’ہتھیارکو موت کا راستہ ‘

0
0

کشمیرمیں ذاکر موسیٰ کے انصار غزوۃ الہند کا خاتمہ ہوگیا :پولیس سربراہ
کشمیری نوجوان ملی ٹینسی چھوڑ کر امن کے راستے پر چلیں
یواین آئی

سرینگر؍؍جموں وکشمیر پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ نے’ہتھیار‘کو موت کا راستہ قرار دیتے ہوئے کشمیری جنگجوئوں سے ملی ٹینسی کا راستہ ترک کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ وادی میں امن کی بحالی کے لئے ضروری ہے کہ مقامی نوجوان ملی ٹینسی چھوڑ کر امن کے راستے پر چلیں۔ دلباغ سنگھ نے کہا کہ جنوبی کشمیر کے راجپورہ اونتی پورہ میں تین مقامی جنگجوئوں کی ہلاکت کے ساتھ ہی وادی میں ذاکر موسیٰ کے انصار غزوۃ الہند کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب اس گروپ کی قیادت ذاکر موسیٰ کے ہاتھ میں تھی تب بھی یہ گروپ اپنی پہچان ثابت کرنے میں ناکام رہا تھا۔ پولیس سربراہ نے یہ باتیں بدھ کے روز یہاں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ اس موقع پر کشمیر زون پولیس کے انسپکٹر جنرل آف پولیس سوئم پرکاش پانی کے علاوہ دوسرے سینئر پولیس عہدیدار بھی موجود تھے۔دلباغ سنگھ نے ان رپورٹوں جن کے مطابق وادی میں 31 اکتوبر، جس دن جموں وکشمیر اور لداخ نامی دو مرکزی زیر انتظام والے علاقے معرض وجود میں آئیں گے، سے پہلے موبائل فون خدمات پھر سے معطل ہوں گی، کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی اقدام زیر غور نہیں ہے۔ پولیس سربراہ نے کہا کہ پاکستان کی طرف سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیوں کا مقصد زیادہ سے زیادہ تعداد میں جنگجوئوں کو سرحد کے اس طرف دھکیلنا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران دراندازی کی چند کوششیں کامیاب ہوئی ہیں تاہم گھبرانے والی کوئی بات نہیں ہے۔دلباغ سنگھ نے کشمیری جنگجوئوں سے ملی ٹینسی کا راستہ ترک کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا: ‘ہم آج بھی چاہیں گے کہ جو نوجوان غلط راستے پر چل پڑتے ہیں وہ اپنے ہتھیار چھوڑیں اور صحیح راستہ اپنانے کی کوشش کریں۔ ہتھیار موت کا راستہ ہے۔ ہتھیار موت دیتا ہے اور موت کا ماحول پیدا کرتا ہے۔ ابھی کچھ بگڑا نہیں ہے۔ ذاکر موسیٰ کے رہتے بھی کوئی کام آسان نہیں ہوا تھا۔ ذاکر موسیٰ کے بعد اگر اس گروپ کی کمانڈ حمید للہاری کے ہاتھ میں آگئی تو بھی انہیں نقصان کے سوا کچھ ہاتھ میں نہیں آیا’۔ان کا مزید کہنا تھا: ‘اس طرح کی سرگرمیاں روکنے میں ہم تب ہی کامیاب ہوسکتے ہیں جب یہاں کے مقامی نوجوان ملی ٹینسی کا راستہ چھوڑ کر امن کے راستے کو چنیں گے’۔پولیس سربراہ نے کہا کہ پانچ اگست کے بعد خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ کشمیری نوجوان ملی ٹینسی کا راستہ اختیار کریں گے لیکن یہ خدشہ صحیح ثابت نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا: ‘مجھے یہ کہنے میں بھی خوشی ہے کہ پانچ اگست کے بعد جو حالات یہاں بنے تھے اس کے چلتے لوگوں میں خدشات اور شکوک تھے کہ بڑی تعداد میں لوگ عسکری صفوں میں شامل ہوں گے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ جتنی تعداد میں نوجوان پانچ اگست سے قبل جنگجوئوں کی صفوں میں شامل ہوتے تھے تاہم پانچ اگست کے بعد بہت کم تعداد میں نوجوان ملی ٹنسی کی طرف راغب ہوئے۔ اس عرصے کے دوران صرف پانچ سے چھ نوجوان غائب ہوئے۔ مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ جنگجو بنے ہوں’۔ریاستی پولیس سربراہ نے اونتی پورہ کے راجپورہ میں گزشتہ رات ہونے والے تصادم کے حوالے سے کہا کہ تصادم میں حمید للہاری، نوید احمد ٹاک اور جنید رشید بٹ نامی تین مقامی جنگجو مارے گئے جن کا تعلق انصار غزوۃ الہند سے تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان جنگجوئوں کی ہلاکت کے ساتھ وادی میں ذاکر موسیٰ کے انصار غزوۃ الہند کا خاتمہ ہوگیا ہے۔انہوں نے کہا: ‘انصار غزۃ الہند کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ مگر ان کا بالائی زمین نیٹ ورک ہوتا ہے۔ ان میں سے اچانک کوئی آگے آکر جنگجوئوں کی صفوں میں شامل ہوجاتا ہے۔ فی الحال انصار غزوۃ الہند ختم ہوگئی ہے’۔انہوں نے تصادم کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا: ‘لاء اینڈ آڈر کی طرف توجہ رہنے کی وجہ سے جنگجو مخالف آپریشن رکے تھے۔ اب جنگجو مخالف آپریشنوں میں تیزی لائی گئی ہے۔ ایک آپریشن اننت ناگ میں ہوا جس میں تین ملی ٹنٹ مارے گئے تھے۔ اونتی پورہ کے راجپورہ گائوں میں جو آپریشن کل ہوا اس میں تین جنگجو مارے گئے۔ یہ تینوں جنگجو مقامی ہیں۔ سبھی انصار غزوۃ الہند نامی تنظیم سے وابستہ تھے’۔ انہوں نے کہا: ‘آپ کو یاد ہوگا کہ جب ذاکر موسیٰ مارا گیا، اس کے بعد اس گروپ کی کمانڈ حمید للہاری کو دی گئی تھی۔ حمید للہاری تب سے لیکر اب تک اس گروپ کو چلا رہا تھا۔ اس نے اور کافی لوگوں کو اس گروپ میں شامل کیا تھا۔ ذاکر موسیٰ کی ہلاکت کے ساتھ یہ گروپ تقریباً ختم ہوچکا تھا۔ حمید نے گروپ کی سربراہی سنبھالتے ہی مزید دو لوگوں کو اس گروپ میں شامل کیا جس میں نوید اور جنید شامل ہیں’۔ انہوں نے مزید کہا: ‘یہ تینوں جنگجو اونتی پورہ بیلٹ کے رہنے والے ہیں اور تینوں جیش محمد کے ساتھ کارڈی نیشن میں کام کررہے تھے کیونکہ جیش محمد دیگر تمام جنگجو تنظیموں کے ساتھ اپنا رشتہ بڑھا رہی تھی۔ ان کی یہ کوشش ہے کہ یہاں افراتفری اور قتل وغارت کو فروغ دیا جا سکے’۔پولیس سربراہ نے حمید للہاری کے بارے میں کہا: ‘حمید للہاری سنہ 2016 میں جنگجوئوں کے صفوں میں شامل ہوگیا تھا اور تب سے لیکر اب تک کافی جنگجویانہ سرگرمیوں میں شامل رہ چکا تھا۔ اس نے فورسز پر ہونے والے حملوں میں حصہ لیا تھا۔ کاکہ پورہ میں ایک حملہ ہوا تھا اس میں بھی اس نے حصہ لیا تھا۔ کاکہ پورہ میں فیاض احمد نامی شہری کی ہلاکت ہوئی تھی اس میں حمید للہاری ملوث تھا۔ اس کے فورسز اور عام شہریوں پر کاکہ پورہ میں جو حملے ہوئے ان میں بھی ملوث تھا’۔دلباغ سنگھ نے کہا کہ حمید للہاری کے ساتھ جاں بحق ہونے والے جنید رشید بٹ کا بھائی بھی ملی ٹینٹ تھا اور ایک تصادم میں مارا گیا تھا۔ انہوں نے کہا: ‘جنید رشید جو مارا گیا ہے، اس کا بھائی بھی ملی ٹینٹ تھا۔ وہ بھی ایک تصادم میں مارا گیا تھا۔ دو بھائی جنگجو بن کر مارے جاچکے ہیں جس پر ہمیں دکھ بھی ہے۔ یہ لوگ غلط راستے پر چلے تھے۔ پاکستان کے اشاروں پر ناچتے ہیں’۔پولیس سربراہ نے مزید کہا کہ راجپورہ تصادم میں مارے گئے جنگجوئوں کے قبضے سے بھاری مقدار میں اسلحہ وگولہ بارود برآمد کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا: ‘مارے گئے جنگجو بہت ساری جنگویانہ سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ ان کے قبضے سے بڑی تعداد میں اسلحہ و گولہ بارود پکڑا گیا ہے۔ ان کے قبضے سے تین اے کے 46 اور 47 رائفلیں برآمد ہوئی ہیں’۔ پولیس سربراہ نے کہا کہ پاکستان کی طرف سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیوں کا مقصد زیادہ سے زیادہ تعداد میں جنگجوئوں کو سرحد کے اس طرف دھکیلنا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا: ‘ملی ٹینسی میں آئی کمی پاکستان کو کافی پریشان کررہی ہے۔ اس لئے پاکستان کی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ جنگجوئوں کو کشمیر کی طرف دھکیلا جائے۔ کچھ ملی ٹینٹ دراندازی کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کی بہت سی کوششوں کو ناکام بنایا جاچکا ہے۔ ریاست کے کچھ حصوں میں دراندازی کی خلاف ورزی روز کی بات بن گئی ہے۔ جب جب پاکستان جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ جنگجوئوں کو یہاں بھیجا جائے’۔ دلباغ سنگھ نے ان رپورٹوں جن کے مطابق وادی میں 31 اکتوبر سے پہلے موبائل فون خدمات پھر سے معطل ہوں گی، کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی اقدام زیر غور نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا: ‘جب تک ہم ذمہ داری سے پیش آرہے ہیں سرکار کی طرف سے کوئی بھی غلط فیصلہ نہیں ہوسکتا ہے۔ ہم ذمہ دار لوگ ہیں۔ حالات ٹھیک رہنے چاہیے۔ آج کی تاریخ میں ایسی کوئی کارروائی زیر غور نہیں ہے’۔پولیس سربراہ نے گزشتہ ڈھائی ماہ کے دوران گرفتار کئے گئے نوجوانوں کے حوالے سے کہا کہ ان میں سے بیشتر نوجوانوں کو رہا کیا جاچکا ہے۔ انہوں نے کہا: ‘ہر پانچ میں سے چار نوجوانوں کو رہا کیا جاچکا ہے۔ ہم نوجوانوں کو حراست میں رکھنے کے شوقین نہیں ہیں۔ ہم نے بیشتر نوجوانوں کو کونسلنگ کے بعد رہا کیا۔ ہم نے انسانی رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ کسی بھی جیونائل کو حراست میں نہیں رکھا گیا ہے۔ ہم نے کسی کو بھی غیر ضروری طور پر ہراساں نہیں کیا’۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا