*فریب کاربہت ہیں کچھ اور چھانٹ ابھی*

0
0
 
ثاقب رفیق ,سنت کبیر نگر, یوپی
مکرمی! پارلیمانی انتخاب کا بگل بجنے کے بعد انتخابی ضابطہ اخلاق بھی نافذ ہوچکا ہے، تمام سیاسی پارٹیاں اقتدار کی کرسی تک پہنچنے کے لیے بے چین و بے قرار ہیں۔
دیکھنا یہ دلچسپ ہوگا کہ ایک طرف نفرتوں کے بوئے گئے بیج سے اگنے والی فصلیں، اور دوسری طرف امن و یکجہتی اور جمہوریت کے لگائے گئے درخت اور پودے، سیاست کی تیز و تند اور سرکش آندھیوں میں کون اپنے تنوں پر قائم رہتا ہے اور کون ان طوفانوں سے آنکھیں ملانے کی تاب نہ لاکر جڑوں سمیت اکھڑ کر زمین میں بے وقعت اور شکست خوردہ ہوکر بکھر جاتا ہے۔
ٹکٹوں کی تقسیم کا سلسلہ جاری ہے، امید وار اپنے ناموں کا اعلان کیے جانے کے بعد اپنے کو ایمان دار، عوام کا ہمدرد، ملک کا محب وطن ثابت کرنے میں کوئی بھی دقیقہ فروگزاشت نہیں کررہے ہیں… 
افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ پارٹیاں جو مسلمانوں کی حمایت کرنے اور ساتھ دینے کا راگ الاپتی تھیں، دہلی کے چند حلقوں میں مسلمانوں کی تعداد فیصلہ کن ہونے کے باوجود بھی، کسی مسلم امیدوار کو ٹکٹ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
یوپی کی اگر بات کی جائے تو ایس پی اور بی ایس پی گٹھ بندھن بہتر تو تھا, مگر گانگریس اور دیگر علاقائی پارٹیوں کے عدم شمولیت کی وجہ سے کئی سیٹوں پر خطرات کے بادل منڈلانے لگے ہیں، 
مراد آباد سے کانگریسی امیدوار عمران پرتاپ گڑھی اور سپا سے کمال اختر میدان میں طبع آزمائی کے لیے تیار ہیں، سہارنپور اور ڈومریاگنج حلقے سے دو دو مسلم امید واروں کا میدان میں اترنا بھی تقریباً طے ہو چکا ہے، تو اس اعتبار سے ووٹوں کا تقسیم ہونا بھی تقریبا طے ہوچکا ہے۔
جس کا فائدہ یقینی طور پر بی جے پی جیسی زعفرانی رنگ کی سیاست کرنے والی پارٹی بآ سانی اٹھانے کی کوشش میں ہوگی۔ مزید بدبختی ہوگی اگر اور بھی سیٹوں پر ایک سے زائد مسلم امیدواروں کو کھڑا کرکے متحد ووٹوں کومنتشر کر دیا جائے !
بہار کی کشن گنج سیٹ سے بی جے پی نے واحد مسلم امیدوار کو میدان میں اتار کر مسلمانوں کو یرغمال بنانے کی کوشش کی ہے، دیگر پارٹیوں کی طرف سے اس سیٹ پر کسی اور مسلم کینڈیڈیٹ کے آنے کے بعد ووٹوں کو منتشر کرنے کی گندی سیاست بروئے کار لائی جائے گی۔
وہیں دوسری طرف بہار میں آرجے ڈی، کانگریس اور دیگر پارٹیوں کا گٹھ بندھن یقینا سیکولر ذہنیت رکھنے والے اور بالخصوص اقلیتوں کے لیے سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔
لالو یادو کی پارٹی آر جے ڈی جسکی باگ ڈور بروقت ان کے بیٹے تیجسوی یادو کے ہاتھوں میں ہے، توقع ہے کہ یہ پارٹی چار سے پانچ مسلم امیدواروں کو میدان میں اتار کر مسلمانوں کو مزید اعتماد میں لینے کی کوشش کرے گی، کانگریس کی طرف سے بھی دو یا تین مسلم امیدواروں کے میدان میں اترنے کی امید  ظاہر کی جارہی ہے، جو یقینا مسلمانوں کے لیے خوش آئند ہے، اس لیے کہ بہار کی کئی سیٹیں کشن گنج، مدھوبنی، کٹیہار اور دربھنگہ وغیرہ، ایسی ہیں
جس میں مسلم ووٹوں کی تعداد کسی بھی امیدوار کے حق میں فیصلہ کن ہوا کرتی ہے… 
بس ضرورت اس بات کی ہے کہ باہمی مشورے سے ایک اجتماعی رائے اور فیصلہ قائم کیا جائے, تاکہ اسی کے مطابق ہم اپنے قیمتی ووٹوں کا استعمال کر سکیں,فریب کاروں اور مسلمانوں کو ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرنے والے بہروپیوں سے محفوظ رہ سکیں!!!
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا