اسامہ عاقل حافظ عصمت اللہ مدھوبنی، بہار
9534677175
چاپلوسی ایک اخلاقی ناسور ہے – معاشرہ اور سماج کے لئے بھی ناسور ھیں – چاپلوسی کی قینچی عقل وفھم کے ہر کاٹ کے انسان کے ذہن کو پرواز سے محروم کردیتی ہے- چاپلوسوں اور خوشامدیوں میں گھرا ہوا شخص شیر کے قوام میں پھنسی ہوئی مکھی کی طرح بے بس اور معذور ہوتا ہے – رفتہ رفتہ حالات یہاں تک پہنچ جاتے ہیں، اس کے آنکھ، کان، ہاتھ، پیر سب سب خوشامدیوں کے محتاج ہوجاتے ہیں اور ایک بہترین شخص خوشامدیوں کا شکار ہو جاتا ہے – موجودہ دور میں چاپلوسی نے ایک فن کی صور ت اختیار کر لی ہے اور ماحول کو پراگندہ کرنے میں اس کا اہم کردار ہے – سچ اور صحیح بات برداشت کرنے کی قوت وصلاحیت نھیں، برسر اقتدار لوگوں کو جی حضوری کرنے والوں کی فوج مطلوب ہوتی ہے – تعلیمی ادارے اورملی تنظیمیں بھی اس سے مبرا نھیں، انتخاب صلاحیتوں کی بنیاد پر نھیں بلکہ جی حضوری اور چاپلوسی کی بنیاد پر اساتذہ ملازمین وکارکن منتخب کئے جاتے ہیں جبکہ معیار صلاحیت اور استعداد ہے نہ کہ چاپلوسی شریعت اسلامی زندگی کے ہر شعبے میں مکمل رہنمائی کی ہے، جہاں بھی دیکھو چاپلوسی اورچمچہ گیری – شاعر پاگل عادل آبادی نے کیا خوب کہا ہے کہ……..؛
پیرو کار ی چاپلوسی کالے دھن کا زور ہے
کوئی رشوت خور ہے تو کوئی آدم خور ہے
اک سے بڑھ کر ایک چالو ہے جہاں میں آج کل
باپ انڈا چور ہے تو بیٹا مرغی چور ہے
چاپلوسی ایک فن اور ہنر ہے، یہ فن فطرتاً ایسے لوگوں میں پایا جاتا ہے جن کی طبیعت شرافت اور سادگی کے بجائے مکاری اور چالبازی کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہے – اس ہنر کو پیدا کرنے کے لئے خودداری اور عزت نفسی جیسے الفاظ کو ڈکشنری سے ہٹانا پڑتا ہے – انسان کا اپنی خصوصیات سے نکلنا اور ایسے ذہنی ونفسیاتی مزاج سے الگ ہو نا، جس میں کوئی کجی نہ ہو، انسان کی زندگی خراب کردیتا ہے – اور اس کے طرز عمل میں انتشار پیدا کر دیتا ہے – کوا جب ہنس کی چال چلتا ہے تو پھر نہ وہ زمین ہی پر چل پاتا ہے اور نہ ہی آسمان میں اڑپاتا ہے – نفسیاتی ماہرین کے مطابق ہم میں سے ہر شخص ان تنگ حدود میں زندگی گزار تا ہے جو اس نے اپنے حقیقی حدود کے اندر بنا رکھی ہیں، وہ مختلف طرز کی بہت ساری صلاحیتیں رکھتا ہے لیکن عام طور پر ان کا احساس نہیں کرتا یا ان کا بھر پور استعمال نھیں کرتا –
انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی خامیوں کو تسلیم کرے اور اللہ نے جو اس کے لئے مقرر کردیا ہے اس پر خوش رہے اور یہ جان لے کہ چاول پیدا کر نے والی زمین اگر چہ بھلائیوں سے بھری ہے لیکن بغیر محبت کے انسان کو چاول کا ایک دانہ بھی نہیں دےگی، اسی طرح اللہ نے اسے جو صلاحیت دی ہے وہ اپنی نوعیت کی منفرد ہے، کوئی دوسرا اس کی حقیقت نھیں جان سکتا اور وہ خود بھی اس کی حد نھیں پہچان سکتا ہے – ہر انسان کی آزادانہ شخصیت ہے اور جب وہ اس آزادی کی حفاظت کرتا ہے، اس کے اصولوں کو پروان چڑھا تا ہے اور اپنی مخصوص شخصیت کے دائرے میں زندگی گزار تا ہے تو وہ سنت الہیہ کے مطابق چلتا ہے، اگر وہ اپنا حق نھیں پہچانتا اور اپنی خصوصیات کے برخلاف ریا کاری وظاہر داری برتتا ہے تو وہ سنت الہیہ کی مخالف کرتا ہے – اپنی شخصیت کو پامال کرتا ہے اور اللہ تعالٰی کی اس مخلوق کو بدلنے کی کوشش کر تا ہے جو سراسر ایک شیطانی عمل ہے – اللہ تبارک و تعالٰی ہر انسان کے اس حق کا اثبات فرماتا ہے کہ ” وہ اپنی اور اپنی قوم کی خدمت کے لئے جو رخ چاہے اختیار کرے – یعنی یہ حق کہ وہ ایک صالح اور ہم آہنگ معاشرے کی حدود میں آزادانہ زندگی گزارے کیوں کہ اس زو کا اس کے ضمیر وجدان کے مطابق ہونا ضروری ہے – اللہ تبارک و تعالٰی نے ہر شخص کو فکری تغاوت کے ساتھ پیدا کیا ہے اور ہر ایک کا اپنا خاص زاویہ نظر رکھا ہے – فکری آزادی کا یہ مطلب نہیں کہ انسان اپنی ذہنی صلاحیتوں کو کام میں لانے یا نہ لانے میں آزاد ہے، چاہے اسے سونے دے اور اپنے ارد گرد کی ہر چیز سے آنکھیں بند کرلیں – آخر اس انسان کی کیا قدر وقیمت رہ جائے گی جو اپنے ذہ کو معطل پڑا رہنے دے، پھر اس قوم کی کیا وقعت ہوگی جس کے ہزاروں لاکھوں لوگ حق کو پہچاننے اور معاملات کی چھان بین کی کوششوں سے دور دور رہیں – آزادی رائے کے سلسلے میں فیصلہ کن بات یہی ہے کہ یہ انسان کا فطری حق ہے، لیکن اس حق کے ساتھ لازمی ذمہ داریاں بھی ھیں – آزادی رائے ہی قوم میں انصاف کی محافظ ہوتی ہے اور حکمرانوں کو ظلم واستبدائ اورجوروستم سے روکتی ہے – سرکش وظالم حکمرانوں کاراج مسخ شدہ ذہنوں اورجامد افکار وخیالات پر ہی ہوسکتا ہے – کیوں کہ ایسے ہی لوگ معاملات کو ظلم و جابر حکمرانوں کے نقط نظر سے دیکھ سکتے ہیں – کسی پیرو کار شخص کے لئے سب سے آسان بات یہی ہے کہ وہ جس کی پیروی کرتا ہے اس کے سامنے اپنی شخصیت گم کردے، ایسے چاپلوس اور ہاں میں ہاں ملانے والے لوگ جب رائے ظاہر کرتے ھیں یا ان سے مشورہ لیا جاتا ہے تو وہ اپنے ہی بات کہنے کی کوشش کرتے ہیں جو مشورہ طلب کرنے کی خواہش وپسند سے زیادہ قریب ہو- غزو? بدر کے قیدیوں کے سلسلے میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ طلب کیا تو ہر ایک نے اپنے اپنے ذہن ومزاج کے مطابق رائے دی، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نرم مزاج تھے، انہوں نے معاف کر نے کا مشورہ دیا جب کہ سخت مزاج ہونے کے سبب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سزا دینے کا مشورہ دیا، ظاہر ہے دونوں حضرات نے اپنے آزادانہ ذہن اور مزاج کے مطابق حق تک پہنچنے کی کوشش کی – اسلام چاپلوسی اور کسی رو میں بہہ جانے سے پاک ایک آزادانہ مسلک کا نام ہے، پاکیزہ خصلتوں اور خود دارانہ اور صاف ستھری عادتوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ساتھیوں سے مشورہ فرماتے تھے اور اسے مان بھی لیتے تھے – کاش؛ غلاموں کی بستی کے حکمرانوں اور لیڈران بھی اس حقیقت کو جانتے اور مانتے، اس کے برعکس وہ ایسے لوگوں کو ترجیح دیتے ہیں جو نا اھلی کے باوجود اپنے آپ کو ان کے سامنے ہٹادیں اور آزاد ضمیر رکھنے والے کو پیچھے دھکیل دیتے ہیں، چاہے ان میں کام کو آگے بڑھانے کی کتنی صلاحیت ہو اور یہی سب سے بڑی مصیبت ہے – چاپلوسی اور ہاں میں ہاں ملانے والے چمچے ہر جگہ موجود ہیں اور ایسے لوگوں کو چمچہ گیری کرنے میں بھت مزہ ملتے ہیں – کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ………………..
بھت مجھ کو لگتا ہے پیارا کہ جب جب
میرے سامنے دم ہلاتا ہے چمچہ
اسی کے سبب سے ہے نفرت دلوں میں
کہ آپس میں ہر دم لڑاتا ہے چمچہ
زمانے کی پھٹکار اس میں ہو پھر بھی
سر انجمن دندناتا ہے چمچہ
چاپلوسی اور چمچہ گیری بے غیرتی اور ڈھٹائی کے خمیر سے پیدا ہوتی ہے، چمچہ گیری کا مرتبہ پانے کے لئے آپ کو شرم وحیا کا پانی اپنی آنکھوں سے نکالنا ہوگا، اس صفت سے متصف ہونے کے بعد آدمی انسانیت مروت، ہمدردی جیسے اوصاف واخلاق سے اپنا رشتہ منقطع کرلیتا ہے اور رخساست وکمینگی کی ہر حد کو پار کرنے کے لئے تیار ہو جاتاہے، ایسے افراد خود نکمے اور کام چور ہوکر اور ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں بن کر نہ صرف ان افسران کی بے حساب اور بے لگام نفسانی خواہشات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ان کی بھر پور مدد کرتے ہیں بلکہ اپنا الو سیدھا کرنے میں ماہر ہو تے ہیں – ان لوگوں میں کچھ ایسے بھی شاطر دماغ ہوتے ہیں جو اپنے حکمو ں اور افسروں کی ناقبلیت اور کاہل تباہی جیسی کمزور یوں بھانپ کر انھیں تگنی کا ناچ نچواتے ھیں – اپنی رائے پر فریفتہ اور اپنی خواہشات کے پیچھے چلنے والے یہ چاپلوس اورچمچے اور ان کے نفس پرست حاکم اور افسران نہ صرف یہاں کے سرکاری خزانے پر بھاری بوجھ ھیں بلکہ وہ تعمیرو ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں- سچ تو یہ ہے کہ بے خوفی اور غفلت میں ڈوبے ایسے لوگ یہ بات سمجھنے سے بالکل قاصر ہیں کہ جب ہر انسان کا اپنا خاص رخ ہے تو یہ بھی ضروری ہے کہ اس رخ کا متعین مقصد بھی ہو جو اپنے اپنے راستے پر چلائے اور کوئی بھی انسان اس بات سے اختلاف نھیں کر سکتا کہ جس مقصد کے بغیر انسان کا رخ صحیح نھیں ہوسکتا، وہ بھلائی اور خیر ہے اور پھر ارشاد الہی بھی ہے کہ اپنے ہر رخ کی منزل بناو¿ اور جب منزل مقرر ہو جائے گی تو قوم میں اتحاد پیدا ہوگا اور جب بھلائی ہی مقصد ہوگی تو معاشرے میں ضروری ہے کہ سدھار اوراپناو¿بھی پیدا ہو جائے گا- اللہ تبارک و تعالٰی چاپلوسی جیسی بری عادت سے ہم سب کو محفوظ رکھے – آمین یارب العالمین