اردو یونیورسٹی میں انجمن تقابلی ادب کی بین الاقوامی کانفرنس کا اختتام
ےو اےن اےن
حےدر آباد،// ہندوستان کا طریقہ¿ تدریس و اکتساب مکالمہ پر مبنی رہا ہے۔ وید سے لے کر مہابھارت اور اپنیشد تک مکالماتی زبان میں ہیں۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں انجمن تقابلی ادب ہند(CLAI)کی دو سالہ بین الاقوامی کانفرنس کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر کویتا اے شرما، صدر، ساﺅتھ ایشین یونیورسٹی نے اس خیال کا اظہار کیا۔ کانفرنس ”جنوبی ایشائی بیانیے کی تکثیری ومکالماتی ماہیئت کا مطالعہ“ کا انعقاد شعبہ¿ انگریزی، مانو کے تعاون سے عمل میں آیا۔ پروفیسر شرما نے بحیثیت مہمانِ خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیا میں ثقافتوں اور زبانوں میں تنوع کے سبب مکالمہ (ڈائیلاگ) ناگزیر ہوجاتا ہے۔ انہوں نے علاقہ کے تکثیری تناظر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہاں مکالمہ ہی مذاکرہ اور مقابلے میں کام آنے والا ایک مشترکہ ہنر ہے۔ پروفیسر ای وی راما کرشنن، صدر CLAI نے کہا کہ عالمی سطح پر تقابلی ادب تغیر پذیر ہے اور اب ساری دنیا کی توجہ ہندوستانی زبانوں پر ہے۔ عصر حاضر میں مکالمے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جہاں ذات پات اورتنازعات تو ہیں لیکن مکالمے کی گنجائش کم ہی نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر ایم اے سکندر، رجسٹرار نے بحیثیت مہمانِ اعزازی منتظمین اور شرکاءکو مبارکباد دی۔ قبل ازیں پروفیسر جی این دیوی نے کل سِسر کمار داس یادگاری خطبہ میں کہا کہ نیشنل سروے آف انڈیا نے دانستہ طور پر دیگر مقامی زبانوں کی طرح اردو بولنے والوں کی تعداد گھٹاکر دکھائی ہے۔