26 جنوری :قانون ساز مجلس اور مسلم ممبران

0
263

 

 

 

از قلم: شیخ محسن
پی جی اسکالر: دارالہدیٰ اسلامک یونیورسٹی ، ملاپورم ،کیرالا

یومِ جمہوریہ وطن عزیز بھارت کا ایک تاریخی اور یادگار دن ہے، اسی تاریخ کو ہمارے آزاد خود مختارملک کا قانون نافذ ہوا، اسی کی بنیاد پر ہمار ملک ایک جمہوری ملک قرار پایاجس میں تمام مذاہب کے ماننے والوں، مختلف قبیلوں اور مختلف تہذیب و ثقافت والوں کو مذہبی آزادی کے ساتھ اس ملک میں رہنے اور جینے کا حق ملاہے۔یوم آزادی 15 ، اگست 1947ء کے پندرہ دنوں بعد29، اگست1947 کو طے کیا گیا کہ آزادہندوستان کا اپنا آئین بنایاجائے ،جس میں اس ملک کے تمام باشندوں کے حقوق کا تحفظ بھی ہو ، جس میںان کی خوش حال اور پرامن زندگی کی ضمانت بھی،اس مقصد کے لئے دستورساز اسمبلی نے سات افراد پرمشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی ،جس کے صدر ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر تھے۔اس کمیٹی نے دو سال گیارہ مہینے اٹھارہ دن یعنی تین سال کی مسلسل محنت کے بعد ملک کا آئین تیار کیا ،جسے ملک کی پارلیمنٹ نے منظور کرکے نافذ کردیا،اسی آئین کی رو سے ہمارا ملک جمہوریہ ہندکہلایا۔

دستورسازی کے لئے محنت وکوشش کرنے والوں میں بھارت کے نامور سیاسی مسلمان اور مسلم مذہبی رہنما بھی شامل تھے۔اگر دستورسازی کے موقع پر مسلم مذہبی رہنمائوںنے دور اندیشی سے کام نہ لیا ہوتا یعنی ملک کو جمہوری انداز میں تشکیل پانے پر زور نہ دیا ہوتا تو اِس ملک کا امن وسکون غارت ہوجاتا ۔نہ صرف مسلمانوں بلکہ دیگر برادران وطن کو بھی مذہبی تنگ نظری اور برادری و طبقاتی تعصب پسندی کا نشانہ بننا پڑتا،اور حقوق واختیارات سے محروم ہوکر مجبور و لاچار کی طرح رہنا پڑتا ،لیکن ان لوگوں کی قربانیوں اور ہندوستانی شہریوں کے حوالے سے ان کی بے لوث فکرمندیوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارا ملک ایک ایسا جمہوری ملک ہے ،جہاں ہر مذہب والااپنی مذہبی آزادی کے ساتھ رہ رہا ہےاور جہاں ہونے والے ظلم کے خلاف ،ناانصافیوں کے خلا ف،آئینی اختیارات کے خلاف ہونے والے فیصلوں پر صدائے احتجاج بلند کرنے کا حق حاصل ہے ۔اس ملک کی تعمیر وترقی ، اس کی سالمیت ،امن ومحبت ،تہذیب وثقافت کے تحفظ کے لئے تگ ودو کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جس طرح منصوبہ بندی کے ساتھ تحریکِ آزادی کے مجاہدین میں مسلمانوں کے ناموں کو نکال دیا گیاہے اور گنے چنے چند نام رہ گئے ہیں بلکہ درسی کتابوں ، سرکاری نصابوں اور تعلیم گاہوں سے لے کر جلسوں ،اجتماعوں اور قومی تقریبوں تک مسلمانوں کے تذکروں کو حذف کردیا گیاہے ،اسی طرح دستو رسازی میں شامل مسلمانوں نے کس طرح اپنے علم ،صلاحیت ،فکر اور محنت کو لگایا ہے ،اِس کو بھی تاریخ کے صفحات سے بالکل الگ کردیا گیابلکہ ہم مسلمانوں میں ایک بڑی تعداد اُن لوگوں کی ہے جنہیں یہ بالکل بھی نہیں معلوم کہ مسلمانوں نے بھی دستورسازی میں حصہ لیاہےاور اس کے لئے کوششیں کی ہیں۔ محترم رمیض احمد تقی کی تحقیق کے مطابق تقریباً 3ت مسلم ارکانِ قانون ساز مجلس کا نام اور کام سامنے آیاہے:
(1) مولانا ابوالکلام آزاد (11 نومبر 1888۔ 22 فروری 1958) ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم
(2) ابوالقاسم خان (5 اپریل 1905۔ 31 مارچ 1991) جو A.K خان سے زیادہ مشہورتھے، آپ بنگالی وکیل، صنعت کار سیاست دان تھے۔
(3) عبدالقادر محمد شیخ (4) عبدالحمید(5) عبدالحلیم غزنوی (1876۔1953)آپ ایک سیاستداں، تعلیمی اور ثقافتی امور کے سرپرست اور زمینداربھی تھے ۔ (6) سید عبدالرؤف(7) چوہدری عابد حسین(8) شیخ محمد عبداللہ (دسمبر 1905۔8 ستمبر1982)(9) سید امجد علی (1907۔ 5 مارچ1997) (10) آصف علی (11مئی 1888۔ 1 اپریل1953)آپ پیشے سے ایک وکیل تھے، پہلی بار ہندوستان کی طرف سے امریکہ کے سفیر مقرر ہوئے اورکئی سال تک اڑیسہ(اوڈیشہ) کے گورنر بھی رہے۔(11) بشیر حسین زیدی (1898۔ 29 مارچ 1992) عام لوگوں میں آپB.H. زیدی سے زیادہ معروف تھے۔(12) بی پوکر) (B.Pocker صاحب بہادر (1890۔1965) آپ وکیل اور سیاست داں تھے۔
(13) بیگم عزیز رسول (1908۔2001) سیاست داں اور قانون ساز اسمبلی میں واحد مسلم خاتون۔ (14) دستور ساز کمیٹی کے اہم رکن مولاناحسرت موہانی(معروف شاعر،مجاہد آزادی،اردوے معلی کے بانی مدیر)دستور سازی کے دنوں میں لوٹین زون نئی دہلی کی سنہری باغ مسجد میں برابر نمازیں ادا کرتے ۔
(15) حیدر حسین(16)حسین امام(17) جسیم الدین احمد(18) کے ٹی ایم احمد ابراہیم
(19) قاضی سید کریم الدین۔ ایم اے، ایل ایل بی (19 جولائی 1899۔14 نومبر 1977) (20) کے اے محمد(21) لطیف الرحمن (22) محمد اسماعیل صاحب (1896۔1972) انڈین یونین مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے ایک ہندوستانی سیاستداں ، راجیہ سبھا اور لوک سبھا دونوں کے رکن تھے،کیرل ان کا آبائی وطن تھا جہاںآپ کو’’قائد ملت‘‘ کے لقب سے جانا جاتا ہے۔ (23) محبوب علی بیگ صاحب بہادر (ہندوستانی قانون ساز اسمبلی کے ممتاز رکن،جنہوں نے اقلیتوں کے مسائل کی نمائندگی میں ایک اہم کردار ادا کیا، خاص طور پرآزادیِ مذہب کے حوالے سے آپ نے کئی ترمیمات اور اضافے کیے) (24) محمد اسماعیل خان(25)(مولانا) محمد حفظ الرحمن(سیوہاروی) (26) محمد طاہر(27) شیخ محمد عبداللہ) 5 دسمبر 8۔1905ستمبر (1982 سیاستداں اورصوب جموں و کشمیر سے آئین ساز اسمبلی کے ممتاز رکن تھے. (28) مرزا محمد افضل بیگ(29) مولانا محمد سعید مسعودی(30)نذیر الدین احمد (31) رفیع احمد قدوائی (18فروری 1894۔ 24 اکتوبر 1954) معروف مجاہدآزادی،کانگریسی لیڈراورآزادہندوستان کے پہلے وزیرمواصلات (32) راغب احسن(33) سید جعفر امام (34)تجمل حسین۔ (35) سر سید محمدسعد اللہ (21 مئی 1885۔ 8 جنوری 1955) آسام کے پہلے وزیر اعلی۔

یہ اُن عظیم لوگوں کے نام ہیں جنہوں نے مسلمانوں کی طرف سے قانون سازی میں ترجمانی کی اور بعض تو وہ ہیں جنہوں نے بھرپور انداز میں ملک کوجمہوری بنانے اور مسلمانوں کے حقوق وتحفظات کے لئے ناقابل فراموش کردار اداکیا ۔مولاناحسرت موہانی جنہوں نے دستور سازی میں قابل قدر خدمات پیش کی ہے اور بڑھ چڑھ کر مناسب ومفید دفعات کے لئے آخر وقت تک لگے رہے۔مولانا حسرت موہانی نے دستور ساز اسمبلی میں عائلی قوانین جو مسلمانوں سے متعلق تھے ،کے تحفظ کے لئے بھی موثر انداز میں اظہار کیا۔ انہوں نے دستورسازی کے موقع پرتمام مذاہب کے پرسنل لا، بالخصوص مسلمانوں کے پرسنل لامیں مداخلت کے سلسلہ میں کہاکہ
’’میں یہ بتادینا چاہاہوں گا کہ کوئی سیاسی پارٹی یافرقہ پرست پارٹی کو کسی بھی گروپ کے پرسنل لا میں کسی قسم کی مداخلت کا اختیار نہیں ۔یہ خصوصا مسلمانوں کی نسبت کہتاہوں کہ اُن کے پرسنل لا کے تین بنیاد ی اصول ہیں جو مذہب زبان اور کلچر ہیں جن کو انسانوں نے نہیں بنایا ہے ۔اُن کا پرسنل لا قانون وراثت ، شادی اور طلاق کاقانون قرآن حکیم سے لیا گیا ہے اور اس کا ترجمہ اس میں درج ہے ،اگر کوئی یہ سمجھے کہ وہ مسلمانوں کے پرسنل لا میں مداخلت کرسکتے ہیں تو میں کہوں گاکہ اس کا انجام بے حد نقصان دہ ہوگا۔میں اِس ایوان میں آواز لگاکر کہہ رہاہوں کہ وہ مصیبت میں پھنس جائے گا،مسلمان کسی صورت میں اپنے پرسنل لامیں مداخلت برداشت نہیں کریں گے اور اگر کسی کو ایسا کہنے کی ہمت ہو تو اعلان کرے۔‘‘

درمیان میں کچھ ارکان نے تقریرکے دوران مداخلت کرنے کی کوشش کی ،جس پرمولانا حسرت موہانی نے بآواز بلند کہا کہ:
’’اِن کو قائل رہنا چاہیے کہ میں اِس ایوان کے سامنےاعلان کرتا ہوں کہ مسلمانانِ ہند کبھی بھی اپنے پرسنل لامیں مداخلت برداشت نہیں کریں گے اور ان کومسلمانوں کے عزائم کی آہنی دیوارکا روزانہ مقابلہ کرنا پڑے گا۔‘‘( حسرت موہانی اور انقلابِ آزادی:521)
مولانا حسرت موہانی کی طرح اکثر مسلم رہنمائوں اور سیاست دانوں نے اپنا کردار پیش کیا ہے اورمجاہد آزادی مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت اور ان کی خدمات تو خوب روشن ہیں۔یوم جمہوریہ ۲۶ جنوری کوبطورِ خاص دستورساز مسلم رہنمائوں کے کارناموں کو اجاگر کرنے اور تاریخ کے صفحات سے ان کی خدمات کو کھنگال کر قوم وملت کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے، اس لئےکہ اِس ملک کو جمہوری بنانے میں مسلمانوں کا بنیادی رول رہا ہے ۔ یومِ جمہوریہ کے یاد گار موقع پر اُن تمام محسنوں کے نام ، کام اورکردار کو فراموش کردیا گیاہے ۔ افسوس کہ ان کے اپنے بھی لاعلمی اورناواقفیت کے ساتھ یہ تاریخی دن گزاردیتے ہیں۔ضرورت ہے کہ جمہوری انداز میں جدید ہندوستان کی تعمیرجدید کے لئے اُس کی بنیادوں میں شامل ہندوستانیوں کی فکر وصلاحیت لگانے والوں کو بھی یاد کیا جائے اور باضابطہ اُن کے تذکرے کیے جائیں اور بتایا جائے کہ مسلم مذہبی رہنمائوں کی مخلصانہ کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ یہ ملک جمہوری قرارپایاہے ورنہ یہاں کی دیگر اقلیتوں کوبھی غلامانہ زندگی بسرکرنا پڑتاکیوں کہ اگر آج ہم نے اس سلسلہ میں غفلت کی اور لاپرواہی کاثبوت دیا تو پھر آنے والے دور میں تو کوئی بھی اس سلسلہ میں دلچسپی لینے والا نہیں ہوگا۔

آج ہمارے وطن عزیز جمہوری ملک بھارت کی جمہوریت اور سالمیت خطرہ میں ہے اور ملک کو ہندوراشٹر بنانے اور خاص رنگ میں رنگنے کی غیر جمہوری اور غیر قانونی کوششیں زوروں پر ہیں، ایسے پُرخطر حالات میں تمام امن پسند ،جمہوریت کے سبھی پاسبانوں کو وطن عزیز کی جمہوری بقاکے لئے ایک نئی جدوجہد کرنے کی سخت ضرورت ہے ورنہ ہمارا یہ پیاراملک نفرت کی آگ میں جھلس جائے گااور فرقہ پرستی کی لہر تباہ وبرباد کردے گی ۔اس کا موثر طریقہ اپنوں اور اپنی نسل کو ہندوستان کی تاریخ آزادی کے ساتھ آزاد ہندوستان کے دستور کی تاریخ اور دستور ساز مسلم قائدین کی تاریخ اور کردار سے آگاہ کرنا بھی ہے جو ہم سب کے لئے آسان ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا