بے سہارا خواتین ‘ نقار خانے میں طو طی کی آواز

0
0

شگفتہ خالدی
بلا شبہ مسلم مرد اور مسلم عورتیں‘مومن مرد اور مومن عورتیں‘اطاعت گذار مرد اور اطاعت گذار عورتیں،اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور اپنی شرم گاہوں کو حفاظت کرنے والی عورتیں‘اللہ کو کثرت سے یاد رکرنے والے مرد اور اللہ کو یا د رکھنے والی عورتیں ان کے لئے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے(سورہ احزاب آیت ۵۳) قرآن میں جگہ جگہ سچے اور مطلوب مسلمان کی صفات موقع اور محل کے لحاظ سے بیان کی گئی ہیں اور ظاہر سی بات ہے یہ صفات جس طرح مسلم مرد کی ہیں ٹھیک اسی طرح مسلم خاتوں کی بھی ہیںاس لئے خواتین اسلامی معاشرے کا نصف اور مساوی حصہ ہیں عورت وہ مبارک ہستی ہے جس کی گود میں قومیں پلتی بڑھتی اور ترقی کرتی ہےں۔تمہارے ہی دم سے ہی دنیا کی رونق ہے ۔نےز زندگی کی ساری خوشیاں تمہاری ذات سے وابستہ ہےں تم کبھی ماں ہو، کبھی بہن کبھی بےٹی اور کبھی بیوی۔ہم یہ حقیقت فراموش بھی نہیں کر سکتے کہ ان مختلف رشتوں میں خواتین نہایت اچھے ڈھنگ سے اپنے فرائض انجام دےتی ہےں ۔بڑی بڑی شخصیات انہی کے بطن سے پےدا ہوئیں ۔لےکن اس کے باوجود عورت ذات ہمےشہ مظلوم رہی ہر زمانے میں عورت ذات کوذلیل کیا گیا۔ اُسے منحوس سمجھا گیا۔ لےکن قلب سلیم رکھنے والے لوگوں کے لئے یہ اےک بڑا لمحہ فکریہ ہے کہ آخر یہ صنف نازک اتنی مجبور و مقہور کیوں ہے ؟۔ اسے بازاروں کی زینت بن کر ہاتھ پھےلا کر بھیک مانگنا پڑتا ہے۔ کم سن بچیوں سے لےکر معمر خواتین دو وقت کی روٹی اور بچوں کی کفالت کے لئے دفاتر کے اندر گھُس کر اپنی بے بسی کا رونا رو کر ہاتھ پھےلاتی ہےں اور سماج کے کم ظرف لوگ انکی غربت و مفلسی کا فائدہ اٹھا کر ان کا طرح طرح سے استحصال کرتے ہےں۔ حکومت کی ناقص پالیسی کی وجہ سے ان بے سہارا خواتین کا گراف بڑھتا جاتا ہے۔ لےکن افسوس کا مقام ہے کہ ریاست کی حکمران جماعت خواتین کے اس بے کس طبقہ کو سہارا دےنے سے قاصر ہے۔
معاشرے کے کمزور اور پسماندہ طبقات کے لئے دین اسلام رحمت بن کر آیا نیز رحمت عالم ﷺ نے اس کی عملی صورت پیش کرکے اور آپ ﷺ کے پیارے صحابہ نے اس نقش قدم پر چل کر دنیا کو ایک نیا احساس کرایا ۔اس سے قبل دنیا میں کمزور طبقات خصوصاً خواتین کی حالت بہت ہی بری تھی ۔ان کے لئے خیر کی سوچ شاید ہی کسی دل میں ہو ۔لیکن اسلام نے ساری جاہلیت کی رسموں کو ختم کرکے عورت کو برابر اور کہیں مردوں سے زیادہ حقوق دے کر اور اس کی ادائیگی کی تاکید کرکے اس نصف آبادی پر احسان عظیم کیا ہے ۔ایک توعورت پہلے سے ہی کمزور اور معاشرے سے نظر انداز کی گئی مخلوق ہے ۔اور اگر وہ یتیم ہے اور بھی قابل رحم حالت میں ہوتی ہے ۔لیکن اسلام کی رحمت کے سائے میں اس کی محرومیاں ختم ہوئیں ۔اس کے قدموں میں جنت کی بشارت دی گئی۔یتیم کے تعلق سے تو اسلام اتنا حساس ہے کہ کلام الٰہی میں جگہ بجگہ یتیم کے ساتھ بہتر سلوک کرنے اور اس کے مال و اسباب کی حفاظت کرنے اور اس کے عوض میں جنت کی بشارت اور اس سے پہلو تہی کرنے کی پاداش میں جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔
آج تک جتنی بھی حکومتیں آئیں کسی نے ان یتیم بچیوں کا خیال نہیں کیا ۔ موجودہ حکومت نے اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ حکومت یتیم بچیوں کے لئے اےک پر امن ماحول قائم کرنے کو یقینی بنائے گی تاکہ یہ بچیاں زندگی میں کامیابیاں حاصل کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ان بچیوں کو بااختیار بنانے کے لئے انہیں تعلیم کی دولت سے مالا مال کرنا ہوگا ۔انہیں زندگی کے چےلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اخلاقی مدد دےنی چاہئے۔ لےکن یہ تب ہی ممکن ہو سکے گا جب ان دعووں پر مخلصا نہ عمل ہوگا۔ ورنہ سیاسی سطح پر ہمےشہ سے حکومت نے جانبدارانہ رول ادا کیا اور یہی وجہ ہے کہ اےسے بے سہارا بچے اور نوجوان لڑکیاں یہاں تک کہ معمر خواتین ہر نکڑ ہر گلی اور سڑک کے چوراہے پر بھیک مانگتی نظر آتی ہیں۔ اتنا ہی نہیںسِن بلوغت میں

قدم رکھنے والی لڑکیاں جب غربت اور مفلسی میں اپنے والدےن پر بوجھ بنتی ہیں تو ہاتھوں میں مہندی رچانے کے بجائے وہ خود سوزی کا راستہ اختیار کر لےتی ہےں۔ کیونکہ غربت و مفلسی اور لالچ سماجی برائیوں کو جنم دےتی ہےں۔ افسوسناک پہلو ہے کہ جموں و کشمیر میں ۵۲ فیصد لڑکیاں مفلسی کے دلدل میں پھنس کر منشیات کی عادی ہو چکی ہےں۔ غریب والدےن جب اپنی بچیوں کا نکاح کرکے انہیں سسرال روانہ کر تے ہےںتو ان کا دل انجانے خدشات کا شکار رہتا ہے اور کبھی یہ خدشہ حقیقت کا رخ بھی دھار لیتا ہے ۔وہ خدشہ ہے سماج میں ناسور کی شکل اختیار کرلینے والے لالچی افراد کی جہیز کی بھوک جو کبھی نہیں مٹتی۔اس جہیز کی بھینٹ کتنی دو شیزائیں چڑھ چکی ہیں ۔ اس سے بڑا المیہ ہماری ریاست کے لئے
اور کیا ہو سکتا ہے یہاں کی حکومت اگر اس معاملے میں متحرک ہوتی تو سماجی ناسور کب کا ختم ہو چکا ہوتا ۔یا وادی کے یہ بے سہارا یتیم بچے اور بچیاں اپنی چھت کے نیچے عزت کی زندگی گذارتے جو کام حکومت کی ذمہ داری تھی ۔اُس کام کو وادی کے غیر سرکاری رضاکار ادارے انجام دےتے ہےں انہوں نے ان بے سہارا اور یتیم بچوں کے لئے یتیم خانوں کی بنیاد ڈالی ہے جہاں اےسے ہزاروں معصوم بچے باعزت زندگی گذارتے ہےں۔ ضروریات زندگی کے ساتھ بہتر تعلیم کے نور سے منور ہوتے ہےں۔ اگرچہ اس کام کو اےسے غیرسرکاری ادارے خوش اسلوبی سے انجام دےتے ہیں تو حکومت کا یہ اولین فرض تھا کہ انکی اس معاملے میں معاونت کرتی کیونکہ حکومت کے پاس بہت سے وسائل ہیں۔ اس بات کی عکاسی کی جائے تو اس طرح کا رحجان خالص ریاست جموں و کشمیر تک ہی محدود ہے ۔جہاں بے کس لوگ دوسروں کے آگے ہاتھ پھےلانے کے لئے مجبور ہو جاتے ہےں ۔ یہی سبب ہے کہ ریاست جموں و کشمیر بھیک مانگے کا مرکز بن گیا ہے ۔جس کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں غےر ریاستی بھکاریوں نے بھی اب اپنا جال پھےلا رکھا ہے۔ اس حساس معاملے پر سیاسی و غےر سیاسی سطح پر غورو فکر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے کہ اےسا رحجان
خالص ریاست جموں و کشمیرمیں زیادہ ہے ریاست سے باہر اس طرح کا رحجان کم دےکھنے کو ملتا ہے۔ چندی گڈھ کا تذکرہ اگر کیا جائے وہاں بھیک مانگے والوں سے لےکر دےنے والوں تک پر قانون کی نظر رہتی ہے ۔وہاں کوئی ہاتھ پھےلائے دکھائی نہیں دےتا ہے۔ اسکی وجہ ہے وہاں کی حکومت اس معا ملے میں متحرک ہو چکی ہے۔ انہوں نے اےسے بے سہارا اور بے کس لوگوں کے لئے پور فنڈ قائم کیا ہے جس میں ٹراول کرنے والوں کے ساتھ ساتھ عام پبلک نے اےک اےسا ماحول قائم کیا ہے کہ وہ حکومت کے اس اقدام پر خوش اسلوبی سے اس پور فنڈ میں رقومات جمع کرتے ہےں ۔جو ان بے سہارا لوگوں کی ضروریات کو پورا کرتے ہےں تو ریاست جموں و کشمیر کی حکومت اس طرح کے اقدامات اٹھانے میں معذوری کیوں دکھاتی ہے۔ انہیں بھی اس طرح کا سنٹر قائم کرنا چاہئے جو بے سہارا اور یتیم بچوں کے فلاح و بہبودی کے لئے ہو
۔ اگرچہ حکومت نے شروعات میں اس طرح کے اقدامات اٹھا کے آسرا اسکیم بنانے اور اسے لاڈلی بےٹی کا نام دے کر بچیوں کی ضروریات کو پورا کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ لےکن ابھی تک اس سلسلے میں کوئی ٹھوس شواہدشواہد نہیں ملے کہ اسطرح کی کوئی اسکیم بن کر عوام کے لئے موثر ثابت ہوئی ہے۔ اسی لئے ریاستی حکومت میں بر سر اقتدار بحیثیت اےک خاتون سربراہ ہے کو یہ ذہن نشیں رکھنا ہوگا کہ خواتین کو بااختیار بنانا انہیں ہر ہر مراحل میں تحفظ دےنا کتنا لازمی ہے۔ انہیں اس بات کا اندازہ اننت ناگ کے حلقہ انتخاب کے اس الےکشن میں ہوا ہوگا جس میں خاتون وزیر اعلیٰ کی حمایت میں خواتین نے اپنے ووٹ کا استعمال کرکے اپنے جذبات کا برملا اظہار کیا ۔ انہوں نے اسی لئے اپنا ووٹ محبوبہ مفتی کو دیا تاکہ وہ ان کے جائز حقوق انہیں دینے میں کسی پس وپیش سے کام نہ لیں۔اور یہ حق اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ انہیں معاشرے میں باعزت زندگی گذارنے اوران کے تحفظ اور ان کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے۔یقینا وادی کی خواتین ووٹر نے انہیں اسی عزم کے ساتھ ووٹ دیا ہے ۔امید ہے کہ محبوبہ مفتی اپنی خواتین ووٹر کے اس
یقین کو عملی جامہ پہنا کر حوصلہ مندانہ اقدام کے لئے ایک سنگ میل کی بنیاد ڈالیں گی۔

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا