فرمان رسول ﷺکی روشنی میں قیامت کی نشانیاں اورایمان کے دشمن 

0
0

ابونصر فاروق/رابطہ:8298104514
قیامت کی ۱۳ نشانیاں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب میری امت میں یہ۱۳ خصلتیں پیدا ہوں تو اُن پر مصیبتیں نازل ہونا شروع ہو جائیں گی۔ دریافت کیا گیا وہ کیا ہیں: حضور ﷺنے فرمایا:(۱)جب سرکاری مال ذاتی ملکیت بنا لیا جائے۔(۲)امانت کو مال غنیمت سمجھا جائے۔(۳)زکوٰۃ جرمانہ محسوس کی جائے۔(۴)شوہر بیوی کا اطاعت گزاراور ماں کا نافرمان بن جائے۔(۵)آدمی دوستوں سے بھلائی کرے اور باپ پر ظلم کرے۔(۶)مساجد میں شور مچایا جائے۔(۷)قوم کا ذلیل ترین آدمی اُس کا لیڈر بن جائے۔(۸)آدمی کی عزت اُس کی بڑائی کے ڈر سے ہو۔(۹)نشہ آور چیزیں کھلم کھلا استعمال ہوں۔(۱۰) مرد ریشم پہننے لگیں۔(۱۱)آلات موسیقی کو اختیار کیا جائے۔(۱۲)گانے والی لڑکیاں فراہم کی جائیں۔(۱۳)گزرے ہوئے لوگوں پر لعن طعن ہو۔تو عذاب الٰہی کا منتظر رہنا چاہئے خواہ وہ سرخ آندھی کی شکل میں آئے یا زلزلہ کی شکل میں یا صورتیں مسخ کرنے کی شکل میں۔(ترمذی) (۱)جب سرکاری مال ذاتی ملکیت بنا لیا جائے۔(۲)امانت کو مال غنیمت سمجھا جائے۔ چونکہ مسلمانوں کی سرکار نہیں ہے اس لئے سرکاری مال کو ذاتی ملکیت بنانے کا موقع نہیں ہے،لیکن مختلف مذہبی جماعتیں ، مدرسے اور ادارے مسلمانوں سے زکوٰۃ، صدقہ اور اعانتیں لیتے ہیں تو کیا وہ اُس کو امانت سمجھ کر اُسی کام میں خرچ کرتے ہیں جن کے لئے وہ رقم ملی ہے، یا اُس کو اپنی جاگیر سمجھ کر اپنے من مانے ڈھنگ سے خرچ کرتے ہیں  ؟  زکوٰۃ و صدقات اللہ کا حق ہے جو اُس کے نادار بندوں کو دی جاتی ہے۔اس طرح یہ سرکاری مال بھی ہوا اور اس میں بے ایمانی کرنا امانت میں خیانت بھی ہوئی۔ مسلمانوں کے امیر، شیخ، پیر ،سجادہ نشیں اور رہنما اس سلسلے میں جو بے ایمانیاں کر رہے ہیں، اُس  بے ایمانی کا انجام مسلمانوں پر مختلف عذاب کی شکل میں نازل ہو رہا ہے، لیکن دین سے غافل بدعقل اور دنیادار مسلمان اس حقیقت کو سمجھنے اور اس سے توبہ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔اس کا بھی احساس نہیں کہ قیامت قریب ہوتی جارہی ہے۔(۳) زکوٰۃ جرمانہ محسوس کی جائے۔ قرآن میں تقریباً ستر مقامات پر نماز کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم آیا ہے، مسلمانوں کی اکثریت نماز تو مارے باندھے پڑھ لیتی ہے، لیکن زکوٰۃ ادا نہیں کرتی ہے۔اور زکوٰۃ نکالتی بھی ہے تو جن حقداروں کو زکوٰۃ دینے کا حکم قرآن میں ہے اُن کو نہیں دے کر مذہبی اداروں کو دے دیتی ہے، جہاں سے وہ حقداروں تک نہی پہنچائی جاتی ہے۔دیدہ دلیری کے ساتھ اس برائی کو کرنے والے چاہتے ہیں کہ اللہ اُن کی حفاظت کے لئے ابابیل کا لشکر بھیج دے  ؟(۴) شوہر بیوی کا اطاعت گزاراور ماں کا نافرمان بن جائے۔ ایک دورمیں لڑکیوں کو تاکید کی جاتی تھی کہ شوہر کی فرماں برداری ، خدمت اور اُس کی خوشنودی تمہیں جنت میں لے جائے گی۔اور ہر لڑکی کو دینی تعلیم کی جگہ عصری تعلیم دی جارہی ہے اور کہاجارہا ہے کہ شوہر کے ماتحت نہیں رہنا بلکہ شوہر کو اپنے ماتحت رکھنا ہے۔شوہر ماں کے گھر میں رہتے ہوئے بیوی کے دباؤ میں آ کرماں کا نافرمان بنا ہوا ہے۔کیا یہ قیامت کے قریب ہونے کی نشانی ہے۔اور آج کا مسلمان طرح طرح کے عذاب کو نہیں جھیل رہاہے  ؟(۵) آدمی دوستوں سے بھلائی کرے اور باپ پر ظلم کرے۔ آج ہر باپ کو اپنی اولاد سے شکایت ہے کہ وہ اپنے باپ کی باتیں ماننے کی جگہ اپنے دوستوں کی باتیں مانتی ہے اور اپنی زندگی اور مستقبل کو برباد کرنے پر تلی ہوئی ہے۔باپ نے اولاد کو اچھا ادب سکھایا ہی نہیں جس کایہ بھیانک انجام اُس پر عذاب کی شکل میں نازل ہورہا ہے۔لیکن کسی باپ کو اب بھی ہوش نہیں آ رہا ہے۔(۶) مساجد میں شور مچایا جائے۔ مسجدیں اللہ کا گھر ہیں۔ اُن کا ادب اور احترام یہ ہے کہ وہاں صرف اللہ کی عبادت کرنے کے لئے جایا جائے، لیکن اب مسجدیں اللہ کا گھر نہیں رہیں۔یہ مختلف مذہبی فرقوں کا اکھاڑا بن گئی ہیں۔ایک فرقے کی مسجد پر قبضہ کی تدبیریں دوسرے فرقے والے کرتے رہتے ہیں۔ اب مسجدوں میں صرف شور ہی نہیں ہوتا بلکہ لڑائی جھگڑا ، مار دھاڑ اور خون خرابہ بھی ہوتا ہے۔علما اور عوام نبیﷺ کی نافرمانی کا گناہ کر کے اللہ کے عذاب سے محفوظ رہناچاہتے ہیں ۔ ایسانہیں ہو گا۔(۷) قوم کا ذلیل ترین آدمی اس کا لیڈر بن جائے۔ آج میدان سیاست کا ہو یا مذہب کا ہر جگہ ایسے لوگ حاکم، رہبر اور پیشوا بنے ہوئے ہیں جن کی بد اعمالیوں کی لمبی فہرست ہے۔ہر مذہبی رہنما کا اپنا حلقہ ہے جہاں اُس کی جے جے کار ہو رہی ہے لیکن دوسرے حلقے والے اُس سے سخت نفرت کرتے ہیں اور اُسے حقیر سمجھتے ہیں۔کسی بھی عالم اور کسی بھی فرقے کے امیر کی عوام میں ا ب کوئی وقعت نہیں رہ گئی ہے۔ گناہ سے بچنے پرآمادہ نہیں ہیں شاید اس لئے کہ نبی ﷺ کی بات پر بھروسہ نہیں ہے۔(۸) آدمی کی عزت اس کی بڑائی کے ڈر سے ہو۔ آج بڑا آدمی وہ ہے جس نے ناجائز طریقے سے دولت کما کر دبنگ بنا ہوا ہے۔پوری ملت ایسے ہی آدمی کہ ؒخوشامد میں لگی ہوئی ہے۔ایسے بڑے لوگوں کا ڈر پیدا ہوجانے کی وجہ سے نبیﷺ کی پیشین گوئی کے مطابق مسلمانوں پر عذاب نازل ہو رہا ہے۔او ر یہ قیامت کے قریب ہونے کی نشانی ہے۔(۹) نشہ آور چیزیں کھلم کھلا استعمال ہوں۔ اس دور میں نشہ آور چیزیں کھلم کھلا استعمال ہورہی ہیں۔کہنے کو شراب پر پا بندی ہے،لیکن شراب پینے والے ٹھاٹ سے شراب پی ر ہے ہیں۔سرور پیدا کرنے والے پاؤچ کی بکری شباب پر ہے۔یہ دونوں خرابیاں مسلمانوں میں بھی بڑھتی جارہی ہیں۔کیا نبیﷺ کی نافرمانی کرنے والوں پر عذاب نہیں آ ئے گا،جبکہ یہ قیامت کے قریب ہونے کی نشانی ہے۔(۱۰) مرد ریشم پہننے لگیں۔ ریشم کا کپڑا ک مطلب ہے،عورتوں جیسی نزاکت کا پیدا ہونا۔ عورتوں کی طرح بننے ،سنورنے اور میک اپ کرنے کا فیشن نوجوانوں میں بڑھتا جا رہا ہے۔نوجوانوں کا لباس اور ان کے بالوں کا ڈیزائن بتا رہا ہے کہ اس نوجوان کو مسلم نوجوان بننے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔یہ نوجوان ایک طرف نمازی بھی ہے اور دوسری طرف سکھ جیسی داڑھی بھی رکھتا ہے ۔ ویسے تو بات بات پر جھگڑا کرنے کو تیار ہے، لیکن نہ بدن میں طاقت ہے نہ دل میں حوصلہ۔عورتوں کی طرح اول درجے کا ڈرپوک ہے۔یہ سب بھی نبیﷺ کی پیشین گوئی کے مطابق ہو رہا ہے۔او ر یہ قیامت کے قریب ہونے کی نشانی ہے۔(۱۱) آلات موسیقی کو اختیار کیا جائے۔ ہر ہاتھ میںقیمتی موبائل دکھائی دیتا ہے۔موبائل کا استعمال وقت کی ضرورت بن گیا ہے۔لیکن مسلم نوجوان لڑکے عام طور پر اس پر صرف گانے سنتے رہتے ہیں۔اورمسلم لڑکیاں دیر دیر تک اپنی سہیلیوں سے بیکار کی باتیں کرتی اور فلمیں دیکھتی رہتی ہیں جن میں گانے اور موسیقی بھی ہوتی ہے۔ ہر گھر میں ٹیلی ویژن پر گانا سنا جارہا ہے۔اس کے بعد مسلمانوں پر عذاب آرہا ہے تو ہنگامہ کس لئے؟ یہ سب تو نبیﷺ کی پیشین گوئی کے مطابق ہو رہا ہے۔یہ تو قیامت کے قریب ہونے کی نشانی ہے۔(۱۲) گانے والی لڑکیاں فراہم کی جائیں۔ ہر شادی میں، محرم اور مزار کی چادر کے اکھاڑے میں باجے بجتے ہیں۔مرد کی آواز کے ساتھ عورتوں کی آواز میں بھی گانے گائے جاتے ہیں۔ وہ وقت بھی آئے گا جب مرد کی جگہ عورتیں ہی اکھاڑوں میں گانا گائیں گی۔جب مسلمانوں کو اپنے نبیﷺ کی پیشین گوئی کاخیا ل نہیں ہے توعذاب کا خوف کیوں۔ یہ تو قیامت کے قریب ہونے کی نشانی ہے۔(۱۳) گزرے ہوئے لوگوں پر لعن طعن ہو۔ مذہبی جنون کا یہ عالم ہے کہ دین کے نام پر عجیب عجیب حرکتیں ہو رہی ہیں۔اور یہ حرکتیں کرنے والے نہیں سمجھتے کہ اُن کا طریقہ خود اُن کے اپنے بزرگوں کے خلاف ہے۔جس طرح یہ اپنے طریقے کے خلاف کرنے والے کو مسلمان نہیں سمجھتے ہیں اُسی طرح یہ اپنے بزرگوں کو بھی مسلمان کے زمرے سے باہر سمجھتے ہیں۔ اور یہ گویا گزرے ہوئے لوگوں پر لعن طعن کرنا ہے۔جب مسلمانوں کو اپنے نبیﷺ کی پیشین گوئی کاخیا ل نہیں ہے توعذاب کا خوف کیوں۔ یہ تو قیامت کے قریب ہونے کی نشانی ہے۔ایمان کے ۵ دشمن: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (۱) جو آدمی کسی ظالم کو ظالم جانتے ہوئے اُسے تعاون دے کر طاقت پہنچائے وہ اسلام سے خارج ہے۔ (مشکوٰۃ) ظلم کا مطلب ہے کسی کو اُس کے حق سے محروم کر دینا۔کسی کا حق چھین لینا۔اپنے حق سے زیادہ لینا۔ظلم کی اس تشریح کی روشنی میںکون ہے جو ظالم نہیں ہے، اور ظالم کا ساتھ نہیں دے رہا ہے۔تو پھر وہ مسلم اور مومن کہاں رہا  ؟(۲) وہ ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی دعوت دے، عصبیت کے جذبے سے لڑے اور عصبیت پر جان دے۔(ابو داؤد)ابوفسیلتہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ  ﷺ سے پوچھا کہ اپنے لوگوں سے محبت کرنا کیا عصبیت ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں، بلکہ عصبیت یہ ہے کہ آدمی ظلم کے معاملہ میں اپنی قوم کا ساتھ دے۔(مشکوٰۃ)کیا اس وقت کے مسلمان اپنے خاندان،مذہبی گروہ بندی، برادری، علاقائیت اور دنیا پرستی کے طرفدارنہیں ہیں۔تو پھر وہ رسول اللہﷺ کے امتی اور اہل ایمان کہاں رہے ؟(۳) جب کسی فاسق کی تعریف کی جاتی ہے تو اللہ کو غصہ آتا ہے اوراس کی وجہ سے اُس کا عرش ہلنے لگتا ہے۔ (مشکوٰۃ)فاسق اُس کو کہتے ہیں جو شریعت کے احکام کا پابند نہیں ہو۔اس وقت تقریباًہر مسلمان فاسق ہے کیونکہ وہ شریعت کے احکام نہ جانتا ہے اورنہ اس پر عمل کرتا ہے۔مسلمان خود بھی فاسق ہے اور جو بڑا فاسق ہے اُس کی تعریف بھی کر رہاہے اور اللہ کو غصہ دلارہا ہے ۔سوچئے  ایمان سے محروم یہ نالائق مسلمان اللہ کی دنیا میں چین سے کیسے رہ سکتا ہے ؟(۴) جس میں امانت داری نہیں اُس میں ایمان نہیں اور جسے عہد کا پاس نہیں اُس میں دین داری نہیں۔(مشکوٰۃ) مال، سامان اور راز کی حفاظت کرنا امانت داری کہلاتا ہے۔زندگی میں کسی بھی موقع پر جو عہد کیاجاتا ہے اُس کا مان رکھنا بھی مسلم کا فرض ہے۔آج کے مسلمانوں میں یہ دونوں چیزیں نہیں دکھائی دیتی ہیں۔ چاہے وہ دنیا دار مسلمان ہوں یا نماز روزے کے پابند اور حاجی صاحب ہوں۔کیا فرمان رسولﷺ کی روشنی میں وہ ایمان اور دین والے ہیں  ؟(۵) مال کا لالچ اور ایمان دونوں کسی بندے کے دل میں جمع نہیں ہو سکتے ہیں۔(نسائی)آج کا ہر مسلمان مال کمانے اور مال جمع کرنے کی دوڑ میں سرپٹ بھاگا جا رہا ہے۔مدہوشی کا یہ عالم ہے کہ اُس کو حلال اور حرام کی بھی پروا نہیں ہے۔کہا جارہا ہے کہ مال کے لالچی کا دل ایمان سے خالی ہے۔ہر وہ مسلمان جو مال کا لالچی بنا ہوا ہے کیا اُس کے پاس ایمان کی دولت ہے  ؟  تو پھر اُس کی نماز، روزہ،حج اور دوسری عبادت کیسے قبول ہوگی  ؟(یو این این) ٭٭٭٭٭

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا