نئی دہلی؍؍نوجوت سنگھ سدھو ایک ایسا نام ہے جو کام کیا کرتا ہے ، اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہے ۔حقیقت میں ایک ساتھ اتنے سارے کاموں کو بہترین انداز میں مکمل کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے ۔بیک وقت متعدد خصوصیت کا مالک ہونا ہر شخص کی فطرت میں شامل نہیں ہوتا۔کچھ خصوصیات ،صلاحیتیں اوپروالا چند ہی لوگوں کو عطا کرتا ہے ۔ ان ہی میں سے ایک شخص ہیں ہمارے سابق کرکٹ کھلاڑی نوجوت سنگھ سدھو۔ جو نہ صرف کرکٹ کے ایک بہترین کھلاڑی رہ چکے ہیں بلکہ بہترین مزاحیہ شاعری کا فن بھی ان کے پاس ہے ۔ لوگوں کا انٹرٹین کرناتو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔ کرکٹ کا میدان ہو ،کمینٹری باکس ہو، ٹیلی ویژن کا پردہ ہو یا پھر سیاست کا میدان، ہر شعبہ میں نوجوت سنگھ سدھو نے اپنی کارکردگی ، اپنے فن، اپنی صلاحیت سے لوگوں کو متاثر کیا۔ نوجوت سنگھ نے نے انداز خطابت سے پورے ہندوستان میں ایک منفرد مقام حاصل کیا ۔نوجوت سنگھ سدھو کی پیدائش 20اکتوبر 1963 کو پنجا ب کے پٹیالہ ضلع میں ہوئی۔ ان کے والد سردار بھگونت سنگھ سدھو بھی ایک کرکٹ کھلاڑی رہ چکے ہیں اور وہ اپنے بیٹے نوجوت کو فرسٹ کلاس کرکٹر کی حیثیت سے میدان میں دیکھنا چاہتے تھے ۔ سدھو نے پٹیالہ کے یدھویندر اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اورچندی گڑھ کے مہندرا سے گریجویشن اور پنجاب یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ سدھو کا بین الاقوامی کرکٹ کریئر 1983 سے 1999 تک رہا ۔ انہوں نے اپنا پہلا ٹسٹ ویسٹ انڈیز کے خلاف احمد آباد میں کھیلا تھا جس میں انہوں نے صرف 19 رن بنائے تھے ۔ اگلے میچ میں بھی وہ زیادہ رن نہیں بناپائے تھے ۔ ابتدائی دو میچ کھیلنے کے بعد انہیں ٹیم سے باہر بیٹھنا پڑا۔ تقریباً پانچ برسوں تک کرکٹ کے میدان میں سخت محنت ، جدوجہد کرنے کے بعد ان کی قسمت کا ستارہ اس وقت روشن ہوا جب انہیں1987 میں ورلڈ کپ کے لئے منتخب کیا گیا۔ سال 1987 میں ورلڈ کپ میں نوجوت سنگھ سدھو انے اپنے پہلے ہی ایک روزہ میچ میں دھواں دھار بلے بازی کرتے ہوئے شاندار 73 رن بنائے ۔ لیکن وہ اپنی ٹیم کو آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست سے نہیں بچاپائے ۔ اس میچ کے بعد نوجوت سنگھ سدھو سرخیوں میں آگئے ۔ ان کے کھیل میں مسلسل نکھار پیدا ہوتا گیا ۔ انہوں نے ورلڈ کپ کے پانچ میں سے چار میچوں میں نصف سنچریاں بنائیں۔ سدھو کی بہترین کارکردگی کی بدولت ہندستانی ٹیم سیمی فائنل میں تو پہنچ گئی ۔ اب سیمی فائنل میں ہندستان کا مقابلہ انگلینڈ سے طے تھا لیکن اس میچ میں سدھوکی بلے باز فیل ہوگئی اور ہندستان کو شکست کھاکر ورلڈ کپ کی دوڑ سے باہر ہونا پڑا۔سدھو نے ا پنے ایک انٹرویو میں کہا کہ 1983 سے کرکٹ کی شروعات کرنے کے بعد جب وہ ایک انتہائی خراب دور سے گذر رہے تھے تب ایک معرو ف کرکٹر راجن بھولا نے ان پر ایک مضمون لکھا تھا جس کا عنوان تھا ‘سدھو: دی اسٹروک لیس ونڈر’ ، جو انڈین ایکسپریس میں شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد سے سدھو اپنی پرفارمنس پر خصوصی توجہ دی ، اور اپنی زندگی میں تبدیلی لانا شروع کردی۔ کرکٹ کی مزید پریکٹس کی اور بہتری لانا شروع کی۔سال 1997 میں ویسٹ انڈیز کے دورے کے دوران انہوں نے اپنی پہلی دوہری سنچری بنائی تھی۔ نوجوت سنگھ سدھو ایک روزہ میچوں میں 5 سے زیادہ سنچریاں بنانے والے اولین ہندوستانی بلے باز تھے ۔ٹسٹ میں ان کی بہترین بلے باز ی رہی جس میں انہوں نے ویسٹ انڈیز کے خلاف 201 رن بنائے تھے ۔سدھو نے ہندستان کے لئے 51 ٹسٹ میچوں میں 42.13 کی اوسط سے 3212 رن بنائے جس میں ان کی 9 سنچریاں اور 14 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ جب کہ اپنے 136 ایک روزہ میچوں میں انہو ں نے 37.08 کی اوسط سے 4413 رن بنائے جس میں ان کی6 سنچریاں اور 33 نصف سنچریاں شامل ہیں۔انہوں نے اپنی پہلی بین الاقوامی سنچری 1989 میں پاکستان کے خلاف شارجہ مین 1989 میں لگائی تھی۔ اس کے بعد 1993 انہوں نے انگلینڈ کے خلاف 134 رنوں کی اپنے کرکٹ کریئر کی سب سے شاندار اننگز کھیلی۔سدھو بے اپنا آخری ٹسٹ میچ 6 جنوری 1999 کو نیوزی لینڈ کے خلاف جبکہ آخری ایک روزہ بین الاقوامی میچ 20 ستمبر 1998 کو پاکستان کے خلاف کھیلا تھا۔ اس کے بعد دسمبر 1999 میں انہوں نے اپنے کرکٹ کے تمام فارمیٹس سے سبکدوشی کا اعلان کردیا ۔ اپنی بہترین بلے بازی کے لئے انہیں ‘سکسر سدھو’ کہہ کر بلایا جاتا تھا اور اپنی بہترین فیلڈنگ کی وجہ سے انہیں ‘جونٹی سنگھ’ کہا جاتا تھا ، کیونکہ جونٹی روہڈز اس وقت کے سب سے بہترین فیلڈر تھے ۔ اس طرح نوجوت سنگھ سدھو کا کرکٹ کریئر تو ختم ہوگیا تھا لیکن انہیں ابھی اور بھی دیگر شعبوں میں اننگز کا آغاز کرنا تھا۔سدھو نے 2001میں ہندستان کے سری لنکا دورے کے دوران کمینٹیٹر کی حیثیت سے اپنی نئی اننگز کا آغاز کیا۔ بحیثیت کمینٹیٹر سدھو نے اپنی ایک منفرد شناخت بنائی۔ و ہ اپنی ون لائنرس کی وجہ سے مقبول ہوئے جسے ہم ‘سدھوزم’ کہتے ہیں۔ رٹائرمنٹ کے بعد سدھو نے کھیلوں کے مشہور چینل ای ایس پی این – اسٹار اور اس کے بعد ٹین اسپورٹ کے لئے کام کرنا شروع کردیا۔ ا س کے بعد وہ ہندستانی چینلوں پر کرکٹ کے مبصر کے طور پر بھی نظر آئے ۔جیسا کہ ہم سب واقف ہیں کہ نوجوت سنگھ سدھ ایک زندہ دل شخصیت کے مالک ہیں۔اسی زندہ دلی کو برقرار رکھنے کے لئے انہوں نے ٹی وی چینل اسٹار ون پر مزاحیہ سیریل ‘ دی گریٹ انڈین لافٹر چیلنج’ سے اپنے ٹی وی کریئرکی شروعات کی جو انتہائی مقبول شو ثابت ہوا۔اس کے بعد بگ باس -6 میں بطور کنٹیسٹنٹ انہوں نے شرکت کی اور کچھ ہفتے رہنے کے بعد سیاسی تنازعات کی وجہ سے انہیں شو درمیان میں ہی چھوڑنا پڑا تھا۔ اس کے بعد وہ کچھ برسوں تک کپِل شرما کے ساتھ ‘کامیڈی نائٹ ودھ کپِل’ میں نظر آئے ۔ یہی نہیں سدھو کئی ہندی اور پنجابی فلموں میں بھی خصوصی کردار میں نظر آئے ۔نوجوت سنگھ سدھو نے 2004 میں عام انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے امرتسر کی سیٹ سے انتخاب لڑے ۔ اس کے کچھ وقت بعد کورٹ کیس ہونے کی وجہ سے انہیں اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا۔ 2009میں عام انتخابات میں انہیں کانگریس کے اوم پرکاش سینی کو 6858 ووٹوں سے ہرایا اور امرتسر کی سیٹ پر قائم رہے ۔ سدھو پروین شاہ معاملے میں بھی کچھ دنوں جیل میں رہے ۔ 28 اپریل 2016 کو انہیں راجیہ سبھا کیلئے ممبر منتخب کیا گیا۔نوجوت سنگھ سدھو ریاست پنجاب کے توانائی اور قابل تجدید توانائی کے وزیر رہ چکے ہیں۔فی الحال ،وہ امرتسر (مشرق) سے پنجاب اسمبلی میں نمائندگی کرتے ہیں۔