کشمیر میں غیر یقینی صورتحال کے چار ماہ مکمل

0
0

انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس خدمات کی معطلی کے ساتھ ساتھ جامع مسجد برابر مقفل
یواین آئی

سرینگر؍؍وادی کشمیر میں پیر کے روز غیر یقینی صورتحال اور غیر اعلانیہ ہڑتال کے چار ماہ مکمل ہوئے۔ اگرچہ وادی کے طول وعرض میں معمولات زندگی بحالی کی شاہراہ پر جادہ پیما ہے تاہم تمام تر انٹرنیٹ خدمات، ایس ایم ایس سروس، پری پیڈ موبائیل سروس مسلسل معطل ہیں اور نوہٹہ میں واقع تاریخی جامع مسجد کے محراب ومنبر بھی تواتر کے ساتھ خاموش ہیں۔بتادیں کہ مرکزی حکومت کی طرف سے پانچ اگست کو اٹھائے گئے اقدامات، جن کے تحت جموں کشمیر کو دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات منسوخ کئے گئے اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کیا گیا، کے خلاف وادی میں غیر اعلانیہ ہڑتال کا سلسلہ تواتر کے ساتھ جار ی ہے، اگرچہ یہاں ہڑتال کی کال علاحدگی پسند لیڈران دیا کرتے تھے لیکن وہ پانچ اگست سے مسلسل خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں اور ان کی طرف سے کوئی اخباری، زبانی یا ٹیلی فونک بیان سامنے نہیں آتا ہے علاوہ ازیں وادی کی مین اسٹریم جماعتوں کے بیشتر چھوٹے بڑے لیڈران بھی پانچ اگست سے مسلسل خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں جن میں تین سابق وزارئے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، اْن کے فرزند عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی خاص طور پر قابل ذکر ہیں تاہم انتظامیہ نے مین اسٹریم لیڈروں کی رہائی کا سلسلہ شروع کیا ہے اور سردی کے پیش نظر چند روز قبل 33 لیڈروں کو سنتور ہوٹل سے مولانا آزاد روڑ پر واقع ایم ایل اے ہوسٹل منتقل کیا گیا۔مرکزی حکومت کی طرف سے پانچ اگست کو کئے گئے متذکرہ فیصلے سے قبل ہی سیکورٹی فورسز کی بھاری تعداد کو سڑکوں پر تعینات کرکے وادی کے بیشتر حصوں میں سخت ترین بندشیں عائد کی گئی تھیں اور تمام تر موبائل فون خدمات اور ہر قسم کی انٹرنیٹ سروسز کو بند کیا گیا تھا تاہم بعد ازاں وادی میں پابندیوں کو مرحلہ وار ہٹایا گیا۔ انتظامیہ نے پہلے مرحلے میں لینڈ لائن سروس کو مرحلہ وار بحال کیا گیا بعد میں 14 اکتوبر کو پوسٹ پیڈ موبائل فون سروس بحال کی گئی تاہم انٹرنیٹ، ایس ایم ایس، پری پیڈ موبائل فون خدمات اور پائین شہر کے نوہٹہ میں واقع تاریخی اور چھ سو سالہ قدیم معبد جامع مسجد میں نماز جمعہ بھی ادائیگی بحال نہیں ہورہی ہے۔اگرچہ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جامع مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی پر کوئی پابندی نہیں ہے تاہم جامع کے منتظمین نے کہا کہ جامع مسجد کے گرد وپیش سیکورٹی فورسز حصار کے پیش نظر جامع میں فی الوقت نماز جمعہ کی ادائیگی ممکن نہیں ہے۔امام حی سید سعید احمد نقشبندی نے چند روز قبل یو این آئی اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ جامع مسجد کے گرد وپیش سیکورٹی حصار کے پیش نظر جامع میں فی الوقت نماز جمعہ کی ادائیگی ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب جمع کے ارد گرد سیکورٹی حصار کو ہٹایا جائے گا تب جامع میں نماز جمعہ کی ادائیگی بحال ہوگی۔قابل ذکر ہے کہ تاریخی جامع مسجد کے محراب ومنبر گزشتہ جمعہ کو مسلسل 17 ویں جمعہ کو بھی خاموش ہی رہے جس سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ فریضہ نماز جمعہ کی ادائیگی سے محروم رہے۔ادھر انٹرنیٹ خدمات پر عائد پابندی سے مختلف شعبہ ہائے حیات سے وابستہ لوگوں بالخصوص صحافیوں، طلبا وغیرہ گوناگوں مشکلات درپیش ہیں۔ انتظامیہ نے اگرچہ صحافیوں کے لئے ایک نجی ہوٹل میں میڈیا سینٹر قائم کیا تاہم بعد ازاں اس میڈیا سینٹر کو محکمہ اطلاعات وتعلقات عامہ کے ایک چھوٹے کمرے میں منتقل کیا گیا جہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔صحافیوں نے بارہا انتظامیہ سے کم سے کم براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروس کی بحالی کا مطالبہ کیا اور احتجاج بھی کیا لیکن معاملہ جوں کا توں ہی ہے۔ اگرچہ چند روز قبل براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروس بحال ہونے کی افواہیں بھی گرم ہوگئی لیکن وہ سب سراب ہی ثابت ہوئے۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کی مسلسل معطلی ان کے لئے ہرگزرتے دن کے ساتھ سوہان روح بن رہی ہے۔وادی میں ریل خدمات دو اگست کو ہی معطل کی گئی تھیں تاہم بعد ازاں قریب ساڑھے تین ماہ بعد ریل سروس کو مرحلہ وار بحال کیا گیا۔ کشمیر میں تعینات شمالی ریلوے کے چیف ایریا منیجر وپن روہت نے چند روز قبل یو این آئی اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ وادی میں پہلے ریل خدمات کو مرحلہ وار بحال کیا گیا اور اب وادی میں ریل سروس مکمل طور پر بحال ہوچکی ہے۔مرکزی حکومت کے پانچ اگست کے فیصلے کے خلاف اگرچہ وادی میں ابتدائی دور میں بازاروں میں ہو کا عالم چھایا رہا اور ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل مکمل طور پر معطل رہی تاہم ڈیڑھ ماہ کے بعد شہر سری نگر کے تمام علاقوں میں علی الصبح بازار کھلنے لگے اور دس بجنے سے قبل بند ہوگئی تاہم آج کل سری نگر میں بازار نصف دن تک کھلے ہی رہتے ہیں۔وادی کے دیگر ضلع صدر مقامات و قصبہ جات میں کہیں بازار نصف دن تک تو کہیں نصف دن کے بعد کھلے رہتے ہیں۔ اسی طرح وادی میں پہلے نجی گاڑیاں سڑکوں پر نمودار ہوئیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کا رش اس قدر بڑھ گیا کہ سڑکوں پر گنجلگ ٹریفک جام ایک معمول بن گیا تاہم بعد ازاں پبلک ٹرانسپورٹ بھی رفتہ رفتہ بحال ہونے لگا اور کئی روز سے کئی روٹس پر پرائیویٹ اسکول گاڑیاں بھی نمودار ہونے لگی ہیں۔وادی میں چار ماہ کے غیر یقینی صورتحال کے دوران جہاں ایک طرف پراسرار ہلاکتیں بھی ہوئیں، کئی دکانات پراسرار طور خاکستر بھی ہوئیں وہیں کئی مقامات پر سکیورٹی فورسز کے بڑے بڑے بنکر اور سڑکوں پر کئی اہم مقامات پر سیکورٹی فورسز نے مورچہ بندی بھی کی جس سے لوگوں میں طرح طرح کے خدشات پیدا ہوئے۔چار ماہ کے دوران قریب ایک درجن گرنیڈ دھماکے بھی ہوئے جن میں دو افراد جن میں ایک غیر ریاستی کھلونے بیچنے والا بھی تھا، ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوئے۔جنوبی کشمیر میں میوہ بیوپاریوں اور ٹرک ڈرائیوروں کی نامعلوم بندوق برداروں کے ہاتھوں ہلاکت سے میوہ صنعت جو یہاں معیشت کی ریڈ کی ہڈی قرار دی جاتی ہے، کو بے تحاشا نقصان اٹھانا پڑا۔ اور بعد میں اس صنعت کا اگر کچھ بچا تھا تو حالیہ بھاری برف باری نے وہ کسر نکالی۔محکمہ باغبانی کے ناظم اعجاز احمد کا کہنا ہے کہ ماہ نومبر کے آغاز میں ہی ہوئی بھاری برف باری سے میوہ صنعت کوتخمیناً 22 سو 50 کروڑ روپے کا نقصان پہنچا ہے۔وادی میں اگرچہ سرکاری دفاتر اور بنکوں میں معمول کا کام کاج بحال ہوا ہے لیکن تعلیمی اداروں میں تدریسی سرگرمیاں بحال نہ ہوسکیں تاہم امتحانات شروع ہونے سے تعلیمی اداروں میں طلبا کی چہل پہل بڑھ گئی۔ سٹیٹ بورڑ آف اسکول ایجوکیشن نے دسویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات 29 اور 30 اکتوبر سے بالترتیب شروع کئے ہیں اور دورسری جماعتوں کے بھی امتحانات منعقد ہوئے ہیں۔ادھر والدین کا کہنا ہے کہ طلبا نے نصب نصاب بھی مکمل نہیں کیا ہے اور انتظامیہ کی طرف امتحانات کے انعقاد کو یہاں حالات کو نارمل پیش کرنے کے لئے ایک قدم قرار دیا ہے۔غیر یقینی صورتحال کے دوران یہاں بلاک ترقیاتی کونسل انتخابات منعقد کئے گئے جن میں زیادہ تر آزاد امیدواروں نے حصہ لیا۔ وادی کی سیاسی جماعتوں بشمول نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور قومی جماعت کانگریس نے ان انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ بتادیں کہ بلاک ترقیاتی کونسل انتخابات جموں کشمیر کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار منعقد ہوئے۔اگرچہ یہاں یہ قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ بلاک ترقیاتی کونسل انتخابات میں بی جے پی کا ہی پلا بھاری رہے گا تاہم قیاس آرائیوں کے عین کے برعکس ان انتخابات میں آزاد امیدواروں نے ہی میدان مار لیا۔دریں اثنا وادی میں جاری غیر یقینی صورتحال کے بیچ یورپی یونین کی ایک وفد حالات کا جائزہ لینے کے لئے وارد وادی ہوا تاہم متذکرہ وفد کی سرگرمیاں محدود ہی رہیں اور چند منتخب عوامی وفود ہی ان کے ساتھ ملاقی ہوئے۔ یورپی یونین کے وفد نے دورے کے آخر پر ایک پریس کانفرنس، جس میں غیر مقامی صحافیوں کو ہی مدعو کیا گیا تھا، میں وادی کے حالات کو بہتر قرار دیا۔دریں اثنا حالیہ دنوں سابق مرکزی وزیر یشونت سنہا کی سربراہی میں ‘متفکر شہریوں کے گروپ’ نامی تنظیم کا ایک وفد بھی وادی میں حالات کا جائزہ لینے کے لئے وارد وادی ہوا۔ تاہم یشونت سنہا نے وادی کے حالات کو معمول کے برعکس قرار دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ میں جو تصویر وادی کے حالات کی پیش کی جاتی ہے وہ زمینی صورتحال کے برعکس ہے۔وادی میں نامساعد حالات کے بیچ ہی انتظامیہ نے گزشتہ ماہ کے آخری ہفتے میں ‘گاؤں کی اور’ مرحلہ دوم پرگرام بھی منعقد کیا جس دوارن جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے ہاکورہ بدسو گام میں نامعلوم بندوق برداروں کے ہاتھوں حملے میں پروگرام ہی کے دوران ایک سرپنچ اور محکمہ زراعت کا ایک افسر ہلاک جبکہ دو دیگر افراد زخمی ہوئے۔’گاؤں کی اور’ مرحلہ دوم پروگرام کے متعلق لوگوں نے ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا بعض لوگوں نے پروگرام کا خیر مقدم کیا تو بعض نے اس کو سعی لاحاصل ہی قرار دیا۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا