سبھی ضلعی اور تحصیل ہیڈکوارٹروں میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آمدورفت معطل رہی
یواین آئی
سرینگر؍؍وادی کشمیر میں پیر کے روز جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے بانی محمد مقبول بٹ کی 35 ویں برسی کے موقع پر مشترکہ مزاحمتی قیادت کی اپیل پر مکمل ہڑتال رہی جس کے دوران گرمائی دارالحکومت سری نگر سمیت وادی کے سبھی ضلعی اور تحصیل ہیڈکوارٹروں میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آمدورفت معطل رہی۔ مقبول بٹ کو سنہ 1984 میں آج ہی کے دن دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی تھی اور وہیں دفن کیا گیا تھا۔ ان کی برسی پر وادی میں ہر سال مشترکہ مزاحمتی قیادت اور دیگر مزاحمتی رہنمائوں کی اپیل پر ہڑتال کی جاتی ہے اور تہاڑ جیل میں مدفون اُن کے باقیات کو لوٹانے کے مطالبے کے لئے احتجاج کیا جاتا ہے۔ مقبول بٹ پر الزام تھا کہ انہوں نے 14 ستمبر 1966 کو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کرائم برانچ سی آئی ڈی کے ایک انسپکٹر امر چند کو قتل کیا۔ سید علی گیلانی، میرواعظ مولوی عمر فاروق اور محمد یاسین ملک پر مشتمل مشترکہ مزاحمتی قیادت نے گذشتہ روز جاری اپنے ایک بیان میں کہا تھا ’ محمد مقبول بٹ اور محمد افضل گورو کے ایام شہادت کی مناسبت سے سنیچروار مورخہ 9 فروری2019ء کو مکمل اور ہمہ گیر احتجاجی ہڑتال کی جائے گی جبکہ 10 فروری کے روز جموں کشمیر کی سبھی مساجد میںشہداء کے لئے دعائیہ مجالس کا انعقاد کیا جائے گا۔ 11 فروری2019ٗء بروز سومواریوم مقبول پر بھی مکمل اور ہمہ گیر احتجاجی ہڑتال ہوگی جبکہ اسی دن یعنی(11 فروری سوموار کے دن) دونوں مصلوبین کی اجساد خاکی اورباقیات کی واپسی کے حوالے سے سری نگر کے مرکز لال چوک میں ایک پرامن احتجاجی مظاہرہ بھی کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ دونوں شہداء کی باقیات کی وطن واپسی اور شایان شان طریقے پر ان کی تجہیز و تکفین کے لئے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے نام ایک یادداشت بھی روانہ کی جائے گی‘۔ قابل ذکر ہے کہ سری نگر کے عیدگاہ علاقہ میں واقع تاریخی مزار شہداء میں دو قبریں افضل گورو اور مقبول بٹ کی باقیات کے لئے خالی رکھی گئی ہیں۔ اس دوران ریاستی پولیس نے سوموار کو سری نگر میں محمد مقبول بٹ کی 35 ویں برسی کی مناسبت سے مشترکہ مزاحمتی قیادت کی ایک ریلی کو ناکام بناتے ہوئے کئی کارکنوں کوگرفتار کیا۔ یو این آئی کو موصولہ اطلاعات کے مطابق سوموا ر کو سری نگر کے مائسمہ علاقے میں مشترکہ مزاحمتی قیادت سے وابستہ درجنوں کارکنان وحمایتی جمع ہوئے اور انہوں نے دہلی کے تہاڑ جیل میں مدفون محمد مقبول بٹ اور افضل گورو کے باقیات کو واپس لوٹانے کے مطالبے کو لے کر احتجاجی مظاہرہ کرنا شروع کیا۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ وہاں پہلے سے ہی تعینات پولیس وسیکورٹی فورسز اہلکاروں نے ریلی کوناکام بنانے کے لئے احتجاجیوں کا راستہ روک کر ان میں سے کئی کارکنوں کو گرفتار کیا۔ کشمیر انتظامیہ نے مقبول بٹ کی 35 ویں برسی کے پیش نظر علیحدگی پسند راہنمائوں اور کارکنوں کو کسی بھی احتجاجی جلوس یا ریلی کا حصہ بننے سے روکنے کے لئے تھانہ یا خانہ نظربند رکھا۔ اس کے علاوہ گرمائی دارالحکومت سری نگر میں حساس مانے جانے والے علاقوں میں پابندیاں عائد کر رکھیں۔ شمالی کشمیر کے ضلع کپواڑہ جو کہ مقبول بٹ کا آبائی ضلع ہے، کے مختلف حصوں بالخصوص آبائی گائوں ترہگام میں بھی پابندیاں عائد کر رکھی گئیں۔ بزرگ علیحدگی پسند راہنما و حریت (گ) چیئرمین مسٹر گیلانی کو گذشتہ 9 برسوں سے ایئرپورٹ روڑ پر واقع حیدرپورہ میں اپنی رہائش گاہ پر نظر بند رکھا گیا ہے۔ حریت (ع) کے ایک ترجمان نے بتایا کہ چیئرمین میرواعظ کو جمعہ کے روز تاریخی جامع مسجد میں نماز کی ادائیگی کے بعد سے ہی اپنی رہائش گاہ پر نظربند رکھا گیا ہے۔ سیکورٹی وجوہات کی بناء پر وادی بھر میں ریل سروس معطل رکھی گئی۔ ریلوے کے ایک سینئر عہدیدار نے یو این آئی کو بتایا ’ ہم نے ریل سروس کو سیکورٹی وجوہات کی بناء پر معطل کیا ہے‘۔ انہوں نے بتایا کہ شمالی کشمیر کے بارہمولہ اور جموں خطہ کے بانہال کے درمیان پیر کو کوئی بھی ریل گاڑی نہیں چلی۔ مذکورہ عہدیدار نے بتایا ’ریل سروس کو معطل رکھنے کا فیصلہ ریاستی پولیس کی جانب سے اس حوالے سے ہدایات ملنے کے بعد لیا گیا ہے‘۔ مزاحمتی قیادت کی جانب سے بلائی گئی ہڑتال کے نتیجے میں سری نگر اور اس کے مضافاتی علاقوں میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آمدورفت معطل رہی۔ سری نگر کے پائین شہر اور سیول لائنز کے کچھ علاقوں میں احتجاجی مظاہروں کو روکنے کے لئے سیکورٹی پابندیاں عائد رہیں جن کی وجہ سے وہاں تمام طرح کی سرگرمیاں مفلوج رہیں۔ پولیس نے بتایا کہ پائین شہر اور سیول لائنز کے کچھ علاقوں میں امن وامان کی صورتحال کو بنائے رکھنے کے لئے دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ تاہم ایسے علاقوں میں زمینی صورتحال پولیس کے دعوئوں کے برخلاف نظر آئی۔ پابندی والے بیشتر علاقوں میں سڑکوں کو خاردار تاروں سے سیل کردیا گیا تھا۔ پائین شہر کے سبھی علاقوں میں احتجاجی مظاہروں کو روکنے کے لئے سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کی بھاری جمعیت تعینات رہی۔ پائین شہر کے نوہٹہ علاقہ میں واقع تاریخی جامع مسجد جہاں حریت (ع) چیئرمین میرواعظ ہر جمعہ کو اپنا معمول کا خطبہ دیتے ہیں، کے باب الداخلوں کو ایک بار پھر مقفل رکھا گیا ۔ اس تاریخی مسجد کے باہر سینکڑوں کی تعداد میں سیکورٹی فورس اہلکار تعینات رہے۔ یو این آئی کے ایک نامہ نگار جس نے پائین شہر کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا، نے بتایا کہ نالہ مار روڑ کو سیل رکھا گیا تھا۔ اس کے علاوہ متعدد علاقوں کی بنیادی سڑکیں بھی بند کردی گئی تھیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی کے باعث سری نگر کے بیشتر سرکاری دفاتر اور بینکوں میں معمول کا کام کاج بری طرح متاثر رہا۔ سیول لائنز میں مائسمہ جہاں جے کے ایل ایف کا ہیڈکوارٹر واقع ہے، کی طرف جانے والی سڑکوں کو خاردار تار سے بند رکھا گیا تھا۔ تاریخی لال چوک کے اردگرد بھی رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق سیکورٹی فورسز نے کپواڑہ میں بٹ کے آبائی گائوں ترہگام کی طرف جانے والی سڑکوں کو خاردار تار سے سیل کیا تھا۔ بارہمولہ سے بھی مکمل ہڑتال کی اطلاعات موصول ہوئیں جہاں تمام تجارتی اور دیگر سرگرمیاں معطل رہیں۔ قصبے میں اولڈ ٹاون کو سیول لائنز کے ساتھ جوڑنے والے پلوں پر سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات رہی۔ اننت ناگ سے موصولہ ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی کشمیر کے اس اور دیگر قصبوں اور تحصیل ہیڈکوارٹروں میں بھی ہڑتال کی وجہ سے معمولات زندگی مکمل طور پر مفلوج رہے۔ جنوبی کشمیر میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آمدورفت معطل رہی۔ سرکاری دفاتر اور بینکوں میں معمول کا کام کاج متاثر رہا۔ تاہم سری نگر جموں قومی شاہراہ پر اکا دکا گاڑیاں چلتی ہوئی نظر آئیں۔ ایسی ہی رپورٹیں وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام اور گاندربل سے بھی موصول ہوئیں۔