؟جب ظلم و ستم کے ’کوہِ گراں‘ روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
عبدالعزیز
گزشتہ روز بنگلور سے لے کر ممبئی تک، ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ’این آر سی‘ اور ’شہریت ترمیمی قانون‘ کے خلاف زبردست پیمانے پر احتجاج اور مظاہرے ہوئے۔ اس سے پہلے بھی جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مظلوم طلبہ کی یکجہتی اور کالے قانون کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے ہوچکے ہیں۔ پہلے پچیس تیس یونیورسٹیوں کے طالبعلموں نے مظاہرہ کیا تھا ۔ گزشتہ روز 22یونیورسٹیوں کے طلبہ نے مظاہرہ کیا۔ جنترمنتر میں طلبہ و طالبات ، سول سوسائٹی کے رہنما و ذمہ دار ، سیاستداںاور چیدہ شخصیتوں نے کالے انگریزوں کے کالے قانون کے خلاف مظاہرے کئے۔ ممبئی میں بہت بڑے پیمانے پر سول سوسائٹی کے لوگوں ، ایکٹر، ایکٹریس اور عام لوگوں نے مظاہرے کئے۔ بنگلور میں مشہور و ممتاز تاریخ داں، صحافی اور مصنف مسٹر رام چندر گوہا کو پولس نے اس وقت حراست میں لے لیا جب وہ تنہا مجمع عام سے کچھ فاصلے پر دستور ہند کی کاپی لے کر ایک نامہ نگار سے بات کر رہے تھے کہ مظاہرہ اور احتجاج پر امن ہے پھر بھی پولس مظاہرین پر بلا وجہ سختی سے پیش آرہی ہے۔ ان کی حراست کے خلاف ملک بھر میں سول سوسائٹی کے لوگوں کے علاوہ اپوزیشن کی تمام پارٹیوں نے مذمت کی ۔ اوروہ سول سوسائٹی کے ایک بڑے چہرے کی علامت بن گئے۔ رام چندر گوہا کو چار پانچ گھنٹے کے بعد پولس نے رہا کیا، لیکن جس طرح پولس والوں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر کھینچ کر بس میں بٹھایا اسے دیکھ کر ہر ایک نے جو رام چندر گوہا کو جانتا تھا پولس کے اس رویے اور ناروا سلوک کی مذمت کی۔ رام چندر گوہا کا آج (20دسمبر) انگریزی روزنامہ ’دی ٹیلیگراف‘ میں ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ آمریت عقل و دانش کیلئے نہایت بری چیز ہے لیکن تعصب اس سے بھی بری چیز ہے۔ غیر معقولیت کی حکمرانی ایک ایسی چیز ہے کہ ہندستانی سائنسدانوں کو ملک سے دور کر دیتی ہے۔ مودی حکومت متعصب اور غیر مہذب ہے۔ ایک وقت آئے گا جب سائنسداں کی بات صحیح ثابت ہوگی۔ ہندستان نے ایسے سائنسدانوں کو چاہا کہ وہ بولیں اور انھوں نے ایسا ہی کیا۔ رام چندر گوہا تنہا ممتاز تاریخ داں اور علم داں نہیں ہیں جو مودی کی حکمرانی کو ناپسند کرتے ہیں بلکہ بہت سے ایسے لوگ ہیں جو مودی کی حکمرانی کو بے انتہا ناپسند کرتے ہیں۔ اس وقت ملک کی جو صورت حال ہے وہ انتہائی ناگفتہ بہ ہے اور ملک بھر میں جو موجودہ حکومت کے رویے اور طرزِ حکمرانی کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں۔ سیکڑوں لوگ اب تک زخمی ہوئے ہیں اور تین افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ یونیورسٹیوں کو بند کردیا گیا ہے۔ انٹرنیٹ کو کئی دنوں سے بند رکھا گیا ہے۔ ہندستان ایک ایسا ملک ہے جہاں چار مہینے سے زیادہ کشمیر میں وہاں کے لوگوں کے سارے حقوق سلب کر لئے گئے ہیں اور ساری سہولتوں سے انھیں محروم کر دیا گیا ہے۔ اس میں بچے، عورتیں، بوڑھے، کمزور اور بیمار سب شامل ہیں۔ آسام میں بھی کئی دنوں سے کشمیر جیسی صورت حال نظر آرہی ہے۔ ان سب کے باوجود مودی اور شاہ کے رویے میں کوئی فرق نہیں آیا۔ جھوٹ پر جھوٹ بولے چلے جارہے ہیں۔ ان کی پارٹی کے لیڈران اور ترجمان کا بھی کم و بیش یہی حال ہے۔ اندر سے تو وہ بوکھلائے ہوئے ہیں لیکن ظاہری طور پر کہہ رہے ہیں کہ کانگریس اور کمیونسٹ پارٹیاں مسلمانوں، نوجوانوں اور طالبعلموں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ حالانکہ آئی آئی ٹی کی کئی یونیورسٹیوں کے طلبہ بھی اس مظاہرے میں شامل تھے۔ یونیورسٹیوں کے طالبعلموں کو اپنے سے کمتر سمجھنا نادانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جن لوگوں کے پاس ٹھیک ڈگریاں بھی نہیں ہیں اور جن کو ناقص تعلیم ملی ہے وہ پڑھے لکھے لوگوں، ڈاکٹرس ، انجینئرس، ریسرچ اسکالر اور ذہین طلبہ و طالبات کو اپنے فروتر سمجھ رہے ہیں۔ ان کو سوچنا چاہئے کہ ایسے لوگ بدقماش سیاستدانوں سے کہیں زیادہ عقلمند ہوتے ہیں اور اپنے دماغ سے سوچتے ہیں اور اپنا فیصلہ خود کرتے ہیں۔ ان کو ریڈیکل کہنا یا اربن نکسلائٹ بتانا یا گمراہ کرنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ بھاجپا اور آر ایس ایس کے لیڈر تاریخ سے سبق لینا نہیں چاہتے۔ گجرات میں ایک کالج کے میس کی فیس 1974 ء میں بڑھا دی گئی تھی ، ا س کے خلاف اندولن شروع ہوا اور بڑھتے بڑھتے ملک میں اندولن چھاگیا، جیسا کہ آج ہورہا ہے۔ بعد میں اس اندولن کی قیادت جے پرکاش نرائن نے کی۔ ایمرجنسی لگی تو اندرا گاندھی نے اپنے آپ کو بچانے کیلئے ہر طرح کی کوشش کی لیکن تمام پارٹیوں نے مل کر جنتا پارٹی بنائی۔ کانگریس کا راج ختم ہوگیا ۔ یہاں تک کہ اندرا گاندھی کو اپنے حلقے میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ تیونیشیا میں بھی ایک مظلوم فرد کو جب انصاف نہیں ملا تو اس نے اپنے اوپر پٹرول چھڑک کر آگ لگا لی۔ تیونس کے صدر اور وزیر اعظم کو زبردست اندولن کے بعد مستعفی ہونا پڑا۔ مصر میں کچھ ایسا ہی ہوا۔ قاہرہ کے اسکوائر میں دو لڑکے بیٹھ گئے اور انھوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے تحریک چلائی۔ آناً فاناً تحریک ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیل گئی۔ 25سال کی حکمرانی کے باوجود حسنی مبارک کو اپنی صدارت کی کرسی چھوڑنی پڑی۔ اندولن، تحریک سے حکومتوں پر اور ملک پر کتنا اثر ہوتا ہے آمر یا تانا شاہ کبھی بھی سبق نہیں لیتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پولس اور فوج کے ذریعے بڑی سے بڑی تحریک اور اندولن کو کچل دیں گے۔ مودی اور شاہ کچھ ایسا ہی سوچ رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔ لیکن طلبہ اور نوجوانوں کے مظاہرے اور احتجاج سے اپوزیشن پارٹیوں میں بھی جان آگئی۔ پارٹیوں کے ذمہ داران اب لڑنے بھڑنے کیلئے تیار نظر آرہے ہیں۔ ان مظاہروں سے اپوزیشن جو سکڑ گئی تھی اس میں بھی جان آگئی ہے۔ اب دیر یا سویر اس حکومت کا بھٹا بیٹھ سکتا ہے۔ اب اپنی مدافعت میں فسطائی حکومت عوام کو سمجھانے کی کوشش کر رہی ہے کہ ’این آر سی‘ سے کسی کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ شہریت ترمیمی قانون مسلمانوں کے خلاف نہیں بنایا گیا ہے۔ حالانکہ این آر سی کے بارے میں امیت شاہ لوک سبھا میں کہہ چکے ہیں کہ پورے ملک میں این آر سی ہوگا اور گھس پیٹھیوں (دراندازوں) کو حراستی کیمپ میں لے لیا جائے گا یا ملک بدر کردیا جائے گا۔ گزشتہ روز پارٹی کے کارگزار صدر نے بھی شاہ کی طرح ہی این آر سی کے بارے میں بیان دیا۔ شہریت ترمیمی ایکٹ مذہب کی بنیاد پر بنایا گیا ہے محض یہ سمجھانے کیلئے مسلمانوں کو چھوڑ کر کسی فرقہ کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی، سب کو شہریت دے دی جائے گی خواہ اس کے پاس دستاویز ہوں یا نہ ہوں ۔ حالانکہ آسام میں ہر آدمی کو برسوں اپنی دستاویز جمع کرنے کیلئے ہر طرح کے پاپڑ بیلنے پڑے۔ دن دن بھر رات رات بھر قطاروں میں لوگوں کو کھڑا رہنا پڑا۔ اپنی جائیداد فروخت کرکے قرض ادھار لے کر سرکاری اہل کاروں رشوت دے کر شہریت حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ ابھی ملک میں این آرسی کا کام شروع نہیں ہوا ہے لیکن این آر سی کے خوف سے 17 آدمی کی موت ہوچکی ہے۔ گمراہ مودی اور شاہ کی پارٹی کر رہی ہے اور بتارہی ہے کہ اپوزیشن کے لوگ مسلمانوں اور نوجوانوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ آسام میں 19 لاکھ میں سے 12 لاکھ غیر مسلموں کو جب شہریت دے دی جائے گی تو مسلمانوں کو کیا شہریت دی جائے گی؟ ہر گز نہیں۔ کیونکہ کالے قانون میں جس کو شہریت ترمیمی قانون کہتے ہیں اس میں ہر فرقے اور ہر مذہب کو شہریت دینے کی بات کہی گئی ہے سوائے مسلمانوں کے۔ مذہب کی بنیاد پر تفریق اور نابرابری دستور ہند کے سراسر خلاف ہے۔ سیکولرزم اور جمہوریت کے بھی خلاف ہے۔ اتنی صاف اور واضح بات بھلا کون نہیں سمجھ سکتا؟ بی جے پی اور ان کے گروہ اور سرغنہ مودی اور شاہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ دوسرے لوگ نوجوانوں، طالبعلموں اور مسلمانوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال نے کہا ہے کہ اس قانون کی قطعاً ضرورت نہیں ہے اسے حکومت کو واپس لے لینا چاہئے۔ اس قانون کی ملک کو ضرورت ہو یا نہ ہو لیکن بی جے پی کو اس کی سخت ضرورت ہے۔ اس سے وہ اپنے دو مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ایک مقصد تو یہ ہے کہ حکومت جو ساڑھے پانچ سال سے ناکام ہوگئی ہے اسے جھٹلانا چاہتی ہے۔ کسانوں کی پریشانی، بے روزگاری اور مہنگائی پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے تاکہ لوگوں کا ذہن بنیادی مسائل کے بجائے جذباتی مسائل میں اٹکا رہے۔ دوسرا مقصد ان کا یہ ہے کہ ان کی فسطائی ہندو راشٹر ملک بھر میں قائم ہوجائے۔ ملک کے لوگ آج نہیں تو کل ان کے ان دونوں مقاصد کو سمجھ جائیں گے۔ پولس اور فوج کے بل بوتے پر آخر یہ کتنے دنوں تک ٹکے رہیں گے؟ حکومت کی ایک ہی کمزوری لوگوں کے سامنے آرہی ہے۔ عدلیہ اگر سرگرم عمل ہوتی تو اور انصاف کے تقاضے کو پوری کرتی تو موجودہ حکومت کا حوصلہ بہت پہلے پست ہوگیا ہوتا۔ لیکن عدلیہ کے کردار سے موجودہ حکومت کو واسطہ یا بالواسطہ مدد مل رہی ہے۔ مختصراً یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اپوزیشن کی طاقت، نوجوانوں کی طاقت بڑھ رہی ہے اور اسی پیمانے پر حکمراں جماعت کی کمزوری بھی بڑھ رہی ہے۔ فیض احمد فیض نے اپنی زندگی میں ایک نظم لکھی تھی جو گزشتہ روز جنتر منتر پر نوجوانوںنے نغمہ سرائی کی
:ہم دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے … لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گےوہ دن کہ جس کا وعدہ ہے…
جو لوحِ ازل میں لکھا ہےجب ظلم و ستم کے کوہ گراں…روئی کی طرح اْڑ جائیں گےہم محکوموں کے پاؤں تلے
…یہ دھرتی دھڑدھڑدھڑکے گیاور اہلِ حکم کے سر اوپر…جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گیجب ارضِ خدا کے کعبے سے…سب بُت اٹھوائے جائیں گےہم اہلِ سفا مردودِ حرم
…مسند پہ بٹھائے جائیں گےسب تاج اچھالے جائیں گے…سب تخت گرائے جائیں گےبس نام رہے گا اللہ کا
…جو غائب بھی ہے حاضر بھیجو ناظر بھی ہے منظر بھی…اٹھّے گا انا الحق کا نعرہجو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو…
اور راج کرے گی خلقِ خداجو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو…لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے