔۔یہاں حاضر ہو کر ناموں کا اندراج ہوا کاغذات اور فائلیں حاصل ہوئیں،اس کے بعد خانقاہ رحمانی آئے جو فاؤنڈیشن سے تقریباً آدھا کلومیٹر پہلے ہے’شہر میں داخل ہوتے وقت پہلے اسی کی زیارت ہوتی ہے’اس ادارے میں دورہ حدیث کے علاوہ دوسری تکمیلات کا نظم ہے’اس کی پر رونق اور بافیض فضاؤں نے ان گنت سیاروں کو تراشا ہے’بے شمار فکر وفن کے آفتاب اس افق سے طلوع ہوئے ہیں،ماضی قریب کے مفکر حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی اور عصر حاضر کے اسلامی اسکالر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا نام لینا اس دعوے کے ثبوت کے لئے کافی ہے’۔یہی وہ دانشگاہ ہے’اور میکدہ ہے’جہاں سے روحانیت اور معرفت کی نہریں رواں ہوئیں تو علاقے کے علاقے اور خطہ ہائے صحرا صفت کو سیراب کرتی چلی گئیں۔ادارہ بہت وسیع اراضی پر پھیلا ہوا ہے’ مختلف قدیم وجدید عمارات پر مشتمل ہے،مرکزی عمارت جو چار منزل کی ہے’ اوپر شاندار گنبد ہے جس سے اس کی وجاہت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے’ اس کے علاوہ ایک بلڈنگ بالکل جدید ترین طرز کی ہے’اور غالباً پانچ منزلہ ہے’۔ان عمارتوں کے درمیان ایک خوبصورت مسجد ہے’اس کے جنوبی سمت میں وہ حضیرہ ہے’جس میں پیکر روحانیت اور تاریخ ساز شخصیت محمد علی مونگیری آسودہ خاک ہیں’۔اس سے متصل خانقاہ رحمانی ہے’جہاں آج بھی مولانا محمد ولی رحمانی کے ذریعے عرفان واحسان کی سوغات تقسیمِ ہوتی ہے’خانقاہ کے صحن میں کھانے کا نظم تھا اور جدید انداز اور ماڈرن طرز کا تھا جس طرح ہوٹلوں میں رائج ہے یعنی ایک طرف اسٹال کی شکل میں کھانا رکھ دیا جائے کھانے والے ضرورت کے بقدر خود سے لیں اور اپنی کرسی پر بیٹھ کر کھائیں ایک ٹیبل پر کرسیاں خالی تھیں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ہم بیٹھے معلوم ہوا ویفر سسٹم ہے’ تمام رفقائ  کھانا لانے اسٹال پر گئے اور جب لیکر آئے تو کرسیوں پر دوسرے لوگ براجمان تھے۔برآمدے میں جگہ تھی وہیں بیٹھ کر کھا لیا گیا،یہ جدید انداز کیوں اخیتار کیا گیا معلوم نہیں لیکن ہم کہ سکتے ہیں کہ ہماری طرح اور بھی بہت سے لوگوں نے اسے پسند نہیں کیا۔ایک ایسی درسگاہ جو سنت و شریعت کی صرف علمبردار نہیں بلکہ ترجمان بھی ہو اور صدیوں پر اس کی خدمات محیط ہواس کے پلیٹ فارم سے اس طرح کی جدت طرازی کچھ عجیب سی لگی۔کھانے سے فارغ ہوئے تو  ہمیں شہر میں موجود ہوٹل،،راج،،میں پہونچا دیا گیا ہمارے عزیز مولانا عرفات ابن رئیس القلم مولانا ا عجاز احمد اعظمی اور استاذ محترم حاجی بابو بھی مدعو تھے مولانا عرفات تو ساڑھے دس بجے تشریف لائے اور اندراج کی کارروائی اور طعام وغیرہ سے فراغت کے بعد انہیں ایک دوسرے میں ٹھہرایا گیا۔صبح ناشتہ کے وقت گاڑی آئی اور فاؤنڈیشن کے احاطے میں لائی یہیں استاذ مکرم حاجی بابو مولانا ضیائ  الدین قاسمی ندوی مولانا عرفات صاحب سے ملاقات ہوئی ساتھ میں ناشتہ ہوا اور نو بجے سیمینار کی کاروائی منت اللہ ہال میں شروع ہوچکی تھی وہاں حاضر ہوگئے۔سیمینار کی نظامت مولانا ظفر رؤف رحمانی صاحب کررہے تھے تقریباً ڈیڑھ سو مقالہ نگار شریک تھے جس میں زیادہ تر صوبہ بہار کے ادارے کے ہی تھے اس کے علاوہ دارالعلوم دیوبند ندو? العلمائ  لکھنؤ علی گڈھ مسلم یونیورسٹی جامعہ ملیہ،پنجاب یونیورسٹی، پٹنہ یونیورسٹی بہار کے مختلف اخبارات کے ایڈیٹران نیز مصر کے علما بھی تھے۔پہلی نشست نو بجے سے شروع ہو کر دو بجے تک چلی جس میں عموماً اہل بہار اور دارالعلوم دیوبند سے آئے ہوئے مقالہ نگاروں نے اپنی تخلیقات پیش کیں، نشست اول کے اختتام پر کھانے کا دور چلا اور متعینہ گاڑیوں کے ذریعے ہم اپنے مستقر پر آگئے،ظہر کی نماز پڑھ کر مولانا عرفات کے روم میں  تھوڑا آرام کیا اس کے بعد اپنے ہوٹل میں آئے۔مغرب کے بعد پھر سیمینار ہال میں حاضر ہوئے مقالہ نگاروں کی کثرت اور وقت کی قلت اچھے خاصے پروگرام کو مختل کردیتی ہے’اس لیے بار بار اعلان اختصار کے باوجود اکثر حضرات نے اپنا حق سمجھ کر اچھا خاصا وقت لیا ایسے مواقع پر سختی سے کام لینا چاہیے اور منٹ کے اعتبار سے وقت کا تعین کرنا چاہیے اس آخری نشست میں ڈیڑھ گھنٹے بعد استاذ محترم حاجی بابو کا نمبر آیا اور کچھ دیر حقیر کا نمبر آیا مختصر سے وقت میں اپنے دونوں مقالے کا ذکر کیا اور ذیلی عناوین اور مندرجات پر ہلکی سی روشنی ڈالکر اختتامی تحریر پڑھ کر رخصت لے لی،ناچیز کا مقالہ چونکہ طویل تھا اور مولانا محمد علی مونگیری کی رد قادیانیت پر جو فتوحات تھیں انہیں تفصیلی طور پر اجاگر کیا گیا تھا اس لیے اس کے صفحات اسی سے متجاوز ہوگئے علاوہ ازیں پچیس تیس صفحات پر مشتمل تصوف کے موضوع پر علحیدہ مضمون مستزاد، شاید یہی وجہ تھی کہ کنوینیر نے آواز دیتے وقت ان الفاظ صراحت کی کہ،،ان کا مقالہ اس قدر طویل مفصل ہے’کہ ان دو مقالوں کو علیحدہ کتابی شکل دی جاسکتی ہے،،سیمینارساڑھے دس بجے اختتام کو پہنچا ایک اہم سعادت ہمارے لئے یہ تھی کہ مولانا الیاس ندوی بھٹکلی سے ملاقات ہوئی مولانا ضیائ  الدین قاسمی صاحب نے ان سے ناچیز کا تعارف کرایا میری تحریروں کی بڑے عظیم الشان لفظوں سے تعریف کی اس کے علاوہ مولانا فیصل ندوی بھٹکلی شیخوپور اعظم گڈھ کے استاذ مولانا خورشید صاحب دیناجپوری اور بہت سے علمائ  سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔سیمینار اس لحاظ سے کامیاب رہا کہ ممدوح کی تقریباً تمام جہتوں پر مفصل تحریریں جمع ہوگئیں وہ پہلو بھی روشنی میں آگئے جو ان پر لکھی جانے والی سیرت میں نہیں آسکے تھے وہ گوشے بھی اجاگر ہوگئے جو اب تک وقت کی دبیز تہوں میں چھپے ہوئے تھے بلا شبہ یہی سمینار کا مقصد ہے’اور یقینا یہ مقصد حاصل ہے’۔تاہم اس بات کا بھی احساس ہوا کہ بہت سے مقالہ نگاروں کی تحریریں اس قدر سطحی تھیں وہ کسی طرح ایسے عالمی سیمینار کے قابل نہیں تھیں بس فارمیلٹی پورا کرنے کے لئے انہوں نے معروف کتاب سیرت محمد علی سے اقتباس نقل کرکے سنا دئیے کام ہوگیا ،ایک سیمینار کے لئے میری نگاہ میں دوچار صفحات اکابرین کے لئے تو بحیثیت تہینیت وپیغامات مناسب تو ہوسکتے ہیں مگر ایک مقالہ نگار کے لئے کسی طرح زیب نہیں دیتالیکن افسوس یہاں ہم نے دیکھا کہ بڑی بڑی عصری دانشگاہوں سے آنے والے اور جرائد و اخبارات مدیران نے چار پانچ صفحہ کا مضمون لکھ کر سرخرو ہو گئے ممکن ہے یہاں ان کے عہدوں اور بلند ناموں کا اثر ہو۔پروگرام ختم ہونے سے پہلے ہی ساڑھے نو بجے ہم کھانے سے فارغ ہوگئے اور مولانا ضیائ  الدین صاحب اور ان کے رفقائ  پہلے ہی رہائش گاہ جاچکے تھے حاجی بابو کی معیت میں ہماری جماعت آٹو کے ذریعے قیام گاہ آئی مولانا عرفات اور حاجی بابو جس ہوٹل میں تھے وہ ہماری رہائش گاہ سے پہلے ہی پڑتا تھا میں یہیں رک گیا مولانا عبداللہ وغیرہ اپنے مستقر پر پہونچے،یہیں روم میں عشائ  کی نماز ادا کی گئی نماز بعد حاجی بابو کی ظرافت سے مجلس قہقہہ زار تھی ایک گھنٹے بعد محترم عرفات صاحب کے ساتھ پیدل اپنے مستقر کی طرف روانہ ہوا شہر کے درمیان سے گذرتے ہوئے احساس ہوا کہ مسلم آبادی بہت کم ہے کہیں مسجد نظر نہیں آئی۔ایک طالب علم سے معلوم کیا گیا تو اس نے بتایا کہ ایک مسجد ہے مگر بہت اندر ہے۔شہر کی اکثریت ہندو مت پر عمل پیرا ہے’لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ خانقاہ رحمانی کی عظمت ان کے دلوں پر آج اس دور تنافر میں بھی نقش ہے’ جس دکان پر جانے کا اتفاق ہوا ان کی بات لہجے اور کردار سے محسوس ہوا کہ یگانگت ورواداری کی شمعیں اس علاقے میں روشن ہیں علمائ  کا احترام غیروں کے یہاں بھی موجود ہے یقیناً یہ حضرت مونگیری اور ان کے خلفائ  وجانشین کی انسانیت نوازی ہی کا اثر ہے’۔ساڑھے گیارہ بجے ادارے کی گاڑی آئی اور خیرآبادکے قافلے کے ساتھ اپنے رفقائ  کے ساتھ ہم اسٹیشن آئے حسن اتفاق سے فرکا ایکسپریس ان حضرات کا بھی ٹکٹ کا صبح میں استاذ محترم حاجی بابو اپنے قافلے کے ہمراہ بکسر اتر گئے۔مولانا عرفات صاحب میرے ساتھ ہی تھے وہ زمانیہ غازی پور اترے اور ہم چار افراد کا قافلہ مولانا صابر مولانا عبد اللہ مفتی کامران اور ناچیز مغل سرائے اترے،اول الذکر حضرات بنارس کی طرف آئیندہ کی ملاقات کے عہد کے ساتھ روانہ ہوگئے۔اور راقم مفتی صاحب کے ساتھ مغل سرائے شہر میں موجود ان کے گھر آیا ناشتہ سے فارغ ہوکر تھوڑا آرام کیا یہیں مولانا مفتی نیاز صاحب تشریف لائے ایک زمانے کے بعد ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا شیخوپور کے فیض یافتہ ہیں اور یہیں اپنے وطن میں تدریس میں مشغول ہیں’،دو بجے کھانا کھا کر اسٹیشن روانہ ہو ئے نماز پڑھی اور ڈھائی بجے روانہ ہونے والی کرلا پٹنہ راجیندر نگر ایکسپریس سے ممبئی کے لئے مذکورہ لمحات اور دوستوں استاذوں کی صحبتوں کی خوشگوار یادوں کے ساتھ ممبئی روانہ ہوگیا۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا