انیس سال سے انصاف کی بھیک مانگ رہے ہیں !

0
0

پتھری بل فرضی انکاﺅنٹرمیں مارے گئے افراد کے لواحقین ہنوز انصاف کے متلاشی
شاہ ہلال
اننت ناگ // پتھری بل فرضی انکاوئنٹرکے دوران عام شہریوں کے قاتلوں کو ترقیوں سے نوازنے پر لوگوں نے شدید غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 5عام شہریوں کی ہلاکتوں میں ملوث اہلکاروں کو گرفتار کرکے لواحقین کو انصاف فراہم کرنے کے تقاضے پورے کئے جائیں،اس دوران5جاںبحق شہریوں کے لواحقین اور دیگر لوگوں نے مقامی قبرستان سے احتجاجی مارچ کرنے کے بعد مہلوکین اور دیگر مدفون افراد کے حق میں اجتماعی فاتحہ خوانی کی اور تقریب کا اہتمام کیاگیا اور قتل عام کے اس واقع کو بین الاقوامی ایجنسی کے ذریعے تحقیقات کرانے کا مطالبہ دہرایا گیا ۔ جنوبی ضلع اننت ناگ کے براری آنگن علاقہ میں پیر کے روز ایک مرتبہ پھر غم و اندوہ اور ناراضگی کے مناظر دیکھنے کو ملے کیونکہ 19سال قبل آج کے ہی دن یعنی25مارچ 2000کو فوج نے ایک فرضی جھڑپ کے دوران 5عام شہریوں جن میں ظہور احمد دلال،عبدالرحمان ترکھان،80سالہ جمہ خان اور 25سالہ جمہ خان کو جاں بحق کردیاتھاجبکہ انہیں جنگجو قرار دیکر فوج نے تب یہ دعویٰ کیا تھا کہ مارے گئے لوگ چٹھی سنگھ پورہ میں سکھوں کے قتل عام کے واقعہ میں ملوث تھے۔سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے دور میں ہوئی ان شہری ہلاکتوں کے خلاف زوردار احتجاجی مظاہرے کے گئے تھے،جس کے بعد سخت عوامی دباﺅ کے نتیجے میں جاں بحق کئے گئے5شہریوں کی نعشوں کو قبروں سے باہر نکالا گیا اور اُنکی شناخت سے یہ بات سامنے آئی کہ ان میں سے کوئی ایک بھی جنگجویا جنگجویانہ سرگرمیوںمیںملوث نہیں تھا،مرکزی تفتیشی ایجنسی سی بی آئی نے اپنے ابتدائی تحقیقات کے بعد یہ واضح کیا کہ 25مارچ 2000کو پتھری بل براری آنگن میں فوج کے 7راشٹریہ رائفلز اور جموں و کشمیر پولیس کی مشترکہ کاروائی میںجو5شہری مارے گئے تھے وہ سبھی بے گناہ شہری تھے۔سی بی آئی نے اپنی تحقیقات میں ریاستی پولیس کے اس وقت ایس ایس پی اننت ناگ فاروق احمد خان کے علاوہ دیگر کئی پولیس افسروں کی طرف بھی اُنگلی اُٹھائی،سی بی آئی کی طرف کی گئی تحقیقات کے بعد شہری ہلاکتوں کے حوالے سے ایک رپورٹ بھی مرتب کی گئی جس میں سی بی آئی نے فوج کے کئی آفسروں کو بھی ملزمان کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا،لیکن پتھری بل سانحہ نے ماہ جنوری 2014کو اُس وقت ایک نیا موڑ لیا جب فوجی عدالت نے 5شہریوں کی ہلاکت میں ملوث تمام فوجی آفسران کو کلین چٹ دیتے ہوئے کیس کی فائل اور سماعت بند کر دی مگرمتاثرین ابھی بھی ہمت نہیں ہارچُکے ہیں،بلکہ 19سال گذرجانے کے باوجود بھی وہ انصاف کے جنگ لڑنے کاحوصلہ رکھے ہوئے ہےں۔واضح رہے اس سانحہ کے ایک اہم گواہ اور رشید خان نے کہا’فوج نے پہلے ہی اپنے آفسروں کو کلین چٹ دی جو اس واقعہ میں ملوث تھے لیکن ہم انصاف کیلئے لڑتے رہےں گے‘۔رشید خان کا باپ جمہ خان جو پیشہ سے ایک مزدور تھا اور پتھری بل فرضی جھڑپ میں مارے گئے ان عام شہریوں میں سے ایک تھا۔جنہیں فوج نے جنگجو جتلایا تھا۔ تاہم قبر کشائی کے بعد حقائق سامنے آگئے اور اب وہ لوگ 19سال سے انصاف کی بھیک مانگ رہے ہیں ، سرکاری بدلتی رہی لیکن انصاف نہیں ملا اور جب تک زندگی ہے انصاف کی بھیگ مانگتے رہے گئے اُن کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اس واقع کی تحقیقات کسی بین الاقوامی ایجنسی کے ذریعے کیا جائےجمہ خان کا معاملہ 5مارے گئے شہریوں کے معاملے سے اس وجہ سے بھی منفرد ہے کیونکہ اس واقعہ کے ایک ہفتے بعد ہی اس کا چھوٹا بیٹا رفیق احمد خان جس کی عمر صرف16سال ہی تھی3اپریل 2000کو اس واقعہ کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے براگپورہ کے نزدیک پولیس و ٹاسک فورس کے ہاتھوںاندھا دھند فائرنگ میں مارا گیا تھا۔رشید نے کہا ان ہلاکتوں نے ہمارے دلوں پر جو زخم لگائے ہیں وہ 19سال گذرنے کے باوجود اب بھی تازہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان19سالوں کے دوران جن تکالیف کا سامنا کرنا پڑا وہ ناقابل بیان ہے،خان کے مطابق اگر چہ فوج کی طرف سے یہ کیس بند کرنے کے بعد وہ کافی مایوس ہوچکے ہیں لیکن ان کے یہ فیصلے کوئی حیرانگی کا معاملہ بھی نہیں تھا۔کیونکہ انہیں فوج سے یہی اُمید تھی،خان نے سوالیہ انداز میںکہاکہ ہم اُن سے انصاف کی اُمید کیا کریں جو اس جرم کاا رتکاب کر چکے ہیں ،لیکن تب بھی ہم ہمت ہارنے والے نہیں ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ وہ آج بھی اپنے عزیزوں کو یا د کررہے ہے اور فوج کو یہ باور کرانا چاہے گے کہ ہم اس سانحہ میں مارے گئے افراد کو نہیں بھولے ہیں۔خان کا کہنا ہے کہ فوج نے بھلے ہی دامن چھیڑ لیا ہو لیکن یہ ہمارے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے اور حقیقت سے یہاں سب واقف ہیں۔میں ۔ایک اور متاثرہ کا کہنا تھا کہ آرمی کورٹ نے فوجی اہلکاروں کو بری کردیا لیکن اُنہوں نے معاملہ ملک کی بڑی عدالت سپریم کورٹ میں لیا اوراگست2017سے وہ لوگ کورٹ کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں اور ہمیں توقع ہے کہ سپریم کورٹ متاثرین سے ضرور انصاف کرے گا۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا