اسمبلی وپارلیمانی انتخابات سے قبل جموں وکشمیرکی پرامن فضاﺅں کو زہرآلودہ کرنے کے جتن شروع ہوچکے ہیں،مختلف سیاسی جماعتیں اپنے اپنے انداز ومفادات کے عین مطابق رائے دہندگان کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کررہی ہیں، تاہم بعض اوقات ان کی سیاسی چالیں ریاست کے امن وامان وفرقہ وارانہ ہم آہنگی پرحملہ آورہوجاتی ہیں،گورنرستیہ پال ملک نے ریاست جموں وکشمیرکے تیسرے صوبے کادرجہ لداخ کودیتے ہوئے ایک اہم قدم اُٹھایااورلداخ خطے کوایک دیرینہ حق دے دیاتاہم یہاں بھی ایک ’شرارت ‘شامل رہی، گورنرکے فیصلے میں صوبے کے ہیڈکوارٹرلیہہ میں مستقل طورپرقائم کرنے کی بات کہی گئی جواہلیانِ کرگل کیسے برداشت کرتے، اور اس کے بعد کرگل کے عوام نے لداخ ، کشمیر ، جموں ودہلی تک احتجاجی تحریک چھیڑدی،اِدھر خطہ پیرپنجال وچناب کی مختلف تنظیموں نے ان خطوں کو نظراندازکرنے کاالزام عائدکرتے ہوئے احتجاج شروع کردیا، ایک طرح سے ہرطرف تقسیم وتفریق کاسلسلہ چل پڑا، کرگل کے لوگوں کاجموں میں زبردست احتجاج چل رہاتھا اِسی بیچ ایک نیا تنازعہ اُس وقت بپاہواجب جموں میں درماندہ مسافروں پرمبینہ طورپرجموں کے سائنس کالج کے کچھ طلبانے پتھراﺅ کیا،اور الزام عائدکیاگیاکہ مسافروں نے ’پاکستان زندہ باد‘کے نعرے لگائے جس کی کوئی سرکاری تصدیق نہیں ہوئی اور نہ ہی پولیس نے اس پرکوئی وضاحت کی ہے، لیکن جموں نشین سیاسی ج جماعتوں وہندوانتہاپسندتنظیموں نے شہرمیں خوب احتجاجی مظاہرے کئے، نعرے بازی کی اور پچھلے تین دِنوں سے پاکستان مردہ باد کے نعروں کی جموں شہرمیں گونج ہے، حکومتی سطح پراس تنازعے پرمجرمانہ خاموشی نے شرپسندعناصرکومیدان فراہم کردیاہے، اور نفرت کے بیج بونے والے سرگرم ہوگئے ہیں،درماندہ مسافروں پرپاکستان کے حق میں نعرے بازی کاالزام ہے جس الزام نے دھیرے دھیرے جنگل میں آگ کاکام کیااور جموں کی فضاﺅں میں نفرت کی ایک ایسی آلودگی پھیلتی چلی گئی جس نے تمام جموں نشین سیاسی جماعتوں کواپنے وجود کااحساس دلانے کاموقع ضرور دیالیکن عوام میں نفرت وخلیج پیداہورہی ہے،پولیس نے نعرے بازی کے الزامات کی تحقےقات میں دلچسپی نہ دکھاتے ہوئے کشمیری عوام اورجموں کے عوام کے مابین خلیج پیداکرنے والے عناصرکوایک طرح سے ہری جھنڈی دے رکھی ہے جوانتہائی افسوسناک اور شرمناک ہے۔گورنرستیہ پال ملک کوچاہئے کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کریں کیونکہ اہلیانِ کشمیرکوملک کی مختلف ریاستوں میں اس طرح کے سلوک وشرارتوں کاسامناکرناپڑتاہے، کئی مقامات پران پرحملے، کشمیری طلباپرحملے ہوتے ہیں اور کشمیری ملک میں خود کوغیرمحفوظ تصورکرتے ہیں ایسے میں جموں وکشمیرمیں بھی ان کیساتھ اگرایسا رویہ اپنایاجائےگا توپھرریاست کامستقبل یقیناتاریک ہوگا۔ہوش کے ناخن لینے چاہئے علاقوں کوتقسیم کرنے اورعوام کے دلوں میں دراڑیں ڈالنے والے اقدامات سے گریزکیاجاناچاہئے۔