اندرا عبداللہ ایکارڈخصوصی پوزیشن کو ختم کرانے کا سب سے بڑا سودا
کے این ایس
سرینگرپیپلز کانفرنس چیرمین سجاد غنی لون نے این سی نائب صدر عمر عبداللہ کو نئی دہلی کا سفیرقرار دیتے ہوئے کہا کہ موصوف نے ہمیشہ سے کشمیر میں نئی دہلی کے مفادات کی نمائندگی انجام دی۔ کشمیرنیوز سروس (کے این ایس) کے مطابق پیپلز کانفرنس کے چیئرمین سجاد غنی لون نے منگلوار کو کہا کہ عمر عبد اللہ اور ان کا خاندان کشمیر میں دلی کے سفیر ہیں اور جموں و کشمیر کی عوام کی بجائے وہ صرف نئی دہلی کے مفادات کی نمائندگی کرتے ۔پی سی چیرمین نے اس بات پر زور دیا کہ جموں و کشمیر میں نئی دہلی کی نمائندگی عبد اللہ اور ان کے خاندان کے لئے کبھی کوئی مسئلہ نہیں تھا، تاہم جب دہلی میں کشمیر اور اس کے مسائل کی نمائندگی کا معاملہ ہو تو معاملہ برعکس نظر آتا ہے۔ یہ لوگ ہمیشہ سے کشمیر میں دہلی کے سفیر رہے ہیں جبکہ انہوں نے دلی میں کبھی بھی کشمیر کی نمائندگی نہیں کی۔سجاد لون کا کہنا تھا کہ 1975میں تشکیل پاچکے اندرا عبداللہ ایکارڈ نے ریاست کی خصوصی پوزیشن کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔انہوں نے کہا کہ 1975 کا معاہدہ کشمیر کی تاریخ کا سب سے بدنام زمانہ معاہدہ تھا جس میں عبد اللہ خاندان نے اقتدار کی لالچ میںبہ آسانی جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کواپنے ذاتی مفادات کی عوض بیچ ڈالا۔ اقتدار اور کشیدگی کے درمیان طے پانے والا بدنام تجارتی معاہدہ جب شیخ عبد اللہ وزیر اعظم کے عہدے سے گرا کر بغیر کسی انتخابی مقابلہ کے وزیر اعلیٰ بنائے گئے، ریاست کی تاریخ میں کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے انجام دیا جانے والا سب سے زیادہ قابل اعتراض عمل تھا۔ وزیر اعلی کی حیثیت سے عہدہ سنبھالنا خصوصی حیثیت کا پہلا اور سب سے بڑا سودہ تھا جو یہ ثابت کرتا ہے کہ عبد اللہ خاندان شروع سے ہی ریاست میں نئی دہلی کی سفارت کاری انجام دے رہا ہے۔ماضی میں این سی اور کانگریس حکومتوں کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو نقصان پہنچانے کے حوالے سے سجاد لون نے بتایا کہ کانگریس کے ساتھ این سی کے اتحاد نے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کو مزید کمزور کیا جس میں دونوں پارٹیاں برابر کی شریک ہیں۔انہوں نے شیخ خانوادے کی خاندانی سیاست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل کانفرنس اس بات کی ایک کلاسک مثال ہے کہ جب اقتدار کو وراثتاًمنتقل کیا جاتا ہے تو عوام کے فلاح و بہبود کے بجائے ایک خاندان کے فائدے کے لئے اس کا غلط استعمال کس طرح کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں لوگوں کا حکومت سے اعتماد اُٹھ جاتا ہے۔کشمیرنیوز سروس کے مطابق پی سی چیرمین سجاد غنی لون نے بتایا کہ عمر عبد اللہ چڑچڑے ہو گئے ہیں کیوں کہ زمینی سطح پر ان کا متبادل اُبھر کر سامنے آ گیا ہے۔ جمہوریت کے حوالے سے ان کا خیال صرف ان کے اور محبوبہ مفتی کے درمیان موسیقی والا کرسیوں کا کھیل ہے – ایک ایسا منظر نامہ جس میں دونوں جماعتیں آرام سے رہتی ہیں۔ انہیں اٹھ کھڑا ہونا چاہئے اور اپنے خاندان کو یہ احساس دلانا چاہئے کہ دیر یا سویر کشمیر میں کئے گئے بڑے پیمانے پر لوٹ کھسوٹ اور دھوکہ دہی کے لئے انہیں عوامی کٹہرے میںجوابدہ ٹھہرایا جائے گا۔