منتہائے فکر عالمی شعری ادارے کی جانب سے 16واں عالمی مشاعرہ
رپورٹ: احمدمنیب لاہور پاکستان
شعر گوئی ایک قدیم فن ہے۔ دنیا کی پرانی سے پرانی زبان لے لیں آرامی یا آسامی، عبرانی یا عربی، فارسی یا سنسکرت، فرانسیسی یا ہسپانوی، انگریزی یا یوروبا ہر ایک زبان میں تشبیہ و استعارہ کا استعمال اور تحریر مکفی و مسجی کا وجود ملتا ہے۔ نثر میں بھی لوگوں نے اسپِ قلم دوڑائے ہیں اور نظم میں بھی خامہ فرسائی کی ہے۔
خیام کی رباعی سے لے کر حضرت امیر خسرو کے ریختہ، غالب کی نوائے سروش سے میر تقی میر کے سہل ممتنع تک ایک متنوع کہکشاں ملتی ہے جو ہمیں محسوس کرواتی ہے کہ زبان اپنے ارتقائی مراحل نہایت باقاعدگی کے ساتھ طے کرتی چلی جا رہی ہے۔
فورٹ ولیم کالج کولکتہ کے وہ اٹھارہ بیس سال بہت اہم ہیں جن میں انگریزوں نے فارسی سے اردو کا لٹریچر تیار کرنے کے لیے اس وقت کے ادبا اور شعرا نیز اہل علم کو جمع کیا اور الف لیلی، طلسم ہوش رُبا، قصہ چہار درویش جیسے معرکة الآرا مجموعے تخلیق کے مراحل سے گزرے۔
اردو ہندی کی بیٹی ہے اور فارسی کا دودھ پی کر پلی ہے اسی لیے کہا جاتا ہے۔
صاحبو! ہوا کی سرکنڈوں سے چھیڑ چھاڑ اور لوہار کے ہتھوڑے کی ٹھک ٹھک نے علم العروض کو جنم دیا۔
ایک ردھم پکڑا گیا۔ علم الابدان میں علمِ ریاضی نے قواعد و ضوابط مرتب کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
ازمنہء قدیم کے علماء و فضلا کا علم و فضل ایک ہی علم تک محدود نہیں تھا بلکہ وہ جملہ علوم پر دسترس رکھتے تھے۔
اُمراو جان ادا اور فردوسِ بریں اس کی اعلی مثال ہیں کہ نثر کے آسمان میں منظوم کہکشاں اس طرح سجائی ہے کہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کب ہم نثر کی چاشنی سے آلاپ کے آہنگ میں داخل ہو گئے ہیں اور ایسے ایسے محاورہ جات لاتے ہیں کہ ایک ہی نشست میں سب پڑھنے کو دل کرتا ہے۔ سچ پوچھیے تو میں نے کئی کئی وقت کی روٹی ان چیزوں سے اکتساب کرنے پر قربان کر دی۔
امریکہ اور جرمنی وغیرہ میں میں نے اتنے بڑے بڑے مال(Mall) دیکھے ہیں کہ آپ کی ضرورت کی ہر چیز یعنی سوئی سے لے کر ہوائی جہاز تک وہاں سے آپ کو مل جائے لیکن کیا کریں کہ میرا دل عٙمرو عیار کی زنبیل میں آج بھی اٹکا ہوا ہے۔ اس وقت ایک لفظ زنبیل سے مستقبل کے shoping mall کا نقشہ کھینچ دیا گیا۔ وااااااہ!
تو میں قارئین کو بتاوں کہ سلیقہ کیا چیز ہے؟ یہی اسلوب بیان کی جدت و ندرت ہے کہ ہم ماضی کے جھروکوں سے مستقبل میں شست لگائیں۔ ہائے ہائے ہائے!
صاحبِ طرز، طرح دارانِ شاعری اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ مجموعہ کیا ہے اور دیوان کسے کہتے ہیں؟
ذوالفقار نقوی صاحب اچھی طرح اس فرق کا ادراک رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے منتہائے فکر کے منچ سے ردیف پر کام شروع کیا ہے۔ وہ طرح مصرع پر کام کروا کے اپنے فاضل دوستوں کو قادر الکلام بنانا چاہتے ہیں اور ردیف پر کام کروانے کا مقصد یہ ہے کہ ہر شاعر کو دیوان مرتب کرنے کے لیے کم از کم ایک غزل ہر ایک ردیف پر میسر ہو جائے اور کسی کا مجموعہء خیال بھی فرد فرد نہ رہے۔ اسی مقصد کے تحت 6 جنوری 2019ء کو ردیف "ب” پر مشاعرہ کا انعقاد کروایا گیا۔
نظامت کا علم میرے پیارے بھائی علم دار نے اٹھایا اور کیا خوب اٹھا اور نبھایا صاحبِ طرز اور صاحبِ ادا واہ بھئی واہ!
اس عظیم الشان مشاعرہ کی صدارت ماہر تعلیم، ریاست جموں کشمیر کے نامور ادیب محترم امین قمر نے فرمائی…
مہمانِ خصوصی ایک کہنہ مشق شاعر محترم اسلم بنارسی تھے انہوں نے کلام عطا کیا:
جلتی ہے جب شام کو امیدوں کی شمع
یوں لگتا ہے دور سے ہے جلتی محراب
مہمانِ اعزازی کی نشست پر محترم امتیاز نسیم ہاشمی
متمکن تھے وہ گویا ہوئے:
بیچا نہیں ہے درہم و دینار کے لئے
زندہ ابھی ضمیر ہے کردار کے سبب
ناظمِ مشاعرہ ڈاکٹر علمدار عدم نے صدا لگائی:
ہم نے سوچا تھا ہم سفر ہو گا
یہ جو مارا گیا مسافرِ شب
خآکسار نے نعتیہ کلام ترنم سے پیش کرنے کی سعادت پائی:
اُس نور کی اُس حسن کے شہکار کی باتیں
اب آو کریں سیدِ ابرار کی باتیں
پروفیسر عرفان عارف:
شب ساری جب گزار دی ہم نے ترے بغیر
دن بھی گزار لیں گے ہمیں آزما نہ اب
جناب محتشم احتشام:
ایک دنیا اس کو ٹھکراتی رہی
شوق سے ہم نے گزارا اضطراب
محترمہ روبینہ میر
جہاں مل سکے مجھ کو اک ہم سفر
ہے دل میں اک ایسے سفر کی طلب
جناب علی شیدا
کتنے بھی ہوئے جذب تپِ دشتِ گماں میں
بارش میں کئی بار نہائے ہیں کئی خواب
جناب مصطفیٰ دلکش
سچ جو بولی زبن ہے توبہ
چار سو وار ہو رہا ہے اب
جناب احمد منیب
اب تو ایسا وصال دے یا رب
جسم سے جاں نکال دے یا رب
ڈاکٹر حنا عنبرین
بزرگوں کی جو قدر کرتا نہیں
جہاں میں وہی در بدر ہے جناب
ڈاکٹر مبارک امروہی.
مرا مقصد ہے آزادی بشر کی
مجھے روکیں گی کیسے بیڑیاں اب
جناب رفیع سرسوی
کیسی راحت، کیسی نیندیں، حشر بپا ہے دل کے اندر
آنکھیں دل کی مجرم ٹھہریں کیوں دیکھے تھے ایسے خواب
محترم میر شبیر
دھڑکنیں دل کی رک بھی سکتی ہیں
مجھ کو اس طرح نہ پکار جناب
محترمہ ڈاکٹر مینا نقوی
مضطرب تھا دل کبھی اشکوں سے دامن تر بھی تھا
مدتوں کے بعد لیکن مل گیا غمخوار اب
جناب ذوالفقار نقوی
اہلِ مکاں کو زلزلوں کا خوف تھا کبھی
ڈھہتی ہیں اب عمارتیں معمار کے سبب
جناب سجاد بخاری
ہم کہاں چاہتے ہیں پھول کوئی سرخ و سفید
تیرے ہوتھوں سے ملے گرچہ ہو شہلائی گلاب
جناب شمشاد شاد
جھکی شاخیں تو فوراٙٙ چھانٹ دی جاتی ہیں پیڑوں سے
کفالت کون کرتا ہے کسی بوڑھے شجر کی اب
جناب امید اعظمی
رات بھر مجھ پر گہر افشاں رہے
چاندنک تھے اس مہِ کامل کے لب
جناب کامل جنیٹوی
شہرِ سخن میں اس نے مجھے دی ہے زندگی
کامل ہے فکر و فن کی یہ دولت بڑی عجیب
جناب خورشید بسمل
سالِ نو آتا ہے جاتا ہے کہانی بن کر
وقت کی قبر میں یادوں کو سلا دیتے ہیں سب
یہ کامیاب مشاعرہ اپنے اختتام کو پہنچا یہ درس دیتا ہوا کہ ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ بے لوث جڑے ہوئے ہیں اور سیکھنے سکھانے کا یہ عمل جاری رہے گا اور ہم اس عمل سے گزر کر کندن ہوتے جائیں گے۔
مشاعرے کے اختتام پر منتہائے فکر عالمی شعری ادارہ کے بانی و سرپرست جناب ذوالفقار نقوی نے تمام مہمانوں، شعراء کرام نیز سامعین و قارئین کا شکریہ ادا کیا..
Attachments area