عدالتِ عظمیٰ میں کشمیر کی صورتحال کو لے کر مرکزی اور ریاستی انتظامیہ نے مفصل رپورٹ پیش کی

0
0

جس طرح سے سیکورٹی ایجنسیوں نے حالات کو معمول پر لایا اُس پر سوالات اُٹھانے کے بجائے سراہنا کی جانی چاہئے /اٹارنی جنرل کا عدالت میں بیان

سرینگر//یو پی آئی // مسلسل تیسرے روز بھی عدالتِ عظمیٰ میں کشمیر کی صورتحال کو لے کر بحث ہوئی جس دوران اٹارنی جنرل نے تین رکنی بینچ کو بتایا کہ مرکزی حکومت کی جانب سے تاریخی فیصلہ لینے کے بعد سیکورٹی فورسز نے جس طرح سے صورتحال کو ہینڈل کیا اُس کی تعریف کی جانی چاہئے۔ انہوںنے کہاکہ پچھلے تین ماہ کے دوران سیکورٹی فورسز فائرنگ میں ایک بھی عام شہری کی جان ضائع نہیں ہوئی ۔ انہوںنے کہاکہ احتیاطی طور پر حکومت نے بندشیں عائد کی جنہیں آہستہ آہستہ ہٹایا گیا۔ خبر رساں ایجنسی یو پی آئی کے مطابق عدالتِ عظمیٰ میں اٹارنی جنرل ’’کے کے ونگوپال ‘‘نے کشمیرکی موجودہ صورتحال کو لے کر ایک مفصل رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ وادی کشمیر کے حالات ہر روز ہی تبدیل ہوتے رہتے ہیں لہذا رپورٹ پیش کرنے میں کچھ وقت لگا۔ اٹارنی جنرل نے تین رکنی بنچ کو بتایا کہ مرکزی حکومت نے تاریخی فیصلہ لیتے ہوئے جموںوکشمیر کے متعلق کئی اہم فیصلہ لئے جس کے بعد احتیاطی طورپر بندشیں عائد کرنا ناگزیر بن گیا تھا۔ انہوںنے کہاکہ تین ماہ کے دوران کسی بھی عام شہری کی جان ضائع نہیں ہوئی ۔ انہوںنے کہاکہ سیکورٹی ایجنسیوں نے جس طریقے سے صورتحال کو ہینڈل کیا وہ قابلِ تعریف اور وہ اس کیلئے مبارکباد کے مستحق ہے۔ انہوںنے کہاکہ فورسز نے ان تین ماہ کے دوران ایک بھی گولی نہیں چلائی ۔ انہوںنے کہاکہ انتظامیہ نے پانچ اگست کے بعد انٹرنیٹ خدما ت کو بند کیا اگر ایسا نہیں کیا گیا ہوتا تو حریت لیڈران حالات کا غلط فائدہ اُٹھا کر لوگوں کو سوشل میڈیا پر اکساتے جس کے نتیجے میں انسانی جانیں ضائع ہونے کا احتمال تھا۔ انہوںنے کہاکہ سال 2016کے دوران جس طرح سے حالات نے کروٹ بدلی اس کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت نے پہلے ہی اقدامات کئے جس کے نتیجے میں کسی بھی عام شہری کی جان ضائع نہیں ہوئی ۔ راجیہ سبھا میں حزب اختلاف کے لیڈر غلام نبی آزاد کی جانب سے دائر کی گئی پٹیشن کے جواب میں اٹارنی جنرل نے کہاکہ حکومت نے ستر سال کے بعد جموںوکشمیر کو حاصل خصوصی اختیارات کو منسوخ کیا جس کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی امتناعی احکامات نافذ کئے گئے۔ انہوںنے کہا جسٹس سبھاش ریڈ ی اور بی آر گاوے کو بتایا کہ سوالات کے بجائے حکومت کی اس بات پر سراہنا کی جانی چاہئے کہ انہوںنے وادی کشمیر میں حالات کو معمول پر رکھا ۔ کشمیر میں ملی ٹینسی کے بارے میں اٹارنی جنرل نے کہاکہ پچھلے کئی برسوں پاکستان ملی ٹینٹوں کو بھارتی حدود میں داخل کرارہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ مقامی جنگجوئوں اور علیحدگی پسند تنظیموں نے لوگوں کو یرغمال بنا کے رکھا ہوا تھا ۔انہوںنے کہا کہ احتیاطی طورپر حکومت نے فیصلہ لیا تاہم آہستہ آہستہ بندشوں کو ہٹایا گیا اور لوگوں کو بھی چلنے پھرنے کی اجازت دی گئی۔ انہوںنے کہاکہ 370کی بدولت ہی وادی کشمیر میں عسکریت اور علیحدگی پسندی کا رجحان پروان چڑھا ۔ انہوںنے کہاکہ مرکزی حکومت کی جانب سے لئے گئے فیصلے کے بعد وادی کشمیر میں حالات پوری طرح سے معمول پر آئے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ مرکزی حکومت کے فیصلے کے بعد جموںوکشمیر میں نئے دور شروع ہونے جا رہا ہے۔ اس موقع پر سولسٹر جنرل تشہار مہتا جموںوکشمیر انتظامیہ کی جانب سے عدالت میں حاضر ہوئے اور کہاکہ حالات رفتہ رفتہ بہتر ہوتی جارہی ہے ۔ انہوںنے کہاکہ وادی کشمیر میں سبھی اسکول اور کالج کھلیں ہیں ، لوگ روز مرہ کا کاج کاج کر رہے ہیں اور سبھی سرکاری ادارے بھی کھلے پڑے ہیں لہذا یہ کہنا کہ کشمیر میں حالات خراب ہے صحیح نہیں۔ انہوںنے کہاکہ کشمیر کے لوگ مرکزی حکومت کے فیصلے سے خوش نظر آگئے ہیں اگر ایسا نہیں ہوتا تو وادی کشمیر میں حالات معمول پر نہیں آتے۔ انہوںنے کہاکہ مرکزی حکومت کے فیصلے کے بعد ریاسات میں سبھی مرکزی قوانین نافذ العمل ہیں اور سبھی کو اب اب انصاف ملے گا۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا