قلمی ڈکیتی؛ اس طرح کی خبیث حرکت انجام دینے والوں پر سخت کارروائی ہونی چاہیے

0
0
⁦✍️⁩ وزیر احمد مصباحی (بانکا)
شعبہ تحقیق: جامعہ اشرفیہ مبارک پور
رابطہ نمبر: 6394421415
      تحریر و قلم کی دنیا میں مہارت حاصل کرنا ایک اچھی بات ہے۔انسان جب جہد مسلسل تئیں تھوڑا بہت قلم پکڑنے کا شعور حاصل کر لیتا ہے تو پھر اسے بڑی مسرت اور خوشی ہوتی ہے۔ہاں اس سے بڑھ کر تو فرحت کا خوبصورت گلدستہ اس وقت ہاتھ لگتا ہے جب وہ نشرواشاعت کے ذریعے اپنے خیالات و افکار کو عوام الناس تک پہنچانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔اگر آپ اپنی ذاتی فکرونظر سے دوسروں کو بھی آشنا کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں تو پھر اس معاملے میں وہ طریقہ کار جو آپ کے دور میں رائج ہوں، اس سے لو لگانا ہی پڑے گا۔سوشل میڈیا ، پرنٹ میڈیا یا پھر اس کے علاوہ چاہے کوئی اور بھی راستے ہوں یہ سب تو آج کی پیداوار ہیں۔آج جس طرح ایک عام سے عام انسان بھی اپنی بات سوشل میڈیا کے سہارے دنیا کے کونے کونے تک پھیلا سکتا ہے، یہ سہولت دور قدیم میں نہیں تھی۔اللہ کریم کا یہ فضل و کرم ہے کہ اس معاملے میں آج حالات اکثر تبدیل ہوچکے ہیں۔ہم چاہیں تو جدید ایجادات کی بدولت خطۂ عالم میں نام کما سکتے ہیں۔ جی! جھٹ سے Keyboard کا ساتھ پکڑیں اور اپنے سنہرے افکارونظریات کو ٹائپنگ کے ذریعے سوشل میڈیا کی وسیع و عریض دنیا میں چھوڑ دیں۔ واٹشپ، بلاگر، ویب سائٹ، نیوز چینلز، انسٹاگرام اور ٹوئٹر وغیرہ اس معاملے میں ہمارے لئے کارآمد ہتھیار کی مانند کام کرتے ہیں۔ ہاں! اگر آپ سنجیدہ مزاج طبیعت اور مثبت فکر کے متحمل ہیں تو پھر قارئین کے عقل ودماغ پر باآسانی قبضہ جما سکتے ہیں۔مگر اس کے بالمقابل آپ کا کوئی ایسا پیغام جو منفی اثرات اور فتنہ و فساد کا سبب بن جائے تو یہی سنجیدہ طبیعتیں پلکوں پر بیٹھانے کے بجائے مہذب الفاظ کے سانچے میں آپ کا اچھا خاصا پوسٹ مارٹم بھی کردیں گی۔
      جدید ٹیکنالوجی نے جہاں ہمیں آج ڈھیروں سہولتیں فراہم کی ہیں وہیں لوگوں نے اس سے غلط داد وصولی کا سنہرا طریقہ بھی ڈھونڈ نکالا ہے۔اس وقت سوشل میڈیا پر اچھے پیغامات ارسال کرنے والوں کے بالمقابل اس کی وسیع و عریض دنیا میں وہی افراد زیادہ نظر آتے ہیں جو اپنے منفی افکار و خیالات سے فتنہ و فساد پھیلا کر دوسروں کی ٹانگ کھینچنے کا کام کرتے ہیں۔(یقینا اگر اس طرح کے لوگوں سے بچنے کی کوشش کی جائے تو یہ زیادہ بہتر عمل ہوگا) آپ کو شاید میری ان کہی ہوئی باتوں پر یقین نہ آئے، لیکن یہی مبنی بر حقیقت بھی ہے۔
      جی! یہ زبردست طریقہ ہے سرقہ بازی اور چوری کا۔دور حاضر میں اس طرح کے خبیث کام ڈھیٹ قسم کے آدمیوں کے لیے بالکل ہی آسان اور سہل ہے۔یہ ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جنھیں شرم وحیا کی ذرہ برابر بھی فکر نہیں ہوتی کہ لوگ ہمیں کیا کہیں گے؟کہیں کسی ویب سائٹ یا فیس بک آئی ڈی سے کسی کے اثرانگیز مضمون پر ڈاکہ ڈال دیا اور پھر چند منٹ میں ہی اپنے لمبے چوڑے نام کے ساتھ ایک معصوم سی تصویر لگا کر اخبارات  و ویب سائٹ پر شائع کروا کے "ماشااللہ، سبحان اللہ اور اللہ کرے زور قلم اور ہو زیادہ” جیسے سنہرے الفاظ کے سانچے میں چہک چہک کر خوب قیمتی داد و تحسین وصول کر لی۔اب کیا؟ اب تک تو ایسے لوگ اپنے چاہنے والوں کی نظر میں "رئیس القلم” اور "فخر صحافت” بھی بن گئے ہوئے ہوتے ہیں۔مجال ہے کہ کوئی اسے نیچا دکھانے کی کوشش بھی کر پائے! یہ فعلِ بد اس صورت میں اور بھی کہیں زیادہ سچائی سے زیادہ قریب تر دیکھنے لگ جاتا ہے جب کوئی شخص چہرے پر داڑھی اور سر پہ ٹوپی سجائے انجام دیتا ہے۔کیونکہ یہاں تو اس کے نام میں "مولانا” اور "مفتی” وغیرہ کا اتصال بھی ہوتا ہے۔ہاں!یہ وہ القاب ہیں جنھیں سن کر اس طرف ہی ذہن متبادر ہوتا ہے کہ نہیں___ یہ شخص تو حق و صداقت کا سبق زمانے کو سناتا ہے یہ کیوں کر سرقہ بازی جیسا خبیث فعل انجام دے گا؟یہ تو قرآن و حدیث کا قاری اور اس پر عمل کرنے والا بھی ہے۔مگر جب جب بیج چوراہے پرحقیقت کا بھانڈا پھوٹتا ہے تو پھر اس طرح کے صاحبانِ جبہ و دستار کہیں منہ دکھانے لائق نہیں ہوتے ہیں۔۔۔کیونکہ اب تک وہ جتنی بھی تحریروں کے پس پردہ اخبارات و سوشل میڈیائی پلیٹ فارم سے عوام الناس کی نظر میں روشن خیال بننے کی کوشش کرچکے ہوتے ہیں،یہ سب اس کی ذہنی و عقلی ژولیدگی کو پھٹکار لگاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔۔۔اس طرح ہی کے ایک خبیث اور گھٹیا قسم کے آدمی سے کل میرا بھی سامنا ہوا ہے ۔آئیے! جانتے ہیں۔۔۔۔ کچھ اس کے بارے میں:
       نیچے کی اس تصویر کو غور سے دیکھیے! جناب والا،کس طرح چہرے پر داڑھی اور سر پہ ٹوپی سجائے ہوا ہے۔کہیں سے نہیں لگتا ہے کہ یہ اس طرح کا غلط کام کرسکتا ہے۔ ہاں بھائی! نام کے ساتھ تو "مولانا ” کا لاحقہ بھی ہے۔مدرسہ”ھدایت الاسلام” میں لا الہ الا اللہ کی تعلیم بھی دیتا ہے۔چوں کہ مشہور ویب سائٹ "ہندوستان اردو ٹائمز” میں میری بھی تحریریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔اس لیے کئی ایک دفعہ مضمون پڑھنے کا بھی موقع ملا، اخبارات میں بھی مضمون کے ساتھ جناب کی حسین تصویرنظر سے گزری۔زبان کی سلاست دیکھ کر مضمون پسند آیا ۔مگر۔۔۔۔مگر آج کیا!!! جیسے ہی میں نے روزنامہ میرا وطن (دہلی) آن لائن پڑھنا شروع کیا تو پتا چلا کہ جناب نے اپنی جرات و ہمت کا زبردست مظاہرہ کرتے ہوئے میری حالیہ تحریر "دہلی جو؛ اب بے گناہوں کے خون سے ہے لہو لہو ” اپنے نام سے شائع کروایا ہے۔ مگر پھر جلد ہی یہ سوچ کر میں نے دم سادھ لیا کہ نہیں!یہاں یہ پہلو بھی ممکن ہے کہ مدیر صاحب نے "یو این این” سے میری یہ تحریر حاصل کیا ہو اور غلطی سے اس کا نام شائع ہوگیا ہو۔اس لیے اسے زیادہ لوگوں کے سامنے مشہور کرنے کے بجائے بس میں نے واٹشپ اسٹیٹس پر محفوظ کر لیا۔مگر شکریہ۔۔۔بہت شکریہ؛ طاہر عاصم اعظمی صاحب کا کہ انھوں نے مجھے اس خبیث انسان کی اس گھٹیا حرکت سے آگاہی دلانے کے ساتھ اس کی فیس بک آئی ڈی بھی عنایت فرمائی۔جب میں نے اس کی آئی ڈی چیک کی تو جناب مجھے بڑے ہی زود نویس نظر آئے کہ یہاں ہر روز اس نے دو دو تحریریں اپنے نام سے شائع کر کے داد وصولی کی ہے۔پر جب غور سے آئیڈی کھنگالنا شروع کیا تو پتا چلا کہ___نہیں،اس میں اکثر تحریریں دوسروں کی ہی ہیں۔وہی سرخی، وہی الفاظ اور وہی تعبیرات جو اس کے اصل محرر نے رقم کی تھی۔سب وہی ہیں۔بس اس جناب نے یہ جان توڑ محنت کی ہے کہ اصل مضمون نگار کا نام غائب کر کے اپنے نام سے شائع کر دیا ہے۔ یہاں میری اور بھی دو تحریر "(١) رفتار سے مایوس نہ ہوں،آہٹ سی آ رہی ہے کسی انقلاب کی ،اور (٢) ویلنٹائن ڈے،ہاں! مغرب کی طرف جاؤگے تو ڈوب جاؤگے”نظر آئی ۔۔۔{واہ! رے محنت و جاں فشانی کا جذبہ بیکراں۔ ایسی محنت پہ کون نہ مر جائے اے خدا!} ایسا نہیں ہے کہ اس بندہ خدا نے صرف میری ہی تحریر پر ڈاکہ زنی کی ہے۔۔۔بلکہ اس فہرست میں کی ایک معروف صحافی جن کی تحریریں ملک بھر میں بڑے ہی شوق سے پڑھی جاتی ہیں مثلا: غلام غوث سیوانی صاحب، (نئی دہلی) جاوید اختر بھارتی صاحب ،صدر بن کر یونین (محمد آباد یوپی) مولانا غلام مصطفی نعیمی صاحب ،ایڈیٹر: ماہنامہ سواد اعظم (دہلی) عبدالعزیز صاحب (کولکاتا)وغیرہ شامل ہیں۔ان سب کی تحریریں جناب نے من و عن بڑے ہی چاؤ سے اپنے نام سے شائع کی ہے۔
       فیس بک آئی ڈی کی تلاشی کے دوران ہی ایک نمبر دستیاب ہونے پر جب میں نے کال کی تو "صدائے حق” ویب سائٹ کے بانی مولانا آفتاب اظہر صدیقی صاحب (کشن گنج) کو فون لگ گیا۔ دوران گفتگو انھوں نے بتایا کہ ایک دفعہ اور بھی اس کی طرف سے اس طرح کی گھٹیا حرکت کی شکایت ملی ہے۔ایسا کریں کہ آپ اس نمبر پر رابطہ کریں اور گفتگو کرنے کے بعد ریکارڈنگ مجھے عنایت فرمائیں۔میں دیکھتا ہوں۔۔۔۔
      رابطہ کے دوران پتہ چلا کہ اس نمبر سے واٹشپ تو چلتا ہے پر Calling بند ہے۔ واٹشپ پر رابطہ کے دوران جناب نے میرے سوالوں کے جوابات دینے کے بجائے خود ہر دفعہ مجھے بلاک کردیا۔جس اخبار میں اس نے چوری کا مضمون شائع کروایا تھا میں نے ان لوگوں سے بھی رابطہ کیا ۔ ان مدیران اخبار نے بھی خود اس کی طرف سے تحریر بھیجے جانے کی بات کہی۔آج پھر مولانا غلام مصطفی نعیمی صاحب کے ذریعہ جناب کا ایک رابطہ نمبر ملا تو ایک دو دفعہ Hello Hello کرنے کے بعد ہی اس نے فون بند کر دیا۔ اور اب جس نمبر سے بھی میں کال کرتا ہوں تو کوئی جواب ملنے کے بجائے الٹے اس کی طرف سے فون بند کر دیا جاتا ہے،کبھی نمبر بلاک کر دیا جاتا ہے تو کبھی اور کوئی بہانے بنا کر بندہ جھٹ سے فون کٹ کر دیتا ہے۔
       بتائیں! یہ کتنی بڑی جرات کی بات ہے کہ بندہ اعتراف جرم کرنے کے بجائے فون بند کرکے راہ فرار اختیار کرنے کی برابر کوشش کر رہا ہے۔کیا اس سے نہیں لگتا ہے کہ اس نے اپنی اس غلط روش سے باز نہ آنے کی بالکل قسم کھا لی ہے؟مکمل تحریر اپنے نام سے اخبار میں بغیر اجازت کے شائع کروا لینا کس قدر گھٹیا کام ہے۔کیا اس پر کاروائی نہیں ہونی چاہیے کہ یہ پھر اپنی اس طرح کی غلط اور قبیح حرکت سے باز آجائے؟یقینا آج ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے ۔مگر، یہ نظر میں اس لیے نہیں آتے ہیں کہ ایسے لوگوں کی نہ تو تلاشی لی جاتی ہیں اور نہ ہی یہ کھل کر سامنے آتے ہیں۔ہاں! آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرح کے افراد کی ساری حقیقتیں معاشرے کے سامنے اجاگر کر دی جائیں۔
       آج آپ اس ایک واقعہ کی روشنی میں اس بات کا فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ کس قدر اخلاقی زوال کا شکار ہو چکا ہے۔قوم کے بچوں کو سرقہ بازی سے گریز کرنے کا درس دینے والا بندہ خود اس طرح کی گھٹیا حرکت میں ملوث ہے۔آخر اس جبہ و دستار ہی کا تو کچھ لحاظ کر لیا جاتا۔اس موقع پر محترم پروفیسر کامران غنی صبا صاحب (پٹنہ) کا یہ اقتباس خوب یاد آرہا ہے جو انھوں اپنے ایک اسی طرح کی داستان میں رقم کی ہے۔آپ لکھتے ہیں :” داڑھی ٹوپی کو نشان زد کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مذہبی شناخت کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مقصد بس اتنا ہے کہ جو لوگ "ڈاڑھی، ٹوپی اور مذہب” کی آڑ میں غیر اخلاقی اور غیر شائستہ حرکت کا ارتکاب کرتے ہیں انھیں”ایکسپوز” کیا جائے تاکہ دوسروں کو اس طرح کی مذموم حرکت کرنے کی ہمت نہ ہو”۔
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا