دفعہ 370 ہندوستان کا اندرونی معاملہ،مداخلت نہیں کرسکتے:ا یورپی اراکین پارلیمان
یواین آئی
سرینگر ؍وادی کشمیر کے دو روزہ دورے پر آنے والے یورپی اراکین پارلیمان نے دفعہ 370 کی منسوخی کو ہندوستان کا اندرونی معاملے قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ یورپی یونین کو کوئی رپورٹ پیش نہیں کریں گے۔ یورپی وفد نے کہا کہ کشمیر میں ملی ٹینسی صرف ہندوستان کے لئے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لئے مسئلہ ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ کشمیر دوسرا افغانستان بنے۔انتہائی دائیں بازو کی سوچ کے حامل یورپی اراکین پارلیمان پر مشتمل اس وفد نے بدھ کی صبح یہاں چنندہ میڈیا اہلکاروں کے ساتھ بات چیت کی۔ تاہم قریب 99 فیصد کشمیری صحافیوں کو پریس بریفنگ میں مدعو نہیں کیا گیا۔ وفد نے ہندوستان کو ایک پرامن ملک قرار دیتے ہوئے کہا کہ زندگی گزارنے کے لئے امن ضروری ہے۔ یورپی وفد نے یورپی یونین کو کوئی رپورٹ پیش نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا: ‘چونکہ دفعہ 370 انڈیا کا اندرونی معاملہ ہے، اس لئے ہم یورپی یونین کو کوئی رپورٹ پیش نہیں کریں گے’۔ وفد کے ایک رکن نے کہا: ‘اگر ہم دفعہ 370 پر بات کریں گے تو وہ انڈیا کا اندرونی معاملہ ہے۔ ہمارا تشویش دہشت گردی ہے جو ایک عالمی لعنت ہے۔ ہمیں دہشت گردی کے ساتھ نمٹنے کے لئے بھارت کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ دہشت گردوں کے ہاتھوں پانچ معصوم مزدوروں کی ہلاکت ہوئی ہے، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں’۔ ایک اور رکن کا کہنا تھا: ‘کشمیر، یہاں پائی جانے والی صورتحال کی وجہ سے پسماندہ ہے۔ ہمیں یہاں معلوم ہوا کہ سٹیٹس میں تبدیلی کی وجہ سے صورتحال میں بدلائو آئے گا’۔ یورپی اراکین پارلیمان کے وفد نے اپنے دورے کے پہلے دن منگل کے روز فوج کے علاوہ قریب پندرہ وفود سے ملاقات کی تھی۔ یہ مرکزی حکومت کے پانچ اگست کے فیصلوں، جن کے تحت جموں وکشمیر کو آئین ہند کی دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات منسوخ کئے گئے اور اسے دو حصوں میں منقسم کرکے دو یونین ٹریٹریز میں تبدیل کیا گیا، کے بعد کسی بھی غیر سرکاری و غیر ملکی وفد کا پہلا دورہ کشمیر تھا۔وفد کے ایک رکن نے کشمیر میں ملی ٹینسی کو عالمی برادری کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا: ‘کشمیر میں دہشت گردی صرف انڈیا کے لئے مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ہمارے لئے بھی مسئلہ ہے۔ یہ انٹرنیشنل کیمونٹی کے لئے مسئلہ ہے۔ ہمیں اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے کے لئے انڈیا کی مدد کرنی چاہیے۔ انڈیا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ ہم مسائل کو سمجھنے کے لئے یہاں آئے تھے’۔وفد کے ایک رکن نے کہا کہ وہ نہیں چاہتے ہیں کہ کشمیر دوسرا افغانستان بنے۔ ان کا کہنا تھا: ‘میں سیاست سے وابستہ رہنے کی وجہ سے کشمیر کے بارے میں کئی چیزیں پڑھتا ہوں۔ یہاں کا دورہ کرکے مزید جانکاری حاصل ہوئی۔ میں جانتا ہوں کہ دہشت گردی آپ کے ملک کو ختم کرسکتا ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں افغانستان میں تھا۔ میں گزشتہ ماہ شام میں تھا۔ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے۔ یہ فرانس اور یورپ کے لئے بھی مسئلہ ہے۔ میں نہیں چاہتا کشمیر دوسرا افغانستان بنے’۔ یورپی وفد جس نے پیر کے روز قومی راجدھانی نئی دہلی میں وزیر اعظم نریندر مودی اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کی تھیں، میں شامل ایک رکن نے ہندوستان کو ایک پرامن ملک قرار دیتے ہوئے کہا: ‘یورپ ایک پرامن جگہ ہے۔ ہزاروں برسوں تک ایک دوسرے کے ساتھ جنگ کرنے کے بعد سن 1945 سے ہم امن کے ماحول میں مل جل کر رہ رہے ہیں۔ بہتر زندگی گزارنے کے لئے امن ضروری ہے۔ ہندوستان ایک پرامن ملک ہے۔ یورپ اور ہندوستان کے درمیان دوستانہ تعلقات ہیں۔ ہم یہاں حقیقت جاننے کے لئے آئے تھے۔ ہم آپ کے دوست ہیں۔ ہم جاننے کے لئے آئے تھے کہ ہم کیسے مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ ہم کیسے یہاں کی صورتحال میں بہتری لانے کے لئے کیا کرسکتے ہیں’۔وفد نے جنوبی کشمیر کے ضلع کولگام میں نامعلوم اسلحہ برداروں کے ہاتھوں پانچ غیر ریاستی مزدوروں کی ہلاکت کی مذمت کرتے ہوئے کہا: ‘ہمیں دہشت گردوں کے ہاتھوں پانچ شہریوں کی ہلاکت پر افسوس ہے۔ معصوم لوگوں کی زندگیاں ختم کی گئی ہیں۔ ہم سوگوار کنبے کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔ ایسی ہلاکتوں نہیں ہونی چاہیں’۔ وفد کے ایک رکن نے ممبر پارلیمنٹ حیدرآباد اسد الدین اویسی کی طرف سے نازی کہلائے جانے پر کہا: ‘ہم نازیوں کے حامی نہیں ہیں۔ اگر ہم ہوتے تو چنے نہیں جاتے۔ ہم نازی حامی کہلائے جانے پر مایوس ہیں۔ ہم یہاں سیاست میں مداخلت کے لئے نہیں آئے ہیں۔ ہم یہاں حقیقت جاننے کے لئے ہیں’۔ایک اور رکن نے کہا: ‘ہم یہاں کسی سیاسی جماعت کی دعوت پر نہیں ہے۔ کل میں نے نیوز چینل میں دیکھا کہ ہم پر نازی ہونے کا لیبل لگایا گیا۔ میری صحافیوں سے اپیل ہے کہ اگر ہمارے بارے میں کچھ لکھ رہے ہیں تو کم از کم پہلے ہمارے پروفائل کو پڑھ لیں’۔ وفد کے ایک رکن نے دورے کے منتظمین کی سراہنا کرتے ہوئے کہا: ‘ہم یہاں حقائق اور معلومات جاننے کے لئے آئے تھے۔ ہمارا دورہ بہت اچھا رہا۔ منتظمین نے اس کو بہت اچھے انداز میں منتظم کیا تھا’۔ ان کا مزید کہنا تھا: ‘ہم نے کل سول سوسائٹی گروپوں کے ساتھ میٹنگیں کیں۔ ہم نے بہت سے لوگوں کے ساتھ بات چیت کی۔ ہم نے ٹیچروں کے ساتھ ملاقات کی۔ ایک آدمی نے مجھ سے کہا کہ ہندوستانی کشمیر میں بہت کرپشن ہورہا تھا۔ مرکزی حکومت سے جب رقومات آتی تھیں تو وہ راستے میں ہی کہیں غائب ہوجاتی تھیں’۔ ایک اور رکن نے کہا: ‘ہم سے ملاقات کرنے والے لوگوں نے ہم سے کہا کہ ہم ہندوستانی شہری ہیں۔ ہم اسی رفتار سے ترقی چاہتے ہیں جس رفتار میں ملک کے باقی حصوں میں جاری ہے’۔ یورپی پارلیمان کا یہ وفد دراصل 27 یورپی اراکین پارلیمان پر مشتمل تھا جن میں سے چار اراکین نئی دہلی سے ہی اپنے وطن واپس ہوئے تھے جس کے نتیجے میں اس وفد کی تعداد سمٹ کر 23 پر آگئی تھی۔ ملک کی اپوزیشن جماعتوں بالخصوص کانگریس نے یورپی اراکین پارلیمان کے دورہ کشمیر پر سوال اٹھائے تھے۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ جب ملک کے سیاستدانوں کو جموں وکشمیر میں لوگوں سے نہیں ملنے دیا جارہا تو یورپی پارلیمان کے اراکین کو اس کی اجازت کیونکر دی گئی۔ ایک رپورٹ کے مطابق کشمیر آنے والے یورپی پارلیمان کے تین اراکین کو چھوڑ کر باقی سب کا تعلق یورپ کی انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں سے تھا۔ وہ مبینہ طور پر اسلام مخالف بیان بازی کے لئے بھی مشہور ہیں۔ بتادیں کہ 5 اگست، جس دن مرکزی حکومت نے جموں وکشمیر کو آئین ہند کی دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات منسوخ کئے اور ریاست کو دو مرکزی زیر انتظام والے علاقوں میں منقسم کیا، سے وادی کشمیر میں ہڑتال ہے۔ وادی میں ہر طرح کی انٹرنیٹ خدمات معطل ہیں، تعلیمی اداروں میں درس وتدریس کا عمل معطل ہے، اس کے علاوہ ریل خدمات بھی بند ہیں۔ تاہم لوگوں کی آزادانہ نقل وحرکت پر عائد پابندیاں ہٹائی جاچکی ہیں۔