16سے20اپریل کے درمیان جارحیت کا امکان
کشمیریوں کی پر امن جد و جہد کاساتھ دیا اور مستقبل میںبھی جاری رکھیں گے
لازوال ڈیسک
اسلام آبادوزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے آنے والے دنوں میں بھارت کی جانب سے ایک اور جارحیت کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ بھارت کی جانب سے 16 سے 20 اپریل کے درمیان جارحیت کا امکان ہے۔ملتان میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہمارے پاس معتبر انٹیلی جنس ہے کہ بھارت ایک نیا منصوبہ تیار کر رہا ہے جس کے تحت پاکستان پر ایک اور جارحیت کا امکان ہے اور 16 سے 20 اپریل تک کارروائی کی جا سکتی ہے۔انہوں نے کہا کشمیریوں کی پر امن جد و جہد کاساتھ دیا اور مستقبل میںبھی جاری رکھنے کا اعلان کیا۔پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمواد قریشی نے اتوار کو ملتان میں ایک ہنگامی پرس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ بھارت پاکستان پر ایک اور حملہ کرنے کے تاک میں ہے انہوں نے بتایا انٹیلی جنس کے معتبر ذرائع سے ملی جانکاری کے مطاابق بھارت 16 سے 20 اپریل تک کارروائی کر سکتا ہے ۔انہوںنے پرس کانفرنس میں بتایا’میں ذمے داری سے بات کر رہا ہوں، مجھے معلوم ہے کہ میرے پاس ایک ذمے دار عہدہ ہے اور میرے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ وہ عالمی میڈیا کی زینت بنیں گے، ہمارے پاس اس وقت معتبر انٹیلی جنس ہے کہ بھارت ایک نیا منصوبہ تیار کر رہا ہے، اس کی پلاننگ ہو رہی ہے اور پاکستان پر ایک اور جارحیت کا امکان ہے اور ہماری اطلاعات کے مطابق 16 سے 20اپریل تک یہ کارروائی کی جا سکتی ہے‘۔انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے ایک نیا ناٹک رچایا جا سکتا ہے اور کشمیر میں پلوامہ جیسا ایک اور نیا واقعہ رونما کیا جا سکتا ہے اور اس کا مقصد اس حملے کی آڑ میں پاکستان پر سفارتی دباو¿ بڑھانا اور اپنی عسکری کارروائی کا جواز دینا ہے۔شاہ محمود نے کہا کہ ایک انتہائی خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہے اور اگر خدانخواستہ ایسا ہوتا ہے تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ خطے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟۔ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال اور مصدقہ اطلاعات کو سامنے رکھتے ہوئے دفتر خارجہ نے فی الفور فیصلہ کیا کہ سیکیورٹی کونسل کے مستقل اراکین کے سفرا کو اسلام آباد میں مدعو کریں اور آج سے 2 دن قبل سیکریٹری خارجہ نے سیکیورٹی کونسل کے پانچوں مستقل اراکین کو دفتر خارجہ میں دعوت دے کر انہیں اپنی تشویش سے آگاہ کیا کہ پاکستان کے خلاف اس طرح کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ عالمی برادری اس غیر ذمے دارانہ رویے کا نوٹس لے کر بھارت کی تنبیہ کرے کہ وہ اس راستے پر نہ چلے۔انہوں نے کہا کہ میرے علم میں یہ بھی ہے پلوامہ واقعے کے بعد جب 26 فروری کو بھارت کی جانب سے جب پاکستان کے خلاف جارحیت کی جاتی ہے، پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی جاتی ہے اور 1971 کے بعد پہلی مرتبہ لائن آف کنٹرول کو عبور کرتا ہے تو اس وقت بہت سے ذمہ دار ممالک خاموش رہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عالمی ممالک یہ جانتے تھے کہ بھارت نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی، یہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی تھی لیکن اس کے باوجود وہ خاموش رہے، ایسا نہیں کہ ہمیں خاموشی کی وجوہات کا علم نہیں، جیو پولیٹکس خاموشی کی وجہ بن رہی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی برادری کو اس خطے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے خاموش نہیں رہنا چاہیے، اگر وہ خطے میں امن و استحکام چاہتے ہیں تو وہ خاموش تماشائی نہیں رہ سکتے، انہیں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور کردار ادا کرنا ہو گا۔قریشی کا کہنا تھا کہ میں آپ کی وساطت سے یہ پیغام دینا چاہوں گا کہ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کی پر امن اور سیاسی جدوجہد کو سراہا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ان کا حق ہے کہ جس بے دردی سے انہیں کچلا جا رہا ہے اور اگر وہ آواز اٹھائیں گے تو پاکستان ان کا ساتھ دیتا رہا ہے اور ساتھ دیتا رہے گا، ہم متاثرین کے ساتھ تھے اور ہیں۔شاہ محمود کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم اس پروپیگنڈے اور پلوامے کے ذریعے اپنی مقبولیت میں جو اضافہ چاہتے تھے وہ تو الٹی پڑ گئی اور آج اس تشویش کا سامنے رکھتے ہوئے ہماری اطلاعات ہیں کہ وہ نئی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور یہ بہت خطرناک بات ہے اور ہمیں ایک نئی جارحیت کا خدشہ ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنی اس اطلاع کو شیئر کریں گے، عالمی برادری کو آگاہ کریں گے، ان کے عزائم کو بے نقاب کریں گے اور پاکستانی عوام کو باخبر رکھیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ پلوامہ حملے سے پہلے اور پلوامہ حملے کے بعد لائن آف کنٹرول پر مسلسل فائرنگ جاری ہے، مسلسل اشتعال انگیزی کی جا رہی ہے اور پاکستان بہت بردباری سے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ اگر پاکستان پر کوئی جارحیت کرتا ہے، پاکستان کو نشانہ بناتا ہے تو قوم کی توقعات اور عالمی قانون کے مطابق ہمیں اپنے دفاع کا مکمل حق ہے اور ہم اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔