افسانہ نگار:چوہدری اشتیاق مصباح
دہلی یونیورسٹی
وہ مجھے پہلے دن ہی سے پر اسرار سا لگا۔اس کا پہناوا ، چال چلن ، انداز اور رویہ ہر ایک کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا کہ یہ پاگل تو نہیں؟ میں بھی گزشتہ چھ مہینوں سے اسے دیکھ رہا ہوں مگر میرے ذہن نے کبھی بھی اسے پاگل تسلیم نہیں کیا۔وہ دوسری بات کہ اس کی حرکتیں بالکل پاگلوں جیسی ہیں۔ میں نے جب سے اسے دیکھا ہے بس ایک ہی لباس میں۔ایک میلا کچیلا کُرتا ،ایک پھٹی پرانی پتلون اور ریلیکسو کمپنی کی چپل،پیروں اور چپل کے رنگ میں کوئی فرق نہیں۔میں نے بہتوں کو اس کے متعلق پوچھا سب نے الگ الگ رائے دی مگر ایک بات پر سب نے اتفاق کیا کہ وہ کوئی سودائی ہے جو چوبیس گھنٹوں میں سے زیادہ تر وقت آرٹس فیکلٹی کی سینٹرل لائبریری کے آس پاس گزارتا ہے۔لمبا تڑنگا سا قد ، داڑھی مونچھ میں فرق کرنا ناممکن ، بالوں کے ساتھ جیسے کبھی قینچی لگائی ہی نہ ہو۔کس کو معلوم آخری بار کب نہایا ہوگا۔ گھنے گھنے سفید بال سر سے ایسے چپکے ہوئے جیسے ایلفی لگا رکھی ہو۔کچھ لٹیں کانوں پر نیچے آ کے داڑھی سے ملی ہوئیں۔اس سے کانوں کے ساتھ اچھی خاصی گپھائیں بنی ہوئیں جہاں آدھے درجن چوہے آرام سے اپنا مسکن بنا سکتے ہیں۔ان سب پر برسوں کی جمی ہوئی دھول جس سے بالوں کا رنگ بھورا ہو چکا ہے۔آنکھیں سرخی مائل ، سفید سفید بھوئیں ، ناک نیپالیوں جیسی مگر نتھنے کچھ زیادہ ہی پھولے ہوئے۔ رنگ گندمی جسے دھوپ اور ٹھنڈ نے جھلسا کر سیاہی مائل کر رکھا ہے۔ لو لگنے اور کوہرے میں رہنے سے چمڑی کھردری ہو چکی ہے۔ سامنے والے دانتوں میں انڈیا گیٹ جتنا خلا ہے۔پان گٹکے ، نیولے ، نسوار اور کھینی کا کثرت سے استعمال کرنے کے سبب دانتوں کی سفیدی غائب ہو چکی اور اس کا اثر نچلے دہانے پر واضع نظر آتا ہے۔یہ پر اسرار شخص کسی سے بات نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کو یہ جرا¿ت ہوتی ہے کہ اس سے کوئی سوال کرے۔چلتا اتنی تیزی سے ہے گویا فائر برگیڈ کی گاڑی ہو۔سارے زمانے سے روٹھا ہوا لگتا ہے۔سردیوں میں چائے کی کسی بھی کینٹین پر وارد ہو جاتا اور اشارے سے چائے مانگتا، کیا مجال ہے کہ کوئی پیسے مانگنے کی ہمت جٹا پائے۔جب سے گرمیاں شروع ہوئی ہیں تبھی سے ایک لیٹر کی بوتل ہمیشہ ساتھ ہوتی اور جہاں بھی پینے کا پانی ملے وہ اپنی بوتل بھر لیتا ہے۔ اور چلتے چلتے حلق میں پانی انڈیل دیتا ہے۔ہر کوئی اسے تعجب سے دیکھتا ہے۔آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کسی سیکورٹی گارڈ نے اسے لائبریری یا کسی شعبہ میں جانے سے روکا ہو۔وہ بلا جھجک کسی بھی شعبے میں گھس جاتا ہے ، کسی سے بات نہیں کرتا۔دیکھنے والوں کو یوں لگتا ہے کہ کسی گمشدہ چیز کی تلاش میں ہے۔مگر کیا ہے وہ چیز۔۔۔؟میرے ذہن میں بھی یہ سوال کافی عرصہ سے ہے۔دوستوں سے بہت بار اصرار کیا کہ چلیے اس سے بات کرتے ہیںمگر وہ منع کر دیتے۔کل کوئی پانچ ساڑھے پانچ بجے میں آرٹس فیکلٹی کے عقبی دروازے سے باہر نکلا اور کسی کام سے آگے کی جانب چل پڑا۔راستے میں ہم دونوں کا سامنا ہوگیا۔میں نے اسے دیکھتے ہی من بنا لیا تھا کہ آج اس سے ضرور بات کروں گا۔میں جان بوجھ کر راستے میں حائل ہو گیا۔بس جوں ہی اس نے اپنی دوپہیوں والی قدرتی گاڑی کو بریک لگایا میں نے کہا۔’سر پلیز ایک منٹ رکیے‘وہ رک تو گیا مگر منہ سے کچھ نہ بولا،’سر جی یہ۔ٹی۔ پی۔نگر کی طرف کونسا راستہ جاتا ہے ‘؟میں نے یوں ہی اسے باتوں میں لگانے کی کوشش کی۔’یہاں سے بائیں گھوم جاو آدھا کلو میٹر چل کر ایک ریڈ لائٹ آئے گی وہاں سے دائیں لے لینا تھوڑا ہی آگے ہے‘میں ششدر رہ گیا۔وہ شخص جو دیکھنے میں پاگل لگتا ہے اس سے اس سنجیدگی سے بات کرنے کی توقع میں نے بھی نہیں کی تھی۔چند سیکنڈ کی خاموشی کے بعد میں نے پھر کہا،’سر میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں‘’کیسی بات؟’بس یہی کہ آپ اتنے جلدی میں کیوں رہتے ہیں‘؟’کس چیز کی تلاش ہے آپ کو؟‘اس نے بس یونہی بات بنانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا،’میں تو بس چائے وائے پینے جاتا ہوں یا پانی بھر لیتا ہوں جہاں ملتا ہے‘اس کے چہرے کو دیکھ کے یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ مجھے ٹال رہا ہے۔مگر میں بھی مصمم ارادوں کے ساتھ اس معمہ کو حل کرنے کے لئے کوشاں تھا۔میں نے دوبارہ اصرار کیا کہ میں آپ کو پوری طرح جاننا چاہتا ہوں اور سمجھنا چاہتا ہوں کہ آپ نے یہ حلیہ کیوں بنا رکھا ہے۔’تمہیں یہ جان کر کیا کرنا ہے‘اس نے قدرے تلخ لہجے میں کہا۔’در اصل کافی عرصہ سے میں آپ کو ایسے ہی دیکھ رہا ہوں۔سوچتا ہوں بات ہوجائے اگر آپ کے پاس وقت ہو‘میں نے درخواست کی۔اس نے چند لمحوں کے لئے سوچا اور پھر کہا،’ابھی میرے پاس وقت نہیں ہے اگر سچ مچ آپ میرے متعلق جاننا چاہتے ہو تو فرصت سے ملو‘یہ بول کر وہ الوداع کہے بنا تیزی آگے بڑھ کر ایک گلی میں غائب ہوگیا۔میں دیر تک وہیں کھڑا رہا اور اس پر اسرار شخص کے متعلق سوچتا رہا۔میں نے دل میں تہیہ کر لیا کہ اس شخص کو ضرور بات کرنے پر راضی کروں۔دوسرے دن میں نے ان جگہوں پر اسے تلاش کیا جہاں آنا جانا اس کا معمول تھا مگر اس کا کوئی سراغ نہ ملا۔میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ جس چیز کی انسان کو تلاش ہوتی ہے وہ آسانی سے کبھی نہیں ملتی۔وہ پاگل نما شخص روز وہاں کہ چکر کاٹتا مگر نجانے آج اسے زمیں نگل گئی یا آسماں کھا گیا۔اب تک گرمی کی شدت میں اضافہ ہو چکا تھا میں تھک ہار کر واپس ہاسٹل چلا گیا۔بعد دوپہر چار بجے کے آس پاس میں نے دوبارہ آرٹس فیکلٹی کا رخ کیا۔سائے لمبے ہوتے جا رہے تھے مگر سورج میں ابھی تک تپش باقی تھی۔میں عمارتوں کے سایوں کے بیچوں بیچ ہوتا ہوا گیٹ پر پہنچ گیا۔ گیٹ کے سامنے والی سڑک پر گاڑیوں کا وہی جمگھٹ ، وہی ہارن بجنے کا شور اور وہی لوگوں کا ہجوم تھا۔کوئی بس میں سوار ہو رہا ہے ،کسی کو رکشے والا کھینچ رہا ہے اور کوئی ذاتی موٹر کے ذریعے اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔فیکلٹی کے گیٹ سے اندر باہر آنا جانا اسی طرح جاری ہے۔اس بھیڑ میں میری نظروں کو اس پر اسرار شخص کی تلاش تھی۔میں گیٹ کے اندر داخل ہوگیا۔لائبریری کے احاطے میں پیڑوں کے نیچے جگہ جگہ طالب علموں کے گروپ بیٹھے ہوئے تھے۔میں بھی ایک پیڑ کے نیچے بنے ہوئے چبوترے پر بیٹھ گیا۔کچھ دیر تک موبائل فون چلاتا رہا اور بیچ بیچ میں یہاں وہاں دیکھ لیتا۔اب کی بار مجھے زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا اور کچھ ہی دیر میں وہ پاگل نما شخص بغل میں پانی کی بوتل دبائے ہوئے میرا سامنے سے گزرا۔میں بھی تیز تیز قدموں سے اس کے پیچھے چل پڑا۔چالیس پچاس قدم چل کر میں نے اسے جا لیا۔’سر پلیز رکیے۔میں نے اس سے گذارش کی۔وہ رک گیا اور میری طرف دیکھنے لگا۔شاید پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا۔’کہیں بیٹھتے ہیں سر‘’کہاں بیٹھیں‘اس نے مجھ سے سوال کیا۔’چلیے چائے کے کسے کھوکھے پر چلتے ہیں وہیں بات ہوگی‘وہ بنا کچھ کہے آگے چل پڑا اور میں بھی ساتھ ہو لیا۔اب ہم آرٹس فیکلٹی کے باہر فٹ پاتھ پر چل رہے۔میرے جاننے والے عجیب نظروں سے مجھے دیکھ رہے تھے۔یہی نہیں ریہڑی لگا کر مشروبات فروخت کرنے والے بھی ہمیں گھور رہے تھے۔شاید اس شخص سے ان لوگوں کی بنتی نہیں یا پھر جوس وغیرہ پی کر پیسے نہیں دیئے ہوں گے۔بہرحال ہم نے چائے والے سے دو کپ چائے لی اور کسی پر سکون جگہ کی تلاش میں چل پڑے۔مجھے ڈر تھا کہ شاید کتنا زیادہ چلنا پڑے گا مگر وہ تھوڑا آگے چل کر رک گیا۔جہاں چھوٹی سی دیوار بنی ہوئی ساتھ میں پارکنگ کی جگہ تھی ،سایہ بھی بہت اچھا تھا۔ہم اس دیوار پر بیٹھ گئے اور بچی کھچی چائے ختم کرنے لگے۔’میں کافی عرصے سے آپ کو دیکھ رہا ہوں۔ بڑی بار بات کرنا چاہا اور پوچھنا چاہا کہ آپ ایسے کیوں ہو‘؟اس نے ایک لمبی سانس لی اور چائے کا کپ ایک طرف رکھتے ہوئے کسی گہری سوچ میں پڑ گیا۔چند لمحوں کے لئے مکمل سکوت طاری رہا پھر وہ بولا ’انسان ایک سماجی جانور ہے وہ اپنی زندگی اچھے سے جینے کے لئے دوسروں پر انحصار کرتا ہے۔مگر یہ تب ہی ممکن ہے جب رشتوں کی ڈوری مضبوط ہوگی۔چھوٹی چھوٹی غلط فہمیاں رشتوں میں انمٹ خلاء پیدا کر دیتی ہیں۔اور ہنستے کھیلتے گھر اجڑ جاتے ہیں۔انسانوں کی جس طرح شکلیں الگ الگ ہوتی ہیں ٹھیک اسی طرح فطرت بھی الگ الگ ہوتی ہے۔اس لئے رشتوں کو نبھانے کے لئے کبھی کبھی آپ کو بنیادی اصولوں کے ساتھ بھی سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ہٹ دھرمی، ضد اور سینہ زوری رشتوں کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کر دیتی ہے۔وہی رشتے آگے بڑھتے ہیں جہاں ایک دوسرے کے جذبات کی قدر ہو ، ایک دوسرے کی عزت نفس کا خیال ہو اور ایک دوسرے پر بھروسہ ہو۔ورنہ رشتوں کی تار ٹوٹتے ہوئے دیر نہیں لگتی۔‘میں ساکت و جامد یہ سب سنتا گیا۔حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ جس شخص کو ساری دنیا پاگل سمجھتی ہے وہ باتوں سے کتنا سمجھدار لگتا ہے۔’مگر سر آپ کے ساتھ ایسا کیا ہوا جو آپ نے سادھو سنت کا روپ دھار لیا‘؟’یہ کالج کے دنوں کی بات ہے۔جب میں ایک انقلابی نوجوان ہوا کرتا تھا۔کارل مارکس کے فلسفے سے بہت متاثر تھا۔سوچتا تھا کہ غیر یکسانیت یکسر ختم ہو جائے۔سرمایہ دار محنت کشوں کا خون چوسنا بند کردیں۔آزاد ہندوستان کو لے کر میرے دل میں کئی ارمان تھے۔میں نے دیکھا کہ ہندوستان آزاد ہو کر بھی غلام ہے۔انگریزوں نے تو لوٹ کھسوٹ کے بعد ہندوستان کو چھوڑ دیامگر یہاں کے کالے انگریزوں نے اپنے ہی بھائیوں کا استحصال کرنا شروع کر دیا۔میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس نابرابری کو ختم کرنے کے لئے ایک تحریک چلانا چاہتا تھا۔اس وقت میرا خون بھی گرم تھا اور نہ جانے کیا کیا خواب سجا رکھے تھے۔اسی دوران میری ملاقات سریتا سے ہوئی۔وہ بہت خوبصورت تھی۔بس یوں سمجھئے کہ پہلی نظر میں ہی میں اس کا مرید ہوگیا۔حالانکہ مجھے کافی وقت لگا مگر پھر اس سے ہاں کروا ہی لی۔وقت تیزی سے آگے بڑھتا گیا اور میں نے پولیٹیکل سائنس میں ایم اے اور پھر کارل مارکس کے افکار سے متعلق ایم فل بھی کر لی۔اس دوران اپنی یونیورسٹی میں میری تقرری بطور اسٹنٹ پروفیسر ہوگئی۔سریتا نے تب تک سنسکرت میں ایم اے کرلیا۔دونوں کے گھر والوں کو ہماری شادی سے کوئی اعتراض نہ تھا اس لئے ہم جلد ہی رشتہ ازدواج بندھ گئے۔(اس دوران اس پر اسرار شخص نے دو بار پان کھایا اور ایک چٹکی نسوار بھی۔)شروع شروع میں تو سب ٹھیک چلتا رہا مگر کچھ ہی عرصہ بعد ہمارے رشتے میں دراڑیں پیدا ہوگئیں۔۔۔!وہ بہت زیادہ دھارمک تھی صبح سویرے گائتری کا جاپ کرتی ،مندر میں ماتھا ٹیکنے جاتی اور ہون کرواتی۔میں در اصل اس پوجا پاٹھ میں بالکل یقین نہیں کرتا اور مذہب میرے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ مگر سریتا مجھ سے بھی یہ سب کچھ کرنے کی توقع رکھتی۔وہ نمستے نمسکار اور پرنام کرنے والی انتہائی مذہبی عورت اور میں لال سلام سے
آگے نہ بڑھ سکا۔تم ہی بتاو کہ ہمارا رشتہ کیوں کر آگے بڑھتا‘؟یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔مجھے اس شخص میں دلچسپی بڑھتی ہی گئی۔میں پوری کہانی سننا چاہتا تھا۔’تو کیا آپ نے یہ رشتہ نبھانے کے لئے اپنے بنیادی اصولوں سے سمجھوتا کیا پھر‘؟ ’اور پگھل گئے آپ‘میں نے اس کے دل پر کاری ضرب لگانے کی کوشش کی۔یہ سن کر وہ بھڑک اٹھا۔سرخی مائل آنکھیں اور لال ہوتی چلیں گئیں۔ہونٹ کانپنے لگے۔ایک بار تو مجھے لگا کہ مجھ پر حملہ ہی نہ کردے۔’سوری سر۔۔۔!میرا مطلب وہ نہیں تھا۔میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ پھر آپ توازن برقرار رکھنے کے لئے کیا کیا ؟‘ڈیڑھ دو منٹ تک وہ بالکل خاموش ہوگیا۔شاید غصے کو ٹھنڈا کر رہا تھا۔پھر دو تین گھونٹ پانی کے لئے اوراپنا داہنا ہاتھ داڑھی پر پھیرتے ہوئے بولا۔میں بلا شبہ مذہبی نہیں مگر میں نے مختلف مذاہب کا تقابلی مطالعہ کیا ہے۔یہ بتاو¿ کس مذہب میں لکھا ہے کہ غریب کے منہ سے نوالہ چھین لو،کس پیغمبر یا اوتار نے تفرقہ بازی کرنے کا کہا،یہ کس مذہب میں لکھا ہے کہ آدھے لوگ سونے چاندی کے محلات میں رہیں اور آدھے فٹ پاتھ پر سردی میں ٹھٹھرتے رہیں یا گرمی میں جھلستے رہیں‘؟ ’وہ سب تو ٹھیک ہے مگر آپ نے نابرابری کے خلاف جنگ لڑنے کے بجائے اپنی زندگی بھی اذیت ناک بنا دی۔چاہیے تو یہ تھا کہ آپ حق و انصاف کے لئے لڑتے رہتے‘؟میں نے اسے ذرا مشتعل کرنے کی سعی کی۔یہ سن کر وہ خلاف توقع خاموش رہا اور سربہ زانوں ہو کر ایک بار پھر بحر خیالات میں غوطہ زن ہو گیا۔میں بھی کسی متجسس بچے کی طرح جواب سننے کے لئے وہیں بیٹھا رہا۔کچھ دیر بعد اس نے سر اٹھایا اور اپنے میلے کچیلے کرتے کے پلے سے ماتھے کا پسینہ صاف کیا۔پھر کرتے کی جیب سے کھینی کا پیکٹ نکالا اور ایک چٹکی کھینی منہ میں ڈال دی۔مزید چند لمحوں کےلئے خاموشی اختیار کر لی۔پھر میری طرف مڑا اور ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہا،’حالات انسان کو کہیں سے کہیں لے کے چلے جاتے ہیں۔یہ بادشاہوں کو فقیر بنا دیتے ہیں اور گداگروں کی مسند پر بٹھا دیتے ہیں ،شرط یہ ہے کہ آپ کا ستارہ گردش میں نہ ہو۔”مگر“۔۔۔!!!’ہاں ہاں آگے بھی سنائیں’میرے اور سریتا کے مابین جو نظریاتی خلا ءپید ہوا وہ ختم تو نہ ہوسکا البتہ ہماری علیحدگی ہو گئی۔عورت مرد کی سب سے بڑی کمزوری ہوتی ہے۔دنیا میں کامیاب مردوں کے پیچھے عورت کا ہاتھ کسی حد تک ہوگا مگر ناکام مردوں کی پیچھے بھی بلا واسطہ یا بالواسطہ عورت کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ماتا پتا پہلے ہی دنیا سے جا چکے تھے اور رہی سہی کسر سریتا نے پوری کردی‘’اووو۔۔۔!!سن کر دکھ ہوا‘میں نے ہمدردانہ لہجے میں کہا۔’مگر آپ کا مشن اور آپ تحریک ‘؟’میرے پاس الہ دین کا چراغ نہیں ہے دوست جو میرے ایک اشارے پر جنات حاضر ہوجاتے۔جب میں نے پیچھے دیکھا تو کوئی پشت پر ہاتھ رکھنے والا نہیں تھا۔میں ٹوٹ گیا تھا اندر سے۔تحریکیں جذبات کے بھروسے آگے نہیں بڑھ سکتیں۔سپوٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ان حالات میں تم دنیا سے کیا لڑو جب تم خود ہی ایک تماشا بنے پھرتے ہو‘یہ کہتے کہتے اس کی آنکھیں نم ہوگئیں اور گلا بھی بیٹھ گیا۔مزید کچھ نہیں بولا اور ایک بار پھر ان ہی راستوں پر چل پڑا جہاں وہ برسوں سے ٹھوکریں کھا رہا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭