برج پریمیؔ۔ اُردو کے خاندانی ادیب

0
0
حمیدہ معین رضوی، سرے برطانیہ
برج کشن ایمہ والعمروف ، ڈاکٹر برج پریمیؔ سے میرا تعارف اُن کے فرزند ارجمند ڈاکٹر پریمی رومانی کے ذریعے ہوا جو میرے ہم عصر بھی ہیں اور ہم دونوں ایک دوسرے کی ادبی صلاحیتوں کے قدردان بھی ہیں بلکہ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا ان کا تعارف تو مجھ سے رسالہ ’’شاعر‘‘ کے ذریعے سے ہوا مگر پریمی رومانی صاحب نے اپنی ترتیب دی اس کتاب ’’برج پریمی۔ شخصیت اور فن‘‘ کے ذریعے سے پورے کشمیر کے اُردو دان خاندانوں کا مجھ سے تعارف کرا دیا اور اب وہ سبھی ہندوستان کے بہت سے اُردو لکھنے والوں کی طرح اپنے سے محسوس ہونے لگے ہیں۔ کیونکہ ان سب نے ، برج پریمی یعنی پریمی رومانی صاحب کے والد کے بارے میں آراء لکھی ہیں۔ پریمی رومانی کے دادا جان بھی اُردو زبان کے شاعر تھے اور برج پریمی کے باشعور ہونے سے قبل داغِ مفارقت دے گئے تھے۔
برج پریمیؔ ایک باصلاحیت انسان اور ادیب تھے جنھوں نے والد کی نوجوانی کی جدائی کی وجہ سے چودہ برس کی عمر میں استادی شروع کی اور پچاس برسوں کے قریب پہنچنے سے پہلے تعلیم کے میدان میں اپنی صلاحیتوں سے چھلانگتے ہوئے پی۔ایچ ڈی کے حقدار بنے اور خاص بات یہ کہ یہ ڈگری انھوں نے اُردو میں حاصل کی اور اس سے اہم یہ کہ جتنا وسیع اور دقیع کام برج پریمیؔ نے منٹو پہ کیا اتنا کام پاکستان میں بھی کسی نے نہیں کیا۔ ۱۹۷۶ء میں انھیں حکومت کی طرف سے ایوارڈ بھی دیا گیا۔ برج پریمیؔ کے صاحبزادے پریمی رومانی نے جو کتاب اپنے والد صاحب کے بارے میںبھیجی ہے وہ اُردو کے با اثر ادیبوں کی آراء سے مزین ہے اور ان آراء نے اور اُن کے جذبات و احساسات نے اس پیشِ نظر کتاب کو ایسا محبتوں کا تحفہ بنا دیا جو پڑھنے والوں کی مشامِ جاں کو معطر کر دیتا ہے۔ زیادہ لکھنے والے تو ہندوستان کے ہی ہیں کہ ہم لوگوں کو تو کچھ خبر ہی نہیں ہوتی کہ کوہِ ندا کی دوسری طرف کیا ہو رہا ہے؟
اس کتاب میں تقریباً اُردو کے چالیس ادیبوں نے برج پریمیؔ کی شخصیت اور فن پہ روشنی ڈالی ہے اورمیں اس کتاب پہ رائے اور تبصرہ اس لیے کر رہی ہوں کہ ایک نشست میں بیٹھ کر کوئی کشمیر کے ادیبوں کے بارہ میں بھی پڑھ لے اور پھر برج پریمیؔ کے ادبی خاندان کو بھی جان لے اور ان سب میں برج پریمیؔ کی اہمیتوں اور صلاحیتوں سے بھی متعارف ہو۔ یہ بھی واضح رہے کہ یہ کتاب برج پریمیؔ کے انتقالِ پُر ملال پہ لکھی گئی تھی۔ چنانچہ آگے بڑھتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں تو برج پریمی اپنی ملیح مسکراہٹ سے کتاب پہ قاری کا استقبال کرتے ہیں۔ وہ خوش اخلاق، خوش پوشاک، فراخ دل، مخلص اور ہر ایک کے کام آنے والے نظر آتے ہیں۔ برج پریمیؔ کے قلم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ مذہب کے پابند تھے مگر متعصب نہیںتھے اور ہر ایک کے مذہبی نظریات کو عزت سے دیکھتے تھے۔ بلکہ مسلمانوں کے بزرگانِ دین اور اولیاء حضرات سے گہری عقیدت رکھتے تھے۔
زیرِ نظر کتاب ’’برج پریمی فن اور شخصیت‘‘ کے مطابق برج پریمیؔ نے ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا۔ اُنھوں نے پہلا افسانہ تیرہ سال کی عمر میں ۱۹۴۹ء میں لکھا۔ یہ افسانہ روزنامہ ’’امرجیوتی‘‘ سری نگر میں شائع ہوا۔ برج پریمیؔ کے والد بھی اُردو کے ادیب تھے اور ابتدا میں انھیں نے برج پریمیؔ کے ادبی ذوق کی تربیت کی۔ بعد میں والد کے انتقال کے بعد پریم ناتھ پردیسی نے یہ فریضہ سنبھالا اور برج پریمیؔ کی صلاحیتوں کو جلا دی۔ برج پریمیؔ کے والد پنڈت شیام لال ایمہ اپنے زمانے کے اساتذہ میں شمار ہوتے تھے اور وہ بھی جوانی میں ہی انتقال کر گئے تھے۔ یہ وضع دار زمانے کی باتیں ہیں۔ چھوٹے بڑوں کی عزت کرتے اور بڑے نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی۔
برج پریمیؔ ’’قاشیں‘‘ کے نام سے اخبارجیوتی و مارتنڈ میں یُگ دیپ کے فرضی نام سے کالم لکھتے تھے۔ افسانوں کے علاوہ تجزیہ اور تنقید بھی لکھتے۔ ان کا تنقیدی شعور معقول اور دلچسپ تھا۔ یہ مضامین بھی پہلے اُردو کے موقرٔ رسالوں میں چھپے۔ پھر بعد میں کتاب کی صورت حرف، جستجو کے نام سے شائع ہوئے۔ دوسرا مجموعہ جلوۂ صد رنگ کے نام سے چھپا۔ اپنے پہلے مجموعے پہ انہیں اُردو اکادمی سے اعزاز بھی ملا۔ جلوۂ صد رنگ میں کشمیر کے گمنام مشاہیر کی تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مضامین کا تیسرا مجموعہ ’’ذوقِ نظر‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ یہ عملی تنقید ہے اور اس میں برج پریمیؔ کی صلاحتیں نمایاں ہو کر سامنے آئی ہیں۔ کشمیر کے مشاہیر کی کتاب اہلِ کشمیر پہ تاریخی احسان ہے جو برج پریمیؔ نے سرانجام دیا۔ برج پریمیؔ کی بہت سے کتابیں ابھی زیورِ اشاعت سے آراستہ نہیں ہوئی ہیں۔ ان کی کتابوں کی فہرست بقول ان کے فرزند کے کافی طویل ہے۔ ان کے اعزازات کی فہرست بھی طویل ہے۔ جو درج ذیل ہیں:
۱۔آل انڈیا اُردو ہندی سنگم ۱۹۷۶ء۲۔جموں کشمیر کلچرل اکادمی۱۹۸۶ء  اور ۱۹۸۸ء۳۔مغربی بنگال اُردو اکادمی۱۹۸۷ء اور۴۔یوپی اُردو اکادمی۱۹۸۲ء  اور۱۹۸۶ء
برج پریمیؔ بہت سے اُردو رسائل میں بھی مضامین لکھتے تھے۔ پریمی رومانیؔ نے بڑی عرق ریزی سے برج پریمیؔ کے دوستوں، واقف کاروں، فنکاروں، ساتھ کام کرنے والے ہم پیشہ لوگوں، طالب علموں اور ہم عصروں کے خیالات کو سمیٹا ہے جس کی وجہ سے ان کی ادبی، علمی اور انسانی تینوں انوع کی خوبیاں ایک کتاب میں جمع ہو گئی ہیں اور میں جو ہزاروں میل کشمیر سے دور بیٹھی ہوں ، ان سے واقفیت حاصل کر رہی ہوں اور وہ قریب محسوس ہو رہے ہیں۔ ان کی اُردو سے محبت اور اُردو کے لیے محنت کا احساس ہو رہا ہے۔ دیکھئے یہ ہم عصر کیا کہتے ہیں؟
ڈاکٹر مغنی تبسم جو خود بھی ایک بلند پایہ نقاد ہیں لکھتے ہیں:’’…برج پریمیؔ ایک اچھے افسانہ نگار، بلند پایہ محقق، جو بڑے شغف اور لگاؤ کے ساتھ تصنیف و تالیف کے کام میں منہمک رہتے ہیں۔ ماہنامہ سب رس میں امین کامل لکھتے ہیں’’…برج پریمیؔ مضامین بھی لکھتے تھے اور افسانے بھی۔ وہ بھرپور تنقیدی شعور اور تحقیقی بصیرت کے مالک تھے۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں’’برج پریمیؔ کی تخلیقات پڑھ کر ہر شخص اس کے سوچنے کے ڈھنگ اور بات کہنے کی دلکشی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔ اس نے جس کسی کے متعلق لکھا اس کی زندگی، اس کے رجحانات، اس کا سیاسی و سماجی ماحول بھی اس کی تخلیقات کے پہلو بہ پہلو رکھ کر اجاگر کیا کہ اس سے وہ ادیب اپنی پوری شخصیت کے ساتھ قاری کے سامنے آکر کھڑا ہو جائے۔ یہ برج پریمیؔ کی فنی صلاحیت اور وسعتِ مطالعہ کی دلیل ہے۔ امین کامل ان کی ایک اور خصوصیت کے معترف ہیں اور وہ ان کی کشمیری زبان کی تحریری صلاحیت ہے کہتے ہیں:’’ جب ہمارا کوئی ادیب کشمیری میں لکھنے بیٹھتا ہے تو اس کے جملے کی ساخت اور الفاظ کا ذخیرہ زیادہ تر فارسی پہ مشتمل ہوتا ہے۔ مگر برج پریمیؔ جانی پہچانی روزمرہ کی کشمیری میں لکھتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ وہ سوچتے کشمیری میں ہیں۔‘‘
امین کامل کی طرح پشکر ناتھ بھی برج پریمیؔ کے قریبی حلقہ میں تھے۔ پشکر ناتھ یادوں کی قندیلیں روشن کرتے ہیں اور ماضی کے شبستاں نکھر جاتے ہیں۔ قاری بھی ان کے مشترک جذبات اور زماں و مکان کی جھلک ہی نہیں دیکھتا اس کا حصہ بن جاتا ہے۔ وہ دوستوں کی ایک کہکشاں کا ذکر کرتے ہیں۔ جن لوگوں کا وہ ذکر کرتے ہیں ان کے اسمائے گرامی ہیں غلام رسول نازکی، رحمن راہی، فراق، دینا ناتھ نادم، امین کامل، سومناتھ زتشی، اختر محی الدین احمد، شمیم، راہی معصوم رضا حضرات کے ساتھ ادب و فن کی رفتار، نہج، طرزِ نگارش پہ گرما گرم بحث ہوتی۔ پشکر ناتھ یہ بھی ذکر کرتے ہیں کہ ان محفلوں میں پریمی رومانیؔ یعنی ہمارے ہم عصر برج پریمیؔ کے صاحبزادے کس طرح ان محفلوں میں شرکت کرتے اور میرے خیال میں والد صاحب کے لیے دست و بازو بن کر حوصلہ دیتے۔ پشکر ناتھ اتھاہ دکھ کے سمندر میں ڈوب جاتے ہیں جب انھیں وہ جانکاہ منظر یاد آتا ہے کیسے برج پریمیؔ بیماری کے ہاتھوں نڈھال ہوتے ہوتے راہِ ابد کی طرف چلے گئے اور دوست حسرت سے دیکھتے رہ گئے۔
پروفیسر مرغوب بانہالی، برج پریمیؔ کی علمی صلاحیتوں کو کثیر الجہات مانتے ہیں اور اس بات کی خصوصی تعریف کرتے ہیں کہ برج پریمیؔ مرنجان و مرنج تھے اور اصول پرستی کے قائل۔ انھوں نے برج پریمیؔ کے بیٹے پریمی رومانیؔ کو دل سے دعا دی کہ اﷲ تعالیٰ ہر ادیب کی اولاد کو ایسا باصلاحیت بنائے کہ وہ اپنے والد کی علمی صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہوئے آگے بڑھائے۔
شاہد بڈگامی کا تعلق بھی برج پریمیؔ کے قریبی حلقے سے ہے۔ وہ دوستی کے ان حسین لمحوں کی کہکشاں بکھیرتے ہیں تو قاری کے دل پہ بھی اداسی کی گرد بیٹھ جاتی ہے۔ کھونے کا دکھ بھی عجیب ہوتا ہے۔ صرف کھونے والا ہی اس کا اندازہ کر سکتا ہے۔ اس کتاب میں کچھ لوگوں نے جہاں ذات کے حوالے سے بات چیت کی وہاں کچھ لوگوں نے کسی اور حوالے سے۔ ڈاکٹر اسد اﷲ وانی پہلے تو اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ برج پریمیؔ کے ہم عصر اور ان کی نسل کے لوگ بہت مخلص، ملنسار اور علم کے پیاسے تھے۔ وہ علم کی پیاس بجھانے کے لیے ہر چشمے پر پہنچ جاتے اور خلوص سے سیکھتے۔ تقریب میں، تہذیب میں، سفر میں، حضر میں، وہ ایک دوسرے سے سیکھتے اور سکھاتے۔
’’جب ہم برج پریمیؔ کی تخلیقات کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ افسانہ نگاری، تحقیق و تنقید اور انشا پردازی میں انھوں نے اسلوب کے مختلف پیمانے اور اصناف، ادب کی ان مختلف ہیئتوں میں برتی جانے والی زبان اور اندازِ بیان کے فن سے بخوبی آشنا ہیں۔ ان کی ادبی زندگی  افسانہ نگاری سے شروع ہوئی۔ ان کے افسانے فنی، تکنیک اور زبان و بیان کے اعتبار سے اعلیٰ اور معیاری ہیں۔ ان افسانوں کی زبان میں پختگی، بیان میں حلاوت اور اسلوب میں شگفتگی پائی جاتی ہے۔
آخر میں ان کی تنقیدی طرزِ تحریر کی بھی مثالیں لکھتی ہوں جو بقول ماہرین ایک مشکل صنف ہے۔ جیسا کہ میں نے ابتدا میں ذکر کیا برج پریمیؔ کا منٹو پہ بہت اہم کام ہے۔ ان کا پی۔ایچ ڈی کا مقالہ جتنی تحقیق اور تفصیل سے معلومات فراہم کرتا ہے غالباً پاکستان میں بھی ممتاز شیریں کے علاوہ کسی نے کام نہیں کیا۔ واﷲ! علم میرا خیال یہی ہے۔ برج پریمیؔ لکھتے ہیں:
’’منٹو کے فنی کمال کا ایک اور زاویہ ان کے اظہار اور ابلاغ کے اسلوب میں چھپا ہے۔ ان کی زبان کا سٹائل، تشبیہات اور استعارے بے مثال ہیں۔ وہ شاعری میں یقین نہیں رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نثر میں شاعرانہ اظہار نہیں ملتا ہے۔ وہ سیدھے سادے الفاظ میں بلیغ استعاروں اور تشبیہوں کے ساتھ اپنے مانی الضمیر کو بیان کرتے ہیں۔ جس طرح ان کے موضوعات زندگی سے قریبی تعلق رکھتے ہیں اسی طرح ان کی زبان اور ان کی استعمال کی ہوئی تراکیب نادر ہیں اور اپنے موضوع کے ساتھ قریبی تعلق رکھتے ہیں۔‘‘
محمد ایوب بیتاب کا خیال ہے کہ برج پریمیؔ کو کشمیر سے عشق تھا مگر انھیں کشمیر، سیاسی صورتِ حال کی وجہ سے چھوڑنا پڑا۔ اس جدائی نے ان کے غم میں اضافہ کیا اور یہ فراق اس کو اندر ہی اندر کھا گیا ہے۔ ایوب بے تاب لکھتے ہیں:
’’پریمی صاحب کی ناساز طبیعت ٹھیک بھی ہو جاتی لیکن پھر کشمیر کے حالات نے ایک نازک تریں رُخ اختیار کیا۔ پریمی صاحب کو ترکِ وطن کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ ایک تو ویسے ہی حساس آدمی تھے پھر ناساز طبیعت میں وہ ترکِ وطن برداشت نہ کر سکے۔ وہ جموں آگئے اور یہاں آکر اپنی جیون لیلا پوری کر دی۔‘‘
نذیر احمد نظیر نے ایک شعر برج پریمیؔ کو پیش کیا ہے:
بھرم بھی ٹوٹ گیا، تھک گئی نظر بھی نظیر کہیں ملے نہ ہمیں چاند کے مکیں چہرے
ڈاکٹر شفق سوپوری بھی ان کا بڑا دلکش خاکہ کھینچتے ہیں۔ پورا مضمون پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے مگر آخری جملے میں دل رکھ دیا ہے… ایمہ (برج پریمیؔ) صاحب اب ہم میں نہیں رہے۔ میرا دل بیٹھ گیا اور دل سے بے تحاشا نکلا’’آج نہ جانے کتنے لوگ یتیم ہوگئے‘‘ یہ ان کی انسانی عظمت کو سلام ہے۔ ڈاکٹر فریدہ کول نے کہا’’اُردو دنیا ایک ایماندار اور باوقار نقاد سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئی۔‘‘
اونکار سنگھ آوارہ گلیری، ڈاکٹر وی پی سوری، پروفیسر محمود ہاشمی لندن، پروفیسر قمر رئیس، کشمیری لال ذاکر، موتی لال ساقی، ڈاکٹر صابر آفاقی، بنسی نردوش، پروفیسر سلیمان اطہر جاوید، ڈاکٹر تہمینہ اختر، ڈاکٹر منظور احمد سب نے اپنے اپنے طور پہ ان کو اپنی دوستانہ محبت اور علمی اور ادبی خراجِ عقیدت پیش کیا۔
محمود ہاشمی لندن والے…کشمیر اداس ہے کے مصنف’’جلوۂ صد رنگ‘‘ کی تعریف کرتے ہیں۔ صاحبِ مضمون صرف انھیں نقادوںکو شامل کرنا چاہتے ہیں جو ریاست کے جغرافیائی حدود کے اندر رہ کر کام کرتے رہے۔‘‘ کہ وہ اُردو پہ کشمیر میں کام کرنے والوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہتے تھے۔
ڈاکٹر صابر آفاقی نے صد رنگ کے جلوؤں سے برج پریمیؔ کے رنگ کو بکھرتے ہوئے محسوس کیا۔ ڈاکٹر سوری کا یہ شعر بھی پسند آیا:
ہم سے کیوں بھاگ گئے دور غزالوں کی طرح ہم نے چاہا ہے تمہیں چاہنے والوں کی طرح
آخر میں، میں یہ کہنا چاہوں گی کہ پریمی رومانیؔ کی اس محبت سے ترتیب دی ہوئی کتاب کو میں نے اسی قدر و منزلت کے ساتھ پڑھا اور تبصرہ کیا اور اس کتاب سے حاصل کردہ روشنی میں، میں چاہوں گی کہ برج پریمیؔ کی باقی ماندہ کتابوں کو بھی تالیف اور اشاعت کی منزل تک پہنچایا جائے، تاکہ مجھ جیسے پیاسے قاری ، علم سے پیاس بجھا سکیں۔ اس کتاب میں دو مرثیے بھی ہیں اور برج پریمیؔ کے قدر دانوں نے اپنے اپنے انداز میں ان کے فن اور اخلاق و مروت کا اعتراف کیا ہے۔ اور میرے اس مضمون کو پڑھ کرڈاکٹر پریمیؔ رومانی کی کتاب ’’برج پریمی فن اور شخصیت‘‘ کو پڑھنے کی خواہش بڑھے گی۔ اور مختصراً برج پریمیؔ کا تعارف بھی ہوگا۔

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا