سندھو آبی معاہدہ کے تحت 95 فیصدی پانی کااستعمال کررہا ہے ہندوستان
یواین آئی
نئی دہلیحکومت نے کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ آبی معاہدے کے تحت مشرقی ندیوں کے پانی کا 95 فیصد استعمال کیا جارہا ہے اور باقی پانچ فیصد پانی کا استعمال کرنے کے لئے تین پروجیکٹوں پر کام چل رہا ہے ۔ آبی وسائل، ندیوں کی ترقی اور گنگا کے تحفظ کے وزیر نتن گڈکری کے راوی ندی کے اپنے حصہ کا پانی پاکستان جانے سے روکنے سے متعلق بیان کے بعد وزارت کے ذرائع نے بتایا کہ وزیر آبی وسائل نے پہلے بھی کئی بار اس طرح کی بتا کہی ہیں اور اس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے ۔اس دوران وزارت نے جمعہ کو پانی کی تقسیم کے سلسلے میں صورتحال واضح کرتے ہوئے کہا کہ 1960 کی دریائے سندھ آبی معاہدہ کے تحت دریائے سندھ کی معاون ندیوں کو مشرقی اور مغربی دریا¶ں میں تقسیم کیا ہے ۔سندھو آبی نظام میں سندھ ندی ، جہلم، چناب، راوی، بیاس اور ستلج اہم ندیاں شامل ہیں۔ ان کے طاس چین اور افغانستان کے چھوٹے حصے کے ساتھ ہندوستان اور پاکستان کے مابین تقسیم ہیں۔ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 1960 میں دستخط ہوئے سندھ آبی معاہدے کے تحت تین ندیوں جن کے نام راوی، ستلج اور بیاس ہے (یہ ندیاں مشرق کی جانب بہتی ہیں)، کے پانی اوسطا تقریبا 33 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) خصوصی طور پر استعمال کے لیے ہندوستان کو مختص ہوئے تھے ۔ مغرب کی جانب بہنے والی ندیوں [؟]سندھ، جہلم اور چناب کے پانی اوسطا تقریبا 132 ایم اے ایف تک کی مقدار پاکستان کو مختص ہوئے تھے ، تاہم معاہدے کے مطابق ہندوستان کے اس کے مخصوص گھریلو ، غیر کھپت کے لیے اور زرعی استعمال کی اجازت ہے ۔ہندوستان کو مغرب کی جانب بہنے والی ندیوں پر مخصوص پیمانے کے ڈیزائن اورآپریشن کی شرط پر ریور(آر او آر) کے ذریعہ پن بجلی پیدا کرنے کا بھی حق دیا گیا ہے ۔مشرق کی جانب بہنے والی ندیوں کے پانی کے استعمال کے لیے جس کے خصوصی استعمال کا حق ہندوستان کو مختص کیا گیا ہے ، ان پر ہندوستان نے ستلج ندی پر بھاکراڈیم ، بیاس ندی پر پانگ اور پونڈوہ ڈیم اور راوی ندی پر تھیئن (رنجیت ساگر) تعمیر کیا ہے ۔ آبی ذخیرے کے ان کاموں میں بیاس [؟]ستلج لنک ، مادھوپور-بیاس لنک، اندراگاندھی نہر پروجیکٹ وغیرہ جیسے دوسرے کام شامل ہیں، جنہوں نے ہندوستان کو مشرق کی جانب بہنے والی ندیوں کا تقریبا تمام حصہ (95 فیصد) کو استعمال میں لانے میں مدد کی ہے ۔ پھر بھی تقریبا 2 ایم اے ایف راوی ندی کا پانی اب بھی سالانہ مادھو پور سے کے نیچے پاکستان کی جانب بہہ جاتا ہے ۔ اس پانی کو بہنے سے روکنے کے لیے اور ہندوستان سے متعلق ہے ، اسے ہندوستان میں استعمال کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں۔اس پروجیکٹ سے تھئین ڈیم کے بجلی گھر سے خارج ہونے والے پانی کو ریاست جموں وکشمیر اور پنجاب کے 37 ہزار ہیکٹر آراضی کی آبپاشی اور 206 میگاواٹ بجلی کی پیدا وار میں مدد ملے گی۔ اس پروجیکٹ کو ستمبر 2016 تک مکمل ہوجانا تھا۔ پھر بھی ریاست جموں وکشمیر اور پنجاب کے مابین تنازع کی وجہ سے 30 اگست 2014 سے پروجیکٹ پر کام روک دیا گیا ہے ۔ تاہم 8 ستمبر 2018 کو ریاست جموں وکشمیر اور پنجاب کے درمیان اس سلسلے میں معاہدہ ہوگیا ہے ۔ پروجیکٹ کی لاگت 2715.70 کروڑ روپے ہے ۔مرکزی حکومت نے اپنے 19دسمبر 2018 کے فیصلے کے ذریعے پروجیکٹ کے آبپاشی کے عنصر کے کام کے بقیہ ماندہ لاگت کے طور پر 485.38 کروڑ روپے کی مرکزی امداد کو منظوری دے دی ہے ۔ حکومت ہند کی نگرانی میں حکومت پنجاب کے ذریعے تعمیراتی کام کو شروع کردیا گیا ہے ۔راوی ندی کی ذیلی شاخ اوجھ ندی پر تقریبا 781 ملین کیوسک میٹر پانی کا ذخیرہ ہوسکے گا، اور ہندوستان میں اس سے آبپاشی اور بجلی پیداوار ہوگی، نیز ریاست جموں وکشمیر کے کٹھوعہ ضلع کو پانی فراہم کرنے کے علاوہ ریاست کے کٹھوعہ، ہری نگر اور سنبھا اضلاع میں 31380 ہیکٹیر آراضی کی آبپاشی ہوسکے گی۔تخمین 5850 کروڑ روپے (جولائی 2017) کی لاگت کے پروجیکٹ کے ڈی پی آر کو تکنیکی اعتبار سے منظوری دے دی گئی ہے ۔ یہ ایک قومی پروجیکٹ ہے اور آبپاشی کے عنصر کے حصے پر کاموں کے لیے اور 4892.47 کروڑ روپے کی مرکزی امداد کے علاوہ خصوصی امداد پر بھی غور کیا جارہا ہے ۔ پروجیکٹ اپنی شروعات کے 6 سال کے اندر مکمل ہوگا۔تھیئن ڈیم کی تعمیر کے بعد بھی راوی ندی سے اضافی پانی کو پاکستان کی جانب بہنے سے روکنے کے لیے بیاس طاس کو نہر سے جوڑ کر پانی کو بہنے سے روکنے کے لیے راوی ندی پر ایک بیراج بنانے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے ۔ ریاستوں کے دوسرے معاون طاس کے فائدے کے لیے بیاس طاس سے پانی کو موڑ کر اوجھ ڈیم کے نیچے تقریبا 0.58 ایم اے ایف اضافی پانی کے دوسری جانب مڑ جانے کی امید ہے ۔ حکومت ہند نے اس پروجیکٹ کو قومی پروجیکٹ قرار دیا ہے ۔مذکورہ بالا تینوں پروجیکٹ سندھ آبی معاہدہ 1960 کے ذریعے ہندوستان کو دیے گئے پانی کے کل حصے کا استعمال کرنے میں مدد ملے گی۔