بائیکاٹ کا فائدہ بی جے پی اور آر ایس ایس کو پہنچتا ہے

0
0

بھگوا جماعتیں جموں وکشمیر کا مسلم اکثریتی کردار تبدیل کرنا چاہتی ہیں: عمر عبداللہ
یواین آئی

اننت ناگنیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا کہ لوگوں کا انتخابی عمل سے دور رہنے کا فائدہ بی جے پی اور آر ایس ایس کو پہنچتا ہے۔ان کا یہ بیان حساس ترین اننت ناگ پارلیمانی حلقے میں انتخابات سے محض ایک روز پہلے سامنے آیا ہے۔ چار اضلاع اننت ناگ، پلوامہ، شوپیاں اور کولگام پر مشتمل اننت ناگ پارلیمانی حلقے میں 23 اپریل، 29 اپریل اور 6 مئی کو تین مرحلوں میں پولنگ ہونی ہے جس میں قریب 14 لاکھ رائے دہندگان18 امیدواروں کے سیاسی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔عمر عبداللہ نے اتوار کے روز یہاں پارٹی امیدوار جسٹس (ر) حسنین مسعودی کے حق میں منعقدہ انتخابی جلسے کے حاشئے پر نامہ نگاروں کو بتایا ‘گذشتہ انتخابات (بلدیاتی انتخابات) کے مقابلے میں انتخابی مہم میں بہتری دیکھی گئی ہے۔ اب اس انتخابی مہم کا ووٹنگ شرح پر کتنا اثر پڑتا ہے وہ قابل دید ہے۔ شمالی کشمیر میں انتخابی مہم تو ٹھیک چلی لیکن جس قدر ہم چاہتے تھے کہ ووٹ پڑیں گے اتنے ووٹ نہیں پڑے۔ ایسی ہی صورتحال سری نگر پارلیمانی نشست کے حوالے سے بھی دیکھنے کو ملی’۔انہوں نے کہا ‘اننت ناگ علاقے میں خوف پیدا کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں مگر امید کرتے ہیں کہ رائے دہندگان بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ لوگ ووٹ نہیں ڈالیں گے تو بی جے پی اور آر ایس ایس کا فائدہ ہوگا۔ میں نہیں چاہتا کہ یہاں کے لوگ انتخابی عمل سے دور رہیں اور بی جے پی و آر ایس ایس کو اس کا فائدہ پہنچے’۔عمر عبداللہ نے کانگریس سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اس کی مقامی لیڈرشپ کو فیصلے لینے کے کوئی اختیارات حاصل نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا ‘کانگریس کے مقامی لیڈروں کو جموں وکشمیر سے متعلق فیصلے لینے کی اجازت نہیں ہے۔ میں نے خود چھ سال تک کانگریس کے ساتھ حکومت کی ہے۔ ہم نے اکثر نہیں بلکہ ہر بار یہ پایا کہ معمولی سے فیصلے کے لئے انہیں مرکزی لیڈرشپ سے اجازت حاصل کرنی پڑتی ہے۔ انشاءاللہ جو ہمارا ممبر پارلیمنٹ بنے گا، انہیں دلی کی آواز نہیں سننے ہوگی’۔وزیر اعظم نریندر مودی کے بھاتی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کی رہائی سے متعلق تازہ بیان پر عمر عبداللہ نے کہا کہ وزیر اعظم بار بار انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا مرتکب ہورہے ہیں جبکہ الیکشن کمیشن خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے۔انہوں نے کہا ‘یہ الیکشن کمیشن کی کمزوری ہے۔ وزیر اعظم مودی اور بی جے پی کے دوسرے لیڈروں کی طرف سے لگاتار انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی جارہی ہے لیکن الیکشن کمیشن خاموش ہے۔ کچھ لوگوں کو انتخابی مہم چلانے سے ایک یا دو دن تک روکا گیا لیکن دوسری جانب وزیر اعظم کی طرف سے بار بار یا تو مذہب کا استعمال ہورہا ہے یا قومی سیکورٹی کا استعمال ہورہا ہے۔ الیکشن کمیشن کو عملی طور پر ثابت کرنا چاہئے کہ یہ ایک خودمختار اور آزاد ادارہ ہے’۔اس سے قبل صدر عمر عبداللہ نے کہا کہ بی جے پی، آر ایس ایس اور دیگر بھگوا جماعتیں جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کو ختم کرکے اس کے مسلم اکثریتی کردار کو تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان جماعتوں نے رواں پارلیمانی انتخابات میں دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کو ختم کرنا اپنی انتخابی مہم کا بنیادی ایجنڈا بنا رکھا ہے۔عمر عبداللہ نے اتوار کے روز جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے عشمقام میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ‘موجودہ انتخابات میں ہمارے دشمنوں نے جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن، دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کو ختم کرنا بنیادی ایجنڈا بنا رکھا ہے۔ یہاں کے عوام کو دشمنوں کے ان ناپاک اداروں کو خاک میں ملانا ہوگا اور گھر بیٹھے بیٹھے ہم اس میں کامیاب نہیں ہوسکتے، ہمیں ہمت اور حوصلہ کرکے پولنگ بوتھوں تک جاکر اپنے ووٹ کا استعمال کرنا ہوگا۔ موجودہ انتخابات میں عوام کی بھر پور شرکت میں ہی ہمارے بہتر اور محفوظ مستقبل کا راز مضمر ہے’۔اس موقعے پر پارٹی کے نامزدہ امیدوار جسٹس (ر) حسنین مسعودی، ضلع صدر اننت ناگ و سابق ایم ایل اے الطاف احمد کلو، سینئر پارٹی لیڈران ڈاکٹر بشیر احمد ویری، بشارت بخاری، رفیق شاہ صاحب، تنویر صادق، ڈاکٹر محمد شفیع، سلام الدین بجاڑ، چودھری ہارون رشید کے علاوہ کئی لیڈران موجود تھے۔عمر عبداللہ نے اپنے خطاب میں کہا: ‘موجودہ الیکشن باقی انتخابات سے ہٹ کر ہیں، اس میں سب سے بڑا مدعا تعمیر و ترقی کا نہیں اور نہ ہی امن و بھائی چارے کی بات ہورہی ہے، ہمارے مخالفین صرف اور صرف جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کو ختم کرنے کی باتیں کررہے ہیں۔ چاہے وہ بھاجپا کے صدر ہوں، وزیر ہوں یا وزیر اعظم، سب دفعہ 370 اور 35 اے کو ہٹانے کے اعلان کررہے ہیں اور بھاجپا نے اپنے انتخابات منشور میں بھی اسی وعدے کو سب سے زیادہ فوقیت دی ہے۔ اس لئے ہمیں موجودہ پارلیمانی انتخابات اور آنے والے اسمبلی انتخابات میں بھر پور شرکت کرکے ان مذموم اداروں کو خاک میں ملانا ہوگا، بی جے پی اور آر آیس ایس والے چاہیں گے کہ یہاں کے لوگ ووٹنگ کے روز گھروں سے باہر نہ نکلے اور ا±ن کے آلہ کار یہاں سے کامیابی حاصل کرسکیں’۔انہوں نے کہا: ‘جموں وکشمیر کی طرح باقی کئی ریاستوں کو بھی آئین میں خصوصی مراعات دیئے گئے ہیں لیکن ان ریاستوں کے قوانین ہٹانے کی بات کیوں نہیں ہورہی ہے صرف ہماری ریاست کی خصوصی پوزیشن کے خلاف ہی حملے کیوں ہورہے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ آر ایس ایس، بھاجپا اور دیگر بھگوا جماعتوں کو صرف ہماری ریاست کا قانون اس لئے ہضم نہیں ہوتا کیونکہ یہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور یہ لوگ ہماری خصوصی پوزیشن کو ختم کرکے اس ریاست کا مسلم اکثریتی کردار ختم کرنا چاہتے ہیں’۔پی ڈی پی بھاجپا سابقہ حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا: ‘آنے والے پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات میں ہمیں پچھلے 5 سال کا حساب کتاب برابر کرنا ہوگا، جو آنسو ہم نے دو دن پہلے پہلگام میں دیکھے وہ آنسو حساب کتاب کو برابر نہیں کرتے، کیونکہ اصلی آنسو وہ ہوتے ہیں جو دل سے نکلتے ہیں۔ اگر یہ آنسو ہم نے 2016 میں ا±س وقت دیکھے ہوتے جب ہمارے بچوں پر ٹیئر گیس، گولیاں اور پیلٹ برسائے جارہے تھے اور جب ہماری معصوم بیٹیوں سے آنکھوں کی بینائی چھینی جارہی تھی، تب ان میں کوئی حقیقت ہوتی۔ اگر جون 2018 سے پہلے ہم نے پہلگام میں یہ آنسو دیکھے ہوتے، تو ہم کہتے ہیں کہ واقعی محبوبہ مفتی صاحبہ کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوگیا اور ہمیں ان غلطیوں کو معاف کردینا چاہئے، لیکن اقتدار کے وقت ہم نے یہ آنسو نہیں دیکھے۔انہوں نے کہا ‘بھاجپا نے جونہی قالین کھینچ کر محبوبہ جی کو کرسی سے گرا دیا ا±سی وقت سے آنسو?ں کی جھڑیاں شروع ہوگئیں۔ یہ آنسو یہاں کے بچوں کے لئے نہیں، یہ آنسو 2016 کے پیلٹ اور گولیوں، ٹیئر گیس شلوں کے لئے نہیں، یہ آنسو اور ا±س دودھ اور ٹافی کے بیان کے لئے بھی نہیں ہیں بلکہ یہ آنسو اقتدار کھو جانے کے افسوس کے ہیں۔ یہ دل کے نہیں بلکہ سوچے سمجھے طریقے سے بہائے جارہے دماغ کے آنسو ہیں۔ دل کے آنسوﺅں کی قیمت نہیں ہوتی لیکن دماغ کے آنسوﺅں کی قیمت ہوتی ہے اور محبوبہ مفتی چاہتی ہیں کہ آپ ان آنسوﺅں کے بدلے ووٹ دیکر انہیں پارلیمنٹ بھیجیں، جو اس ریاست کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی ہوگی۔ بی جے پی کو یہاں لانے کے بعد، آر ایس ایس کی شاخیں یہاں کھلوانے کے بعد، سن 2016 سے سن 2018 کے ظلم و جبر اور بربریت کے بعد بھی اگر جنوبی کشمیر کے لوگوں نے ووٹ دیکر محبوبہ مفتی کو دلی بھیجا، تو ہم دنیا کو کیا پیغام بھجیں گے؟’۔این سی نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا کہ جس محبوبہ مفتی نے دفعہ 35اے کے جواب میں سپریم کورٹ میں پیش کئے جانے والی فائل پر دستخط نہ کرکے اقتدار جانے اپنے ہی ٹیبل پر رکھا ا±س پر کیسے بھروسہ کیا جاسکتا ہے؟ جس محبوبہ مفتی نے مودی کو خوش کرنے کے لئے جی ایس ٹی کا قانون لاکر نہ صرف دفعہ 370 کو کھوکھلا کیا بلکہ مہنگائی بھی بڑھا دی ا±س پر کیسے بھروسہ کیا جاسکتا ہے؟ جس پی ڈی پی حکومت نے آر ایس ایس کی خوشنودی کے لئے یہاں فوڈ ایکٹ لاکر غریبوں سے راشن چھینا ا±س پی ڈی پی پر کیسے بھروسہ کیا جاسکتا ہے؟۔انہوں نے کہا کہ پی ڈی پی نے پچھلے 5 سال ہر معاملے میں یہاں کے لوگوں کے ساتھ دھوکہ کیا۔ ان کا کہنا تھا: ‘کہاں گیا ایجنڈا آف الائنس۔ قلم دوات جماعت والے کہتے تھے کہ پاور پروجیکٹ لائیں گے، افسپا ہٹائیں گے، یہاں سے فوج نکالیں گے، حریت کے ساتھ بات چیت کریں گے، پاکستان کے ساتھ دوستی کرائیں گے، دکھاﺅ کہاں یہ سب، دکھاﺅ کہاں ہے ہندوستان اور پاکستان کی دوستی؟ ا±لٹا واجپائی جی نے جو آر پار کا راستہ کھولا تھا اور منموہن سنگھ جی نے جس پر تجارت شروع کروائی، اس کو مودی جی نے بند کروایا، اسی بھاجپا کو پی ڈی پی والوں نے یہاں لاکر ہمیں سبز باغ دکھائے’۔عمر عبداللہ نے اپنے خطاب میں پہاڑی اور گوجر بکروالوں کے حقوق کی بحالی ، پی ایس اے ختم کرنے اور ایس آر او 202ختم کرنے کے وعدوں کو دہرایا۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا