زندگی جام تھی جہاں اب ٹریفک جام ہے وہاں!

0
118

کشمیر میں غیر اعلانیہ ہڑتال کے تین ماہ مکمل،معمولات زندگی بحال ہونے لگے
یواین آئی
سرینگر؍؍وادی کشمیر میں 5 اگست کو آئین ہند کی دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کی منسوخی اور ریاست کی دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کے خلاف شروع ہونے والی غیر اعلانیہ ہڑتال ہفتہ کے روز 90 ویں دن میں داخل ہوگئی۔ تاہم وادی بھر میں ہر گزرتے دن کے ساتھ معمولات زندگی بحال ہونے لگے ہیں، بیشتر سڑکوں پر چھوٹی مسافر گاڑیوں کی آمدورفت جزوی طور پر بحال ہوئی ہے جبکہ دکانیں و تجارتی مراکز اب چار سے چھ گھنٹوں تک کھلے رہتے ہیں۔ سرکاری دفاتر و بنکوں میں معمول کا کام کاج کئی ہفتے پہلے ہی بحال ہوچکا ہے۔ وادی بھر میں انٹرنیٹ خدمات 5 اگست سے لگاتار بند ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ تعلیمی اداروں میں درس وتدریس کا عمل ہنوز معطل ہے۔ پائین شہر کے مختلف علاقوں بشمول نوہٹہ، راجوری کدل اور نقشبند صاحب میں جو پابندیاں جمعہ کو عائد رہیں وہ ہٹائی جاچکی ہیں۔ پائین شہر میں جمعہ کو پابندیوں کی وجہ سے جہاں نوہٹہ میں واقع تاریخی جامع مسجد کے منبر ومحراب لگاتار 13 ویں ہفتے بھی خاموش رہے وہیں حضرت بہائو الدین نقشبند صاحب کے سالانہ عرس کے سلسلے میں خانقاہ نقشبندیہ نقشبند صاحب میں سالانہ و تاریخی ‘خوجہ دگر’ (نماز عصر کا اجتماع) منعقد نہیں ہوسکا۔موصولہ اطلاعات کے مطابق وادی کے جملہ ضلع صدر مقامات و قصبہ جات میں ہفتے کے روز بھی ہڑتال رہی جس کے نتیجے میں بازار دکان کے وقت بند رہے اور تجارتی سرگرمیاں معطل رہیں، پبلک ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل آٹے میں نمک کے برابر جاری رہی تاہم نجی ٹرانسپورٹ کی بھر پور نقل وحمل جاری رہی۔ادھر وادی میں ریل سروس پانچ اگست سے مسلسل معطل ہے جس کے باعث لوگوں کو گوناگوں مشکلات درپیش ہیں۔ ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ ریل سروس کو پولیس اور انتظامیہ کی طرف سے موصولہ ہدایات پر لوگوں، ریلوے عملے اور املاک کے تحفظ کے پیش نظر بنا بر احتیاط بند رکھا گیا ہے۔شہر سری نگر کے تمام علاقوں بشمول تجارتی مرکز لالچوک میں ہفتے کے روز بھی بازار دوپہر بعد بند رہے۔ اگرچہ سری نگر کی جملہ سڑکوں پر نجی گاڑیوں کی بھر پور نقل وحمل دیکھی گئی لیکن پبلک ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل آٹے میں نمک کے برابر ہی نظر آئی۔سری نگر کے تمام علاقہ جات میں صبح کے وقت بازار کھل گئے اور بعد ازاں بارہ بجے کے قبل بند ہوگئے جس دوران بازاروں میں اشیائے ضروریہ اور دیگر گھریلو ساز سامان کی خریداری کے لئے لوگوں کی کافی بھیڑ رہی۔عینی شاہدین کے مطابق سری نگر کی جملہ سڑکوں پر چھاپڑی فروشوں کی اچھی خاصی تعداد بھی ڈیرا زن تھی جو گرم ملبوسات سے لے کر اشیائے خوردنی تک بشمول سبزی وغیرہ فروخت کررہے تھے۔وادی کے دیگر جملہ چھوٹے بڑے ضلع صدر مقامات وقصبہ جات میں بھی ہفتے کے روز بھی ہڑتال رہی جس کے باعث معمولات زندگی متاثر رہے۔ تاہم بعض ضلع صدر مقامات و قصبہ جات میں دن کے دو بجے سے ہی بازار رفتہ رفتہ کھل گئے اور بعد ازاں شام دیر گئے بند ہوگئے۔ کئی ضلع صدر مقامات وقصبہ جات سے اکا دکا سومو گاڑیاں بھی چلنا شروع ہوگئی ہیں۔وادی کے سرکاری دفاتر و بنکوں میں معمول کا کام کاج تقریباً بحال ہوگیا ہے اور تعلیمی اداروں میں امتحانات شروع ہونے کی وجہ سے گہماگہمی بڑھ گئی ہے۔ وادی میں جموں کشمیر سٹیٹ بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کی طرف سے دسویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات شروع ہوچکے ہیں۔مواصلاتی ذرائع پر عائد پابندیوں کو اگر چہ بتدریج ہٹایا جارہا ہے لیکن انٹرنیٹ خدمات ہنوز معطل ہیں جو مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے لوگوں بالخصوص صحافیوں اور طلبا کے لئے سوہان روح بن گئی ہے۔ صحافیوں کا کہنا ہے انہیں اپنے دفتروں کے بجائے محکمہ اطلاعات وتعلقات عامہ کے ایک چھوٹے کمرے میں اپنا پیشہ ورانہ کام کاج انجام دینا پڑتا ہے۔ انہوں نے انتظامیہ سے کم سے کم براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروس کی بحالی کے مطالبے کو دوہرایا ہے۔قابل ذکر ہے کہ بیشتر مین اسٹریم سیاسی لیڈران پانچ اگست سے بدستور خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں۔ محبوس لیڈروں میں نیشنل کانفرنس کے صدر و سابق وزیر اعلیٰ و رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ پی ایس اے کے تحت اپنی رہائش گاہ پر بند ہیں جبکہ اْن کے فرزند اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ ہری نواس میں ایام اسیری کاٹ رہے ہیں اور پی ڈی پی کی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی بھی مسلسل نظر بند ہیں۔مزاحمتی لیڈران بشمول سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق بھی مسلسل اپنی رہائش گاہوں پر نظر بند ہیں۔ اس کے علاوہ سینکڑوں علاحدگی پسند کارکن اور پتھرائو میں ملوث نوجوان ریاست یا بیرون ریاست جیلوں میں بند ہیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا