محبت کی انتہاء

0
0
از شہباز رشید بہورو
محبت  ایک ایسی چیز ہے جو انسان کے وجود کے اندر عقل و فہم اور احساسات و جذبات  کو متاثر کر کے  اسے عمل کرنے پر مجبور کرتی ہے۔محبت ایک مختلف الجہت entity ہے، جس کاانسانی فطرت میں اس کے وجود کے حصہ کے اعتبار سےجزولاینفعک کی حیثیت رکھتا ہے ۔اگر اس مخصوص تناظر میں یہ کہا جائے کہ فطرت محبت ہے اور محبت فطرت ہے تو کوئی غیر موزوں بات نہیں ہوگی۔محبت اللہ تعالیٰ کا ایک تحفہ ہے جو ایک انسان کو عطا کیا گیا ہے۔یہ تحفہ کس کی طرف پھیرا جائے تو یہ ایک انسان کی زندگی کے فیصلوں میں نہایت اہم اہمیت رکھتا ہے۔کئی لوگ اس محبت کی حرارت سے اپنی دنیا کے مختلف شعبوں میں سرگرم رہا کرتے ہیں جیسے کسی کی محبت کا مرکز صرف درہم و دینار ہوتا ہے، کسی کا اولاد ہوتی ہے ،کسی کا منصب ہوتا ہے، کسی کا بیوی ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ ۔غرضیکہ ہر کوئی اپنی محبت کا ایک مصرف رکھتا ہے۔ان محبتوں کی تہہ میں انسان کی کئی دنیاؤی اغراض ضرور اٹکی رہتی ہیں۔جو اغراض اس کے جذبہ محبت کو مزید قوی کرتی ہیں ۔مذکورہ تفصیل تو ایک عام قاعدہ ہے محبت کا لیکن اس عام قاعدہ سے ہٹ کر محبت کی ایک غیر معمولی نوعیت بھی ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہئے تاکہ انسان اس کو اپنی محبت جانچنے کے لئے standard کے طور پر لے۔محبت کی اس قسم میں دنیاوی اغراض و مقاصدمفقود ہوتے ہیں، ایسی محبت بس انسان کی روح پر منعکس ہوتی ہے جو اسے ایسے افعال کا فاعل بناتی ہے کہ تاریخ انسانی میں وہ ضرب المثل بن جاتے ہیں۔ایسی محبت جو مادی دنیا سے ہٹ کر اپنی غذا روحانی عالم سے حاصل کرتی ہے ناقابل شکست قوت بن جاتی ہے۔اگر پوری دنیا کے لوگ اس قسم کی محبت میں گرفتار انسان کو اس سے دور کرنا چاہیں تو وہ لا محالہ ناکامی کا منھ لے کر ہار جاتے ہیں ۔ایسی محبت کا نمونہ صحابہ کی زندگی میں نظر آتا ہے کہ اپنے رسولؐ کی محبت میں اپنے ماں باپ، بھائی بہن، اولاد، رشتہ دار اور وطن کی محبت کو خیر باد کہا بلکہ اس محبت کی انتہاء کو پہنچ گئے جہاں پر اپنی جان کو بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کیا۔اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر رسول اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی۔حضرت بلال رضی اللہ عنہ پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے، حضرت خباب بن الارت کو انگاروں پر لٹایا گیا ، مصعب بن عمیر رضی اللہ علیہ عنہ کو گھر سے نکال دیا گیا، حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کو سولی پر لٹکایا گیا اور بھی بے شمار واقعات ہیں جو صحابہ کی اس غیر معمولی محبت کا نقشہ کھینچتے ہیں لیکن اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ان کے دلوں سے نہ نکالی جا سکی۔اپنے رسول سے محبت طبعی محبت کی حدود سے بالاتر ہو کر ایک انقلاب کی نوید بن گئی تھی۔ایک حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہ ہو گا جب تک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہو جائے۔”
اسی محبت کے حوالے سے ایک مشہور و معروف واقعہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے ہجرت کی تو آپ کے ہمراہ حضرت ابوبکر صدیقؓ تھے ۔غار ثور پہنچ کر حضرت ابوبکرؓ نے کہا "خدا کے لئے ابھی آپ صلی الله عليه وسلم اس میں داخل نہ ہوں ۔پہلے میں داخل ہو کر دیکھ لیتا ہوں، اگر اس میں کوئی چیز ہوئی تو آپ کے بجائے مجھے اس سے سابقہ پیش آئے گا۔چناچہ حضرت ابوبکرؓ اندر گئے اور غار کوصاف کیا ۔ایک جانب چند سوراخ تھے ۔جنہیں اپنا تہ بند پھاڑ کر بند کیا  لیکن دو سوراخ باقی بچے ۔حضرت ابوبکرؓ نے ان دونوں پر اپنے پاؤں رکھ دئے۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی  کہ اندر تشریف لائیں ۔آپ اندر تشریف لے گئے اور حضرت ابوبکر صدیقؓ  کی آغوش میں سر رکھ کر سو گئے ۔ادھر ابوبکرؓ کے پاؤں میں کسی چیز نے  ڈھس لیا مگر اس ڈر سے ہلے بھی نہیں کہ رسولؐ جاگ نہ جائیں ۔لیکن ان کے آنسو رسولؐ کے چہرے پر ٹپک گئے  اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھل گئی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوبکرؓ تمہیں کیا ہوا؟  عرض کی میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان! مجھے کسی چیز نے ڈس لیا ہے۔رسولؐ نے اس پر لعاب دہن لگایا اور تکلیف جاتی رہی۔”
سیرت کی کتب میں محبت کے بے شمار واقعات ہیں جو ایک مومن کی محبت کو طولانی بخشتے ہیں ۔رسولؐ کی محبت میں حضرت ابوبکرؓ کا یہ جاں نثارانہ عمل ایک عجیب و غریب واقعہ کو تاریخ میں مقام عظمت بخشتا ہے ۔تاریخ ایسی جاں نثاری کے نمونے پیش کرنے سے قاصر ہے۔حضرت ابوبکرؓ کا اس معصومانہ انداز سے خاموش رہنا اور آنکھوں سے درد کی وجہ سے آنسوں جاری ہونا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف نہ پہنچے ان کی بے مثال محبت کا آئنہ دار ہے۔ایک  عام غیر مسلم بھی اگر بلا تعصب ان واقعات کو پڑھتا ہے تو اس کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسوں جاری ہوتے ہیں یا ایک ذہین و فہیم غیر مسلم اس جیسے واقعات کا مطالعہ کرتا ہے تو حیرت و استعجاب سے بھر جاتا ہے اور سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ اس بے پناہ محبت کے پیچھے وہ کون سا مقصد ان حضرات کے پیش نظر تھا جس کے لئے انہوں نے اس عظیم شخصیت کے لئے اپنی جانیں تک قربان کر ڈالیں۔تحقیق کرنے کے بعد وہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ یہ شخصیت ہی ایسی باکمال اور بے مثال ہے کہ اس کے ساتھ محبت اپنی تمام مدارج کو طے کر کے انتہاء کی منزل تک پہنچتی ہے۔
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا