رُخسارکوثر مسکان ،مینڈھر پونچھ
بلاشبہ ”ماں‘اللہ تعالیٰ کی طرف سے د±نیامیں اولادکےلئے عطاکیاگیا نایاب اورانمول تحفہ ہوتی ہے۔ماں ہی ہرانسان کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے اوریہی وہ ہستی ہوتی ہے جواولادسے بے لوث محبت رکھتی ہے۔ ہرپل پریشان رہنامگراپنی اولادکوکوئی د±کھ نہ پہنچے کی فکرماں کوشدت سے ستاتی رہتی ہے۔والدکی محبت کابھی کوئی نعم البدل نہیں تاہم یہاں میں ماں کے حوالے سے ہی اپنی قلم کوجنبش دوں گی۔ماں کی عظمت اوربڑائی کوبیان کرنامیرے قلم کے بس کی بات نہیں اس لیے مختصرہی لکھوں گی۔انسان کتنی بھی ترقی کیوں نہ کرلے ،بہت بڑے بڑے معرکے اورسلطنتیں فتح کیوں نہ کرلے مگروہ اپنی ماں کوفراموش کردیتاہے توسمجھواس نے د±نیامیں کچھ حاصل نہیں کیا۔کوئی کتنابھی غریب کیوںنہ ہواگراس نے ماں کوراضی رکھاتوسمجھووہ د±نیاکاامیرترین شخص ہے اوراس نے اپنے لیے نہ صرف د±نیامیں جنت کاسامان پیداکردیابلکہ ہمیشہ قائم رہنے والی زندگی ”آخرت “ کےلئے بھی جنت میں مکان تعمیرکرلیاہے۔اللہ تعالیٰ نے ماں کے قدموں کے نیچے جنت رکھ کراس کی عظمت کافلسفہ بیان کردیا۔زمانے کی تبدیلی کے سبب موجودہ دوراورگذشتہ دورکی اولادمیں بھی ماﺅں کی خدمت ،تعظیم اورعزت کرنے میں تبدیلی آگئی ہے۔گذشتہ زمانے میں اولادماں کی بہت قدرکیاکرتی تھیں مگراس دورمیں چندہی اولادیں ایسی ہیں ماں کی قدرکرتی ہیں۔اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے ایک مغربی تہذیب کی مشرقی تہذیب پریلغاربھی ہے۔مغرب میں لوگ کتاپال سکتے ہیں مگرماﺅںکوپالنے میں عارمحسوس کرتے ہیں۔انہیں آشرموں میں چھوڑدیتے ہیں۔
آج پوری دنیاآہستہ آہستہ مغربی معاشرے کی لپیٹ میں آکرماﺅں کوفراموش کررہی ہے جوکہ مہذب معاشرے کےلئے لمحہ فکریہ ہی قراردیاجاسکتاہے۔سکولوں میں تاریخ کے قصے توپڑھائے جارہے ہیں مگرماﺅں کی تعظیم اورعزت کے فلسفے سے متعلق نصاب کہیں دیکھنے کونہیں ملتا۔آج تعلیم عام ہے مگرپھربھی سماج میں انتشارہے۔گھروں میں بے آسودگی ہے۔مائیں اولادوں کے ظلم وتشددسے پریشان حال ہیں۔ایک دِن مدرڈے منایاجاتاہے اس دن کچھ لوگ ماﺅں کویادکربھی لیں توکیافائدہ جب پورے سال انہوں نے ماں کوسکھ نہیں دیا۔کوئی انسان اگرماں کیساتھ ب±راسلوک کرتاہے تواسے سمجھ لیناچاہیئے کہ اس نے اپنی بدنصیبی کودعوت دی ہے۔کہاجاتاہے کہ جس شخص نے اللہ تعالیٰ کوراضیکرناہوتواپنی ماں کوخوش کرلے۔اگرکسی نے اپنی ماں کوخوش رکھاتوجانیے اس نے نبی آخرالزماں کے فرمان کی تائیدکی اوراس پرعمل پیراہوکرد±نیاوآخرت میں اپنی سرخروئی کویقینی بنایااوراللہ تعالیٰ کوخوش کرلیا۔کیونکہ نبی آخرالزماں حضرت محمد کی خوشنودی جس کونصیب ہوجاتی ہے توسمجھیے گاکہ اس نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرلی۔اس کے برعکس اگرانسان جتنی بھی عبادتیں ،نمازیں،نوافل اداکیوں نہ کرلے اگراس کی ماں اپنی اولادسے خوش نہیں توسمجھیے وہ د±نیامیں بھی ناکام ہے اورآخرت میں بھی۔ماں اولادکوہرحال میں خوشحال اورخوش دیکھناچاہتی ہے ،ماں ہی ایک ہستی ہے جس کواپنی اولادکی فکرہروقت ستاتی رہتی ہے۔د±نیامیں ماں سے بڑھ کرکوئی سچااوربے لوث محبت کرنے والارشتہ نہیں ہوسکتا۔
موجودہ دورمیں پتھربازی ،منیشات ، تشددکے واقعات کے ساتھ ساتھ بے شمارایسے مسائل ہیں جن میں وادی کشمیرمبتلاہے۔کشمیری ماں کوچاہیئے کہ وہ اپنے بچوں کوپتھربازی سے دوررکھے،تشددسے دوررکھنے کےلئے اپنی اولاد کی شاندارتربیت کرے ، اس کی سوچ وفکر کومثبت سمت دے۔اگرکوئی نوجوان ذہنی طورانتشار کاشکارہوکرغلط راستے پرگامزن ہوتاہے تواس کےلئے اس کے والدین بھی کسی حدتک ذمہ دار ہوتے ہیں۔بچے والدین بالخصوص ماﺅں سے کافی اُنس رکھتے ہیں اوراگرمائیں اپنے بچوں کوذہنی پریشانیوں سے دوررکھنے کےلئے اپنارول ادا کریں توان کے بچے خوشحال زندگی جینے کی راہ پرگامزن رہیں گے۔ معاشرہ کشمیری خواتین کے مثبت رول کی ادائیگی کامتقاضی ہے ۔ایک کشمیری ماں،بہن،بہو،بیٹی کواپنے پیاروں کویہ سمجھاناچاہیئے کہ وہ غلط راستے کے بجائے بہترراستہ اختیارکریں ۔وادی کشمیرمیں عسکریت پسندی کی طرف بچوں کارجحان کافی خطرناک ہی نہیں بلکہ کشمیری سماج کی تباہی کابھی ذریعہ ہے ۔بچوں کی تعلیم سے دوری بھی کئی مسائل کوپیداکررہی ہے لہذابچوں میں اچھے اوربُرے کی تمیزپیداکی جائے۔
لہذاوقت کاتقاضاہے کہ کشمیری خواتین بالخصوص مائیں اگرچاہیں توبچوں کو اچھی تربیت کرسکتی ہیں جوکہ وادی کشمیرمیںموجودہ وقت کی پریشانیوںمثلاٍ پتھربازی میں ملوث ہونا، ڈرگس لینا،عسکریت کی طرف رجحان اوردیگرمسائل کودورکرنے کےلئے نہایت ضروری ہے۔ بہت سارے گھروں میں ایساہے کہ بچوں کی تربیت اچھے ڈھنگ سے نہیں ہوپارہی ہے اوراس کانتیجہ یہ نکل رہاہے کہ بچے غلط راستوں پرگامزن ہورہے ہیں جس کی وجہ سے کشمیری سماج میں ناآسودگی پیداہورہی ہے ایسی صورتحال میں ماﺅںکوسنجیدگی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
کامیاب وکامران اولادوہی ہے جس نے ماں کوخوش رکھا۔ماں کاہراک خواب شرمندہ تعبیرکیا۔ماں کی آنکھوں میں آنسونہ آنے دیئے۔جوشخص ماں کی قدرکرتاہے ،ماں کی خدمت کرنااپنافرض سمجھتاہے اسے دُنیامیں ہرمقام پرکامیابی وکامرانی ہی نصیب ہوتی ہے۔ماں ہے تود±نیامیں سب کچھ ہے۔جن کی مائیں د±نیاسے کوچ کرچکی ہیں وہ ماﺅں کی قدرجانتے ہیں مگرجن کی مائیں زندہ ہیں وہ ماﺅں کی عزت نہیں کررہے ہیں۔جوکہ لمحہ فکریہ بھی ہے اوراس اولادکےلئے د±نیامیں اذیت کاذریعہ بھی۔ا±ن اولادوں کواپنی ماں کی قدرکرنی چاہیئے جن کی مائیں ابھی باحیات ہیں۔سلامت ہیں۔ہراولادکوچاہیئے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ماں کےلئے د±عائیں مانگے کہ اسکی ماں ہمیشہ اس سے راضی رہے۔ماں کی رحمت کاسائباں تادیر اس کے سرپرسلامت رہے۔جب بچہ جنم لیتاہے تودردزہ میں ماں کوکتنی تکلیف ا±ٹھانی پڑتی ہے اس کااندازہ ایک ماں کے علاوہ کسی کونہیں ہوتا۔پھرجب اولادچھوٹی ہوتی ہے توماں بچے کوبولناسکھاتی،چلناسکھاتی ہے ،سکول کےلئے تیارکرکے خوش ہوتی ہے۔ماں کے سامنے اگرکوئی استاداس کے بیٹے کی تعریف کردے توماں کے دِل سے د±عائیں ہی د±عائیں پھوٹ پڑتی ہیں اوربعض دفعہ توآنکھوں سے خوشی کے آنسوﺅں کے پھوارے ہی پھوٹ پڑتے ہیں۔ماں با پ کے علاوہ کوئی دوسراشخص آج کسی کی اولادکی تعریف سن کرراضی نہیں ہوتا۔وہ حسدسے جل جاتاہے مگرماں توآسمان کی طرف دیکھ کرد±عائیں مانگناشروع کردیتی ہے۔اس کاچہرہ کھکھلاا±ٹھتاہے۔جب ایساہوتاہے توانسان کےلئے ماں کی د±عاﺅں کے صدقے آسمان سے رحمتیں نازل ہوناشروع ہوجاتی ہیں۔خوش نصیب ہوتاہے وہ شخص جس نے ماں کے چہرے پرمسکان بکھیری ،ماں کے د±کھ کواپناد±کھ سمجھ کراس کی پریشانیوں کودورکیااوراس کے آنسوپونچھے۔اگرکسی کی اولادغلط کام کرتی ہے توہرکوئی گالی دیتاہے ،برابھلاکہتاہے لیکن ماں کبھی اپنی اولادکوگالی تودوراپنی زبان سے ب±راجملہ تک نہیں نہیں بول سکتی۔اولاداچھی ہویابری ماں کےلئے اولادہوتی ہے اس کے دِل سے اولادکےلئے د±عائیں ہی نکلتی ہیں۔ماں اولادکی ہرضداورخواہش پوری کرنے کےلئے ہرکٹھن کام کرگذرتی ہے مگرآج کے دورکی اولادیں اپنی ماں کوفراموش کررہی ہے۔مغربی اقدارکواپناکرنوجوان نسل اپنے لیے تباہی وبربادی کاسامان پیداکررہی ہیں۔