محبت بھی کیا عجب شے ہے

0
0

 

سبزار احمد بٹ
اویل نورآباد

محبت لفظ سنتے ہی من میں لڑو پھوٹنے لگتے ہیں۔ چہرے پر مسکان آجاتی ہے۔اور آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک ۔عجیب احساس ہے یہ محبت بھی دیکھا جائے تو یی محبت ایک آفاقی جذبہ ہے اور یہ جزبہ زمان و مکاں سے بلند و بالا ہے ۔ہر انسان کو محبت سے بے انتہا محبت ہے۔اور تقریباً ہر انسان اس احساس اور اس جزبے سے کم یا زیادہ کامیاب یا ناکام ہو کر گزر ہی چکا ہے اور جو اس انوکھے جزبے اور احساس سے محروم رہا۔وہ زندگی کے ایک خوبصورت تجربے سے محروم رہا ۔جس نے محبت میں کامیابی حاصل کی ہو وہ تو اس احساس سے خوش ہے کہ اسے اپنی محبت مل گئی ۔لیکن جو بظاہر محبت میں ناکام ہوا ہے ۔وہ بھی بالکل خالی نہیں رہ جاتا ہے ۔محبت میں ناکام ہونے پر بڑے بڑے خزانے انسانوں کے ہاتھ لگے ہیں۔ انسان میں ایک طرح کی حساسیت پیدا ہوجاتی ہے۔کبھی کوئی بہترین شاعر بن بیٹھا ہے تو کبھی کوئی بہترین افسانہ نگار۔کوئی مصور بنتا ہے تو کوئی کچھ اور۔یعنی محبت کا انوکھا احساس انسان کو ناکام ہونے پر بھی کوئی نہ ہو بہترین تحفہ عطا کرتا ہے۔اور اس سے انسان وہ شہرت و عزت حاصل کر لیتا ہے جو شاید محبت میں ملی کامیابی سے نہیں ملتی۔کہتے ہیں نا کہ محبت کی نہیں جاتی بس ہوجاتی ہے دیکھا جائے تو کسی حد تک سچ بھی ہے ۔یہ ایک اتفاقی احساس ہے کب ؟کس کو؟ کہاں ؟کس سے؟ کن حالات میں ؟ ہو جائے کچھ پتا نہیں چلتا ۔محبت کبھی ذات پات، رنگ نسل، یہاں تک کہ عمر کی بھی قائل نہیں رہتی۔ کبھی کسی کالے کو پری رخ مہہ جبیں سے ہو جاتی ہے تو کبھی کسی شہزادے کو ایک عام سی لڑکی سے ۔چونکہ معاشرہ رنگ نسل، ذات پات، دولت اور مذہب کا قائل ہے اس لیے محبت کرنے والوں کو اپنی محبت حاصل کرنے کے لیے نہ جانے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں۔لیکن یہ ایسا جزبہ ہے کہ انسان میں طاقتور سے طاقتور قوتوں سے لڑنے کی ہمت پیدا ہوتی ہے اور انسان تب تک چین سے نہیں بیٹھتا جب تک اپنی محبت حاصل نہیں کرتا ہے اور کبھی ایسا نہیں ہوا ہو گا کہ محبت کرنے والوں نے ہتھیار ڈالے ہوں ۔اور اپنی ہار تسلیم کر لی ہو۔ارے ہاں میں تو محبت کے احساس میں اس قدر بہہ گیا کہ میں آپ لوگوں کو بتانا ہی بھول گیا کہ یہ سب تو فلموں اور ڈراموں میں ہوتا ہے اصل زندگی میں کچھ اور ہی معاملہ ہوتا ہے بلکہ اصل زندگی میں سب کچھ اس کے برعکس ہوتا ہے۔محبت کرنے والوں کے حصے میں گالیاں ،رسوائی بے عزتی اور نہ جانے کیا کیا آتا ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ محبت کرنے والوں کے لیے ان سب باتوں کے مطلب بدل جاتے ہیں۔محبت کرنے والے ان گالیوں کو اپنے لیے پھول سمجھتے ہیں اور محبوب کی گلیوں میں ہونی والی رسوائی کو اپنی عزت سمجھتے ہیں ۔اور محبت کرنے والا محبوب کی گلیوں میں چلنے والے جانوروں کو بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور سر نگوں ہو کر چلتا ہے۔ دن بھر محبوب کی گلیوں میں اس انداز سے گھومتا ہے کہ جیسے سب لوگ اندھے ہوں اور اسے کوئی دیکھتا نہیں ہے۔نہ بھوک کا احساس ہوتا ہے اور نہ پیار کا۔اور پھر ااگر کبھی محبوب سے ملاقات ہوجاتی ہے تو انسان اور بھی مست ہوجاتا ہے اور وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا بلکہ انسان چاہتا ہے کہ محبوب کے ہاتھ میں اس کا ہاتھ ہو اور محبوب کی گود میں سر اور یہ وقت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رک جائے ۔عجیب بات یہ ہے کہ محبت کرنے والے کے لیے دیکھنے کا بھی انداز بدل جاتا ہے۔اسے لوگ حقارت کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں وہ اپنے لیے نظرِ کرم سمجھتا ہے۔لوگ تو لوگ گھر میں بھی اس کی عزت کا جنازہ دھوم سے اٹھایا جاتا ہے لیکن اسے کوئی فرق نہیں پڑتا اُسے یہ سب سمجھ آئے تب نا۔وہ ان سب باتوں سے بے خبر اپنی ہی دنیا میں مگن رہتا ہے ۔اسے اس بات کہ کہاں پرواہ کہ کون اسے عزت کی نظروں سے دیکھتا ہے اور کون حقارت اور ذلّت کی نظروں سے۔وہ تو اپنے محبوب کو دیوانگی کی حد تک چاہتا ہے۔اس کے بغیر سب کچھ پھیکا پھیکا سا لگتا ہے۔محبوب کو پانا ہی اس کی زندگی کا اصل مقصد بن چکا ہوتا ہے۔ لیکن ایسے میں انسان کبھی کبھی عجیب اور احمقانہ حرکتیں بھی سرانجام دیتا ہے۔کبھی اپنے آپ سے باتیں کرتا ہے تو کبھی من ہی من میں مسکراتا ہے۔کبھی مٹی پر اپنے محبوب کا نام لکھتا ہے تو کبھی اپنے ہاتھوں پر۔یوں سمجھ لیجئے کہ ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی ہوتی ہے۔کبھی اپنے آپ سے ہی بڑبڑاتا ہے جیسے کوئی جن یا پری سوار ہوئی ہو۔بات زیادہ تب بگڑتی ہے جب محبت یکطرفہ ہو۔ایسے میں انسان من ہی من میں کسی کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے۔اور اس سے بہت ساری توقعات وابستہ کر لیتا ہے۔کبھی اس پر نظر رکھتا ہے کہ کس سے ملتا ہے کس سے باتیں کرتا ہے۔کیا کھاتا ہے کیا پہنتا ہے۔جبکہ اگلا بندہ اس سب سے بے خبر اپنی دنیا میں مگن ہوتا ہے اسے کہاں خبر کہ کسی دیوانے نے اس کو بتائے بغیر اسے اپنا محبوب بنایا ہے۔یکطرفہ محبت میں انسان کچھ زیادہ ہی جلتا ہے۔کوئی خوشی کا موقع ہو، سال گرہ ہو، کوئی غم یا مصیبت ہو محبوب سے امید لگائی جاتی ہے کہ وہ خوشی یا تعزیت کا پیغام ضرور بیجھے گا۔ایسے میں جب پیغام نہیں ملتا ہے تو انسان شرارت کی آگ میں جل جاتا ہے۔ اس حالت میں کچھ لوگ سگریٹ سلگا کر اپنا درد دھوئیں کی نظر کرتے ہیں تو کچھ لوگ اپنے من پسند گیت گانے سن کر اپنا درد بانٹتے ہیں لیکن ایسے شخص کو کون سمجھائے کہ جسے تو اپنا محبوب سمجھ بیٹھا ہے وہ آپ کو جانتا تک نہیں ہے اور وہ آپ کے اس احساس سے بالکل بے خبر ہے۔اللہ کرے کہ کسی کو یکطرفہ محبت نہ ہو۔انسان چاہے محبت میں کامیاب ہو یا ناکام لیکن جب اس احساس سے باہر آجاتا ہے تب انسان کو پتہ چلتا ہے کہ وہ کیا دیوانوں اور پاگلوں جیسی حرکتیں کرتا تھا۔جب کبھی محبت میں کی ہوئی حرکتیں تنہائی میں یاد آجاتی ہیں تو شرمندگی سے اپنا سر جھکا لیتا ہے۔محبت کے احساس سے نکلا ہوا شخص جب کسی کو محبت کے جال میں پھڑپھڑاتا ہوا دیکھتا ہے تو دل کرتا ہے کہ اسے اس سب کی اصلیت بتا کر اس جال سے آزاد کر دے۔لیکن ساتھ ہی محبت میں گنوائے ہوئے اپنے دن یاد آجاتے ہیں اور چپ چاپ نکل جاتا ہے ہاں مگر ایسے میں میر کا ایک شعر اس کے ذہن میں گشت کرنے لگتا ہے
ہوں اس کوچے کے ہر ذرے سے آگاہ
ادھر سے مدتوں آیا گیا ہوں

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا