اَمن کے لئے جنگ ہی ضروری کیوں؟

0
0

۰۰۰
شازیہ چودھری
کلر راجوری
9622080799
۰۰۰

جنگ دو فریقوں، قبیلوں، قوموں یا ملکوں کے درمیان تنازعے کے نتیجے میں ہونے والے تصادم کو کہا جاتا ہے۔ جنگ کی بھی کئی اقسام ہیں۔ جنگ مسلح بھی ہوتی ہے اور سرد جنگ بھی۔ مسلح جنگوں کے دوران فریقوں، قبائل، قوموں یا ملکوں کی مسلح افواج اپنے ملک و قوم کے دفاع کے لیے آگے آتے ہیں اور اپنی قوم کو آنے والے خطرات سے بچاتے ہیں ۔جنگ ایسی چیز ہے جس میں ہتھیار قلم کی جگہ لے لیتے ہیں اور جس کا نتیجہ صرف خون خرابہ ہوتا ہے۔ جنگ کو ہم سیاسی حصول اور سفارتی مقاصد کو حاصل کرنا بھی کہہ سکتے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جنگوں کے نتیجے میں بے دریغ انسانی جانوں کا زیاں ہوتا ہے، لاکھوں افراد مارے جاتے ہیں، عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوجاتے ہیں۔ملکوں میں قحط پیدا ہو جاتا ہے۔ اور صدیوں تک پسماندگی اُن کا مقدر بن جاتی ہے۔جنگ میں فتح جس کسی کی بھی ہو،ہر جگہ نقصان انسانیت کا ہی ہوتا ہے۔
دنیا اس سے پہلے دو عظیم جنگوں کو جھیل چکی ہے ۔جن کے مضر اثرات آج بھی کئی ملکوں کو جنگ کے نام سے تھرا دیتے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم میں تین کروڑ اور دوسری جنگ عظیم میں چھ کروڑ لوگ مارے گئے تھے۔ یعنی بیسویں صدی میں نو کروڑ کی آبادی کا صفایا ہو گیا تھا۔ اور جن ملکوں نے ان جنگوں میں حصہ لیا تھا وہ آج ایک ہو گئے ہیں اوراپنے اپنے جنگی جھنڈے جھکا چکے ہیں ۔آج سب سے زیادہ قوم پرستی دنیا کے سب سے زیادہ غریب حصے میں زندہ ہے جس کا نام جنوبی ایشیا ہے۔ اس حصے کے سامنے بہت سی ضروری لڑائیاں ہیں جیسے بھوک، بیماری، سماجی اور معاشی نابرابری ، جہالت، ناخواندگی، بیروزگاری وغیرہ ۔ لیکن بر صغیر ہند و پاک کوئی اور ہی لڑائی لڑ رہے ہیں یہ دونوں ملک خود کو جنگ کی بھٹی میں جھونکنے کے فراق میں ہیں ۔اگر یہ دونوں ملک حقیقت میں اس آگ میں کود گئے تو پھراب کی یہ جنگ نہ رکنے والی جنگ ہوسکتی ہے ۔کیونکہ اس جنگ میں متاثر ہونے والے دونوں ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں ۔ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ جو بہت بڑی تباہی کا موجب بنے گامگر ایٹمی ہتھیاروں کو کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ ان کے سامنے کون ہے وہ تو صرف تباہی پھیلاتے ہیں۔ امن قائم نہیں کرتے۔خدا نخواستہ اگر ایک ہمسایہ ملک دوسرے ملک پر ایٹمی حملہ کرے توکیا اسکے اس ایٹمی حملے کی تابکاری کے اثرات سے اس کا اپنا ملک محفوظ رہ سکتا ہے؟ کیا ہیرو شیما اور ناگا ساقی کے اطراف و اکناف کی فضا کی زندہ مثال دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے؟
امریکی سائنسدان آئن سٹائن جس نے امریکہ کے ایٹمی پروگرام پر کام کیاتھا ،دوسری جنگ عظیم کے بعد کسی نے ان سے پوچھا کہ جناب! تیسری جنگ عظیم کیسی ہو گی؟تو آئن سٹائن نے جواب دیا کہ تیسری جنگ عظیم کا مجھے پتہ نہیں لیکن چوتھی جنگ عظیم تلواروں اور ڈنڈوں سے ہوگی ۔آئن سٹائن کے اس جواب میں ایک بہت بڑی بات پوشیدہ ہے کہ شاید وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ تیسری جنگ عظیم بہت بڑی تباہی لائے گی۔ جس میں دنیا کے ایٹم بم رکھنے والے ممالک ایٹم بم کا استعمال کر سکتے ہیں اور یہی ایٹمی ہتھیار کئی ملکوں کا جغرافیہ بگاڑنے کا موجب بن سکتے ہیں۔ آج کل ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ممالک میں امریکہ، برطانیہ، روس، ہندوستان، چین، پاکستان، شمالی کوریا، ایران اوراسرائیل قابل ذکر ہیں جبکہ کئی ممالک اس کے حصول کے لئے تگ و دو کر رہے ہیں۔ امریکہ نے عراق اورافغانستان پر جنگ مسلط کی جس میں اس نے اپنے ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا۔ جبکہ وہ اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران پر حملہ کرنے کے لئے کوئی بہانہ تلاش کر رہا ہے۔ دوسری طرف ہندوستان اور پاکستان ایک دوسرے کو کھلم کھلا جنگ کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ تیسری طرف امریکہ چین کے لئے سازش کررہا ہے۔ جبکہ امریکہ پاکستان کی مدد سے روس کے ٹکڑے ٹکڑے کر چکا ہے۔ امریکہ کی نظر اب ایران کے ساتھ ساتھ سعودی عرب، چین، ہندوستان اور پاکستان پر بھی ہے۔ خدانخواستہ اس نے ہندوستان اور پاکستان کو لڑوا دیا تو ایک ایسی جنگ چھڑنے کا خطرہ ہے۔ جس کی زد میں ہندوستان پاکستان، ایران، چین، اسرائیل اور کئی چھوٹے ہمسایہ ملک آ سکتے ہیں ۔جس سے ایک بہت بڑی جنگ چھڑنے کا خطرہ ہے۔ جو خدانخواستہ دوسری جنگ عظیم سے بھی کئی گنابڑی تباہی لا سکتی ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات ہمیشہ سے ہی اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ یہ دونوں ممالک بالترتیب چودہ اور پندرہ اگست1947؁ء کو آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئے۔ برطانیہ کے زیرِ تسلط برِصغیر کو ہندو مسلم آبادی کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی شرط پر آزاد کیا گیا تھا۔ ہندوستان جس میں ہندو اکثریتی قوم تھی، ایک سیکولر ریاست بھارت قرار پایا۔ جبکہ مسلم اکثریتی پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان ریاست کا نام دیا گیا۔ آزادی کے وقت سے ہی دونوں ممالک نے ایک دوسرے سے اچھے تعلقات استوار رکھنے کا عزم ظاہرکیاتھا۔ مگر بیرونی سازشوں کی وجہ سے ہندو مسلم فسادات اور کشمیر تنازعے کی وجہ سے دونوں ممالک میں کبھی اچھے تعلقات دیکھنے کو نہیں ملے۔ آزادی کے وقت سے اب تک دونوں ممالک چار بڑی لڑائیوں، جبکہ بہت سی سرحدی جھڑپوں میں ملوث رہ چکے ہیں۔ ہند ،پاک جنگ 1971؁ء اور جنگ آزادی بنگلہ دیش کے علاوہ تمام جنگوں اور سرحدی کشیدگیوں کامحرک کشمیر تحریک رہی ہے۔دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے بھی بہت سی کوششیں کی گئیں جن میں آگرہ، شملہ اور لاہور کے اجلاس شامل ہیں 1980؁ء کی دہائی سے دونوں ممالک کے تعلقات کے درمیان تاریخ ساز بگاڑ محسوس کیا گیا ہے۔ اس بگاڑ کا سبب سیاچن کا تنازعہ، 1989؁ء میں کشمیر میں بڑھتی کشیدہ صورت حال، 1998؁ء میں پاکستانی اور ہندوستانی ایٹمی تجرباتی دھماکے اور 1999؁ء کی کرگل جنگ کو سمجھا جاتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے 2003؁ء میں جنگ بندی کا معاہدہ اور سرحد پار بس سروس کا آغاز کیا گیا۔ مگر تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے تمام کوشش پے در پے رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی نظر ہوتی گئیں۔ جن میں 2001؁ء میں ہندوستان کی پارلیمنٹ عمارت پر حملہ، 2007؁ء میں سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین کا دھماکا اور 26 نومبر 2008؁ء ممبئی میں دہشت گردی کی کاروائیاں شامل ہیں۔ 2001؁ء میں ہونے والے پارلیمنٹ پر حملے نے دونوں ممالک کے درمیان جنگ کا سا سماں پیدا کر دیا تھا۔ 2007؁ء میں سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین پر حملے سے تقریبا 68 افراد مارے گئے ۔ 2008؁ء کے ممبئی حملے، 2016کے پٹھان کوٹ اور اُوڑی حملے جن کو دہشت گردی کی بھیانک کارروائی کہا جاتا ہے ، دونوں ممالک کے درمیان امن تعلقات کو سبوتاژ کرنے کے لیے اہم ثابت ہوا۔ اور اب 14فروری 2019کا پلوامہ حملہ جس میں سی آر پی ایف کے 40 سے زائدجوان شہادت کا جام نوش کر گئے تھے۔
ان واقعات نے ہند پاک کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے جس کے نتیجے میں ہندوستان نے پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوہ کے بالا کوٹ سیکٹر میں گھس کر ائیر سٹرائیک کیا ۔ اور یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ دہشت گردوں کا پورا کیمپ نیست و نابود کر دیا ہے لیکن پاکستان اس دعوے کو رد کر رہا ہے ۔دونوں ممالک کی سرحدوں پہ کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے دونوں ممالک ایک دوسرے کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں ہندوستان کا ایک ائیر فورس پائیلٹ ونگ کمانڈر ابھینندن پاکستان کی حراست میں چلاگیا تھا۔ پونچھ، راجوری، اکھنور، جموں، اوڑی، پنجاب اور راجستھان کی سرحدوں پر حالات کشیدہ ہیں دونوں طرف سے گولا باری بدستور جاری ہے لوگ در بدر ہیں کئی زخمی ہیں اور کئی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جانیں گنواتے جا رہے ہیں۔ یعنی کل ملا کر دونوں ملک آمنے سامنے کھڑے ہیں اور کبھی بھی جنگی صورتحال بن سکتی ہے ۔لیکن ان دونوں ملکوں کو جاپان سے سبق لینا چاہیے ۔ جس نے 71سال پہلے ایٹمی جنگ کی تباہ کاریاں جھیلیں تھی اور آج تک اس جنگ کے نقصانات سے باہر نہیں نکل سکا۔ اس کے دو شہر ہیروشیما اور ناگاساکی کچھ منٹوں میں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئے تھے اور آج بھی ریڈی اییشنز کا اثران شہروں میں دیکھا جا سکتا ہے ۔اس ایٹمی حملے میںڈھائی لاکھ لوگوں کی موت ہوئی تھی۔ اگر آج سے 71 سال پہلے ایٹم بم نے اتنی تباہی مچائی تھی تو آج ہندوستان اور پاکستان بھی ایٹمی ملک ہیں اوروہ بھی اعلیٰ سے اعلیٰ تکنیک والے ۔خدانخواستہ اگر ان دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ شروع ہو گئی، تو سوچیے کیا ہوگا ؟نہ صرف ان دونوں ملکوں کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے یہ جنگ خطرناک اور تباہ کن ثابت ہوگی۔ امریکی تنظیم’’ انٹرنیشنل فیزیشن فار دی پریوینشن آف نیوکلیئر وار‘‘ کی رپورٹ کے مطابق سیدھے طور پہ دو کروڑ سے زیادہ لوگوں کی موت ہوگی۔ اور دو ارب لوگ بھوک مری کا شکار ہوں گے دنیا کی آدھی اوزون پرت
( Layer Ozone ) بھی ختم ہوجائے گی۔ اسکے علاوہ دنیا بھر میں مون سون پہ بھی بہت برا اثر پڑے گا۔ اور کھیتی برباد ہو جائے گی
ہندوستان اور پاکستان میں چل رہے اس ٹکراؤ میں سب سے زوردار دھماکہ کسی ایٹم بم کا نہیں کسی ہوائی راکٹ کا نہیں ایف 16 کا نہیں ایک ہزار کلو کے بم کا نہیں ،بلکہ دونوں ملکوں کے میڈیا کا ہے ۔ہندوستان کی ائیر فورس نے بہادری بھری کاروائی کی جو کہ قابل تعریف ہے ہم سب ان کے حوصلے کو سلیوٹ کرتے ہیں سرکار کی بھی تعریف کرتے ہیں ۔ہندوستان کی سرکار کی پالیسی بھی امن پسند ہے اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بھی جنگ سے بچنے اور بات چیت سے مسئلہ حل کرنے کی پیشکش کی ہے۔ اور کیپٹن ابھینندن کو واپس اپنے ملک بھیجنے کا فیصلہ کر کے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ وہ بھی امن چاہتے ہیں ۔لیکن دونوں ملکوں کا میڈیا تو فوج کی وردی پہن کے سٹوڈیوز میں آ بیٹھا ہے ۔اینکرز جنگ لڑنے لگے ہیں اگر ان کو اتنا ہی شوق تھا فوج کے کپڑے پہننے کا تو بھرتی ہو جاتے فوج میں این ڈی اے کا اگزام دیتے ۔اور پھر جا کر سرحدوں پر لڑتے تب مزہ تھا۔ دو ملکوں کے ٹکراؤ کو ان کے تناؤ کو یہ میڈیا والے کسی اور ہی رنگ میں اور زبان میں دنیا کو دکھا رہے ہیں۔ ہر چینل پہ ایک ہی رونا ہے فوجیوں کو للکار رہے ہیں۔ لوگوں کو اُکسا رہے ہیں چاہے وہ الیکٹرانک میڈیا ہو ،چاہے وہ سوشل میڈیا ہو یا پھر پرنٹ میڈیا ہو ۔ اگر سرحدوں پر یہ لوگ یا ان کے افرادِخانہ کا کوئی زخمی یا مرتا تو پھر یہ بخوبی سمجھ جاتے کہ سرحد پر بسنے والے لوگوں کا دردکیا ہے، جن کے پاس نہ وسائل ہیں نہ محفوظ بنکرس ،نہ نقلِ مکانی کا کوئی ذریعہ ۔اگر ہے تو صرف سروں پر منڈلاتی موت کا سایہ۔سب کو بس جنگ چاہیے ان ہی میڈیا والو ںکے لیے اردو زبان کے مشہور اور نو جوان شاعر ثمریاب ثمر ؔ چوہان نے کچھ یوں کہا ہے۔
بکاؤمیڈیاکے نام
کوئی سرحد پہ لڑتا ہے
کسی کے بھاؤ بڑھتے ہیں
کسی کا گھر اجڑتا ہے
کسی کا لعل چھنتا ہے
کسی کی مانگ جب سندور سے محروم ہوتی ہے
تو پھر ماتم پسرتا ہے!
کسی کے صندلی ہاتھوں سے
مہندی روٹھ جاتی ہے
جواں بہنیں کہیں بھائی کے غم میں
ٹوٹ جاتی ہیں
کہیں پر سوختہ آنکھیں لہو
روتی ہیں اس ڈھب سے!
کہ انکے حال پر چشم فلک کو رونا آتا ہے
کہیں معصوم کلیاں، پھول سے چہرے
خزاں کی نذر ہوتے ہیں
بہار آنے سے پہلے ہی!
کہیں مہجوریاں انسان کی تقدیر بنتی ہیں!
کہیں محرومیاں گردن کی خود زنجیر بنتی ہیں
کہیں پتھر کلیجے اپنے لٹ جانے پہ
روتے ہیں!
کبھی سوچا ہے اے ٹی وی پہ سج کے بھونکنے والو!!!!!
کہ جنگوں کے نتائج کس قدر
سنگین ہوتے ہیں!!
مجھے اتنا بتاؤ کیا تمہارا بھائی، بیٹا، بھی
وہیں پر ہے؟
جہاں پر تم نے سلگائی ہوئی ہے
آگ نفرت کی
تمہارا بھائی بیٹا بھی ہے کوئی فوج میں بولو؟
نہیں ہے تو ذرا اک رات کی خاطر
انھیں سرحد پہ بھیجو ناں!
تمہیں معلوم ہوجائے گا فوجی کیسے رہتے ہیں!
کہ کیسے گھر اجڑتے ہیں!
کہ کیسے لعل کھوتے ہیں!
کبھی سوچا ہے اے ٹی وی پہ سج کے بھونکنے والو!!!
کہ جنگوں کے نتائج کس قدر
سنگین ہوتے ہیں۔۔۔!!!!!۔
ہندوستان اور پاکستان کا میڈیاپچھلے بیس برسوں میں جس سمت چل رہا ہے۔ وہی سمت آج بھی ہے۔ لنن نے کہیں کہا تھا کہ ’جنگ بری چیز ہے لیکن بری طرح سے منافع بخش بھی ہے۔‘ دونوں ممالک کے میڈیا کے لیے یقینا کچھ ایسا ہی ہے۔ ریٹنگز ان دنوں میں آسمان کو چھورہی ہیں۔ ٹی وی اور ٹاک شوز سے متنفر لوگ بھی بھیگی بلی کی طرح سکرین کے سامنے بیٹھے نظر آ رہے ہیں۔ دونوں ممالک کشیدگی کے دوران میڈیا کو استعمال کرنے کی کو شش کرتے ہیں۔ اب یہ صحافی پر ہے کہ پروفیشنل تقاضوں کو کیسے پورا کرتا ہے یا انہیں قربان کر دیتا ہے۔ سنجیدہ صورتحال اس وقت پیدا ہوتی ہے۔ جب کشیدگی بڑھانا میڈیا اور صحا فیوں کا کاروباری مفاد بن جائے۔شاید یہی مفاد ہے کہ جواکثر صحافیوں کو ’جنگی نامہ نگار‘ ’corespondent war‘بننے پر زیادہ مجبور کرتا ہے۔ یہ کاروباری مفاد میڈیا مالکان کا بھی ہوتا ہے ۔لیکن عام سامعین، ناظرین اور قارئین کے لیے جنگی ماحول، تشویش، ناامیدی، سنسنی پھیلانے اور افراتفری میں اضافے کا ہی سبب بنتے ہیں۔
دونوں ممالک کے میڈیا نے ان تلخیوں اور تنازعات کے درمیان نفرتیں بڑھائی ہیں۔اور میڈیا اس لکیر کو بھول گیا ہے ۔جو قوم پرستی کو انسانیت سے علیحدہ کرتی ہے۔یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان میڈیا کے یرغمال بنے ہوئے ہیں ان دونوں ممالک کے میڈیا کے لیے جنگ اسی وقت شروع ہو جاتی ہے جب کہیں کوئی حملہ ہوتا ہے۔اگر صحافی اور اینکر ایک ملک کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی للکار لگا رہے ہوں تو اس میں صحافت کا تو جنازہ نکل جاتا ہے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ میڈیا کی موجودگی میں اب جنگ نہیں ہوگی۔ لیکن میڈیا تو اس کا پورا انتظام کرنے کے چکروں میں دکھائی دے رہا ہے۔ جنگ کی تباہی دیکھانے کی بجائے وہ حریف ملک کے دانت کھٹے کرنے کے شوق میں مبتلا ہے۔بہتر تو یہ ہوتا کہ میڈیا میں جنگی رپورٹروں کے بجائے امن رپورٹر زیادہ تعداد میں ہوتے لیکن آج کل تو امن کے داعی بیک فْٹ پر دکھائی دیتے ہیں۔ جنگی جنون سے سرشار میڈیا ان کو جگہ اور وقت دینے کا متمنی نہیں ہے۔
برصغیر ہندو پاک کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں کے لوگوں نے اور میڈیا نے اصلی اور مکمل جنگ نہیں دیکھی آج تک ہندوستان میں جتنی بھی جنگیں ہوئیں وہ محدود تھیں۔ 1857؁ ء کی جنگ آزادی کو ہندوستان کی عظیم جنگ کہا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ، یہ جنگ دہلی سے 75 کلومیٹر کے فاصلے پر میرٹھ میں شروع ہوئی اور دہلی پہنچ کر ختم ہو گئی۔ یہ پوری جنگ دہلی کے مضافات میں لڑی گئی تھی اور پنجاب ، سندھ ، ممبئی ، کولکتہ اور ڈھاکہ کے لوگوں کو جنگ کی خبر اس وقت ہوئی جب ملبہ تک سمیٹا جا چکا تھا۔ اگر 1965؁ ء اور 1971؁ء کی جنگوں کا تجزیہ بھی کیاجائے تو یہ جنگیں، جنگیں کم اور جھڑپیں زیادہ محسوس ہوں گی ۔ 1965؁ ء کی جنگ چھ ستمبر کو شروع ہوئی اور 23 ستمبر کو ختم ہو گئی ۔ہندوستان اور پاکستان 17 دن کی اس جنگ کو جنگ کہتے ہیں۔ یہ دونوں ملک ہر سال اس جنگ کی سالگرہ مناتے ہیں ۔65 کی جنگ میں چار ہزار پاکستانی اور تین ہزار ہندوستانی ہلاک ہوئے تھے ۔یہ جنگ بھی صرف کشمیر ، پنجاب اور راجستھان کے بارڈر تک محدود رہی تھی ۔ ہندوستان اور پاکستان کے دور دراز علاقوں کے عوام کو صرف ریڈیو پر جنگ کی اطلاع ملی ۔جبکہ 1971 ؁ء کی جنگ تین دسمبر کو شروع ہوئی۔ اور 16دسمبر کو ختم ہو گئی۔ اس جنگ میں 9 ہزار پاکستانی مارے گئے۔ اور 26 ہزار ہندوستانی اور بنگالی ہلاک ہوئے۔ دونوں ممالک کی سرکاریں میڈیا اور عوام ٹھنڈے دل کے ساتھ 13 اور17 دنوں کی ان جنگوں کو یورپ کی چار سالہ اور چھ سالہ لمبی جنگوں اور اُن تین ہزار ، چار ہزار ، 9 ہزار اور 26 ہزار لاشوں کو یورپ کی ساڑھے چار کروڑ لاشوں کے سامنے رکھ کر دیکھیں ۔ اور پھر اپنے آپ سے یہ پوچھیں کہ’’ جنگ کیا ہوتی ہے ؟ان کے جسم کا ایک ایک خلیہ ان کو جنگ کی ماہیت بتائے گا ۔ یہ دونوں ملک جنگ سے ناواقف ہیں یہ جانتے ہی نہیں ’’جنگ کیا ہوتی ہے ؟‘‘ چنانچہ یہ ہر سال چھ ماہ بعد ایٹم بم نکال کر دھوپ میں بیٹھ جاتے ہیں ۔ ہندوستان ہر دہشت گرد حملے کے بعد پاکستان کو جنگ کی دھمکی دیتا ہے۔ اور پاکستان جواب میں کہتا ہے ’’ہم نے یہ ایٹم بم شب برات پر چلانے کیلئے نہیں بنائے ۔ یعنی کھلے عام جنگ کی دھمکی ہندوستان کو پاکستان کی طرف سے بھی دی جاتی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے وہ جنونی میڈیا اینکرس اور وہ جنونی عوام ایک بار صرف ایک بار آنکھیں بند کر کے اور تصور میں اپنے آپ کو سرحدوں پر محسوس کر کے یہ سوچیں کہ اگر خدا نخواستہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کوئی بڑی جنگ چھڑ جائے، تو کیایہ اپنی پانچ دس کروڑ لاشیں دیکھ پائیں گے؟ یہ عوام کو دوا اور خوراک کے بغیر بلکتا دیکھ پائیں گے؟ یہ زندگی کو ایک بار بجلی ،پانی، ٹیلی فون ، سڑک ، ہسپتال اور سکول کے بغیر دیکھ پائیں گے؟ یہ پچاس سال تک معذور بچے پیدا ہوتے ہوئے دیکھ پائیں گے؟ یہ ایک دن انٹر نیٹ بند ہونے پر واویلا کرے والی قومیں ہیں۔یہ جنگ کو سہنے والی قومیں نہیں ہیں۔کشمیر میں جہاں آئے دن انٹرنیٹ سروس بند ہوتی ہے تو کتنی کوفت ہوتی ہے ۔تجربہ کے طور پران جنگی جنون والوں کو سرحدوں پر صرف ایک ہفتے کے لئے بھیج دیا جائے۔اور یہ تمام بنیادی سہولتوں کو بند کر دیا جائے سرحد کی عوام اور فوجیوں کے ساتھ رہنے کو کہا جائے تو پھر اس جنگی جنون کے غبارے سے ہوا نکلنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ یہ تب جنگ کو سمجھیں گے اور پھر اس کے بعد جاپان اور یورپ کے لوگوں کی طرح جنگ کا نام نہیں لیں گے۔ یہ اس وقت یورپ کی طرح اپنی سرحدیں کھولیں گے اور بھائی بھائی بن کر زندگی گزاریں گے۔ مورخ اس وقت چین ہی چین لکھے گا ، تب تک الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیاپر بے چین لوگوں کو چین نہیں آئے گا۔ اور یہ لوگ جنگ جنگ کرتے رہیں گے۔
( کالم نویس ہفت روزہ گوجری اخباررودادِقوم کی معاون مدیر ہیں)
۰۰۰

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا