گود لئے ہوئے بچے کی شرعی حیثیت

0
0

ڈاکٹر مفتی عرفان عالم قاسمی

9826268925

ہمارے معاشرے میں عموماً بچپن میں کسی بچے یا بچی کو کوئی قریبی رشتہ دار متبنی (منہ بولا بیٹا/بیٹی) بنا لیتا ہے اب اس متبنیٰ کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے سرکاری تعلیمی ریکارڈ میں ولدیت کیا لکھی جائے گی؟ کیا متبنی اپنے پرورش کرنے والے کا وارث بن سکتا ہے؟ تو اس بارے میں اسلامی قانون یہ ہےکہ متبنی بنانے والا شخص نہ باپ ہے نہ متبنیٰ اس کا بیٹا یا اولاد لہٰذا باپ کی جگہ صرف اور صرف اس کے حقیقی باپ کا نام ہی لکھا اور پکارا جائے گا اور نہ ہی یہ متبنی اپنے پرورش کرنے والے کا وارث بن سکتا ہے کیوں کہ متبنیٰ بنانے والا شخص اس بچے کا نہ باپ ہے نہ متبنیٰ اس کا بیٹا یا اولاد، لہٰذا باپ کی جگہ صرف اور صرف اس کے حقیقی باپ کا نام ہی تعلیم و تربیت کے حوالے سے سرکاری تعلیمی ریکارڈ میں لکھا جائے گا۔ قرآن کریم کا واضح حکم ہے وَمَا جَعَلَ اَد±عِیَآئَکُم± اَب±نَآئَکُم±۔ ذٰلِکُم± قَو±لُکُم± بِاَف±وَاھِکُم±۔ وَاللّٰہُ یَقُو±لُ ال±حَقَّ وَھُوَ یَھ±دِی السَّبِی±لَ۔ اُد±عُو±ھُم± لِاٰبَآئِھِم± ھُوَ اَق±سَطُ عِن±دَ اللّٰہِ۔ فَاِن± لَّم± تَع±لَمُو±ٓا اٰبَآئَ ھُم± فَاِخ±وَانُکُم± فِی الدِّی±نِ۔(سورة الاحزاب 33) اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے (حقیقی) بیٹے بنایا، یہ سب تمہارے منہ کی اپنی باتیں ہیں اور اللہ حق بات فرماتا ہے اور وہی (سیدھا) راستہ دکھاتا ہے۔ تم ان (منہ بولے بیٹوں)کو ان کے باپ (ہی کے نام) سے پکارا کرو۔ یہی اللہ کے نزدیک زیادہ عدل ہے۔ پھر اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو (وہ) دین میں تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں۔ متبنیٰ (منہ بولے بیٹے/ بیٹی) کے حقیقی والدین ہی اس کے والدین ہیں اور رہیں گے خواہ پرورش کوئی کرے۔ اسلامی شریعت میں حقیقی والد کا نام ہی والد کے طور پر لکھا اور بتایا جائے گا۔ دوسرے کی طرف منسوب کرکے اس کا بیٹا کہنا یا لکھنا حرام ہے۔ شریعت مطہرہ کی نگاہ میں وہ بچہ باپ کی طرف منسوب ہوگا جو واقعتا منسوب ہے جو باپ کے نطفے سے جنم لے کر اس کے گھر میں پرورش پاتا ہے۔ حقیقی بچے کو شریعت نے ایک الگ ہی نظر سے دیکھ کر اس کے احکام میراث اور اس کے حقوق و وسائل لوگوں کے ذمہ عائد کئے ہیں کیوں کہ یہاں پر بچے کی نسبت باپ کی طرف صدق بیانی، سچائی اور حقانیت پر مبنی ہے، اس کے برخلاف کسی اجنبی بچے کو کوئی شخص گود لے لیتا ہے اس کو اپنا بچہ کہتا اور کہلواتا ہے اور اس کو وہی حقوق دلانا چاہتا ہے جو اصلی اور حقیقی بیٹے کے ہیں تو یہ بات شریعت کی نگاہ میں سراسر جھوٹ اور دروغ بیانی پر محمول ہے۔ کیا اسلام کسی کا سہارا بننے سے روکتا ہے اسلام میں کسی کو سہارا دینا، مدد کرنا، تعاون کرنا، یتیم کا سہارا بننا یہ سب باتیں مستحسن سمجھی گئیں ہیں اور اسلام انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے لیکن اسلام میں رشتے صرف وہی معتبر ہیں جونسب کی بنیاد یا سسرال کی بنیاد پر ہوں کوئی گود لینے سے حقیقی اولاد نہیں بن جاتا اور نہ اس کو حقیقی اولاد کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔ البتہ شریعت کی نگاہ میں کسی اجنبی بچے کو گود لے کر اس کی پرورش پرداخت کرنا، اس کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرنا، اسے اچھا شہری اور اسے ایک اچھا انسان بنانے سے منع نہیں کرتا بلکہ شریعت کی نگاہ میں ایسا عمل باعث اجر و ثواب ہی نہیں بلکہ درجات کی بلندی کا بھی سبب ہے۔ہمارے نبی رہبر انسانیت صلّٰی اللہ علیہ وسلم نے خود حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گود لے کر ان کی پرورش و پرداخت اور ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام فرمایا ۔ آنحضرت صلّٰی اللہ علیہ وسلم کا تو حال یہ تھا کہ جب کبھی آپ صلّٰی اللہ علیہ وسلم کسی نادار اور بے سہارا بچے کو دیکھتے تو نہایت آبدیدہ ہوجاتے۔ ایک دفعہ ایک چھوٹے بچے بشیر الجھنی رضی اللہ عنہ کو نہایت قابل رحم حالت میں دیکھا تو پوچھا اے بچے! تم اتنے مغموم و ملول کیوں ہو؟ بچے نے کہا میرے والد کا سایہ میرے سر سے اٹھ چکا ہے۔ حضور اکرم صلّٰی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کو اسی وقت اپنے دولت کدے پر لے آئے اور اپنی شریک حیات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا اس بچے کو نہلاو¿، دھلاو¿ اور اسے عمدہ لباس زیب تن کراو¿۔ پھر اس بچے سے کہا کہ کیا تم اس بات سے راضی و خوش نہیں ہو کہ محمد صلّٰی اللہ علیہ وسلم تمہارے باپ اور عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تمہاری ماں بن جائے۔ اسی طرح حضرت زید رضی اللہ عنہ کو حضور صلّٰی اللہ علیہ وسلم کا منہ بولا بیٹا بنانا اور اپنی وراثت میں عرب کے دستور کے مطابق حصے داری کا اعلان کرنا اسلامی تاریخ میں نہایت مشہور ہے جس کا واقعہ یہ ہے کہ 595ءمیں جب حضرت محمد صلّٰی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح کیا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلّٰی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لئے ایک پندرہ سالہ غلام زید بن حارثہ کو پیش کیا جو یمن کے قبیلے بنوقضاعہ کے سردار حارثہ بن شراحیل کے لخت جگر تھے جو آٹھ سال کی عمر میں ڈاکوو¿ں کے ہاتھ لگ گئے تھے۔ زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ سعدیٰ بنت ثعلبہ قبیلہ¿ طے کی شاخ بنی معن سے تھیں۔ یہ اپنی والدہ کے ساتھ نانیہال جارہے تھے کہ وہاں سفر میں ان کے قافلہ پر قین بن جسر کے لوگوں نے حملہ کیا۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ کو پکڑ کر عکاظ میں بیچ دیا تھا۔ جب یہ حضور اقدس صلّٰی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہ رہے تھے کہ کافی دنوں کے بعد زید کے گھر والوں کو پتہ لگا کہ زید مکہ میں ہیں تو ان کے والد حارثہ بن شراحیل اور ان کے ساتھ زید کے چچا تلاش کرتے ہوئے مکہ پہنچے۔ یہاں آکر انہوں نے محمد صلّٰی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور کہا اے محمد! صلّٰی اللہ علیہ وسلم آپ بڑے اعلیٰ اور شریف گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور خود بھی آپ لوگوں کے ساتھ بھلائی و خیرخواہی کا معاملہ فرماتے ہیں۔ اس وقت ہم آپ کے پاس ایک درخواست لیکر آئے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ ہمیںمایوس نہیں فرمائیں گے۔ کہا کہ کئی سال ہوا میرا لڑکا یہاں مکہ میں ہے جو غلامی کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں تاکہ ہمارا بیٹا ہمیں مل جائے۔ حضور اکرم صلّٰی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم زید کے متعلق بات کر رہے ہو۔ انہوں نے کہا ہاں۔ زید ہمارا بیٹا ہے جو آپ کا غلام ہے۔ ہم آپ سے اپنا بیٹا مانگنے آئے ہیں۔ آپ ہم سے اس کے عوض جتنا مال لینا چاہیں لے لیں ہم دینے کو تیار ہیں۔ یہ سن کر حضور اکرم صلّٰی اللہ علیہ وسلم سوچ میں پڑ گئے کیوں کہ آپ زید سے بے حد محبت فرماتے تھے اور زید کو بھی آپ صلّٰی اللہ علیہ وسلم سے لگاو¿ تھا۔ اس کے باوجود حضور اقدس صلّٰی اللہ علیہ وسلم نے کہا زید کو بلائیے۔ اگر وہ آپ کے ساتھ جانا چاہے تو خوشی سے چلا جائے۔ میں آپ سے ایک پیسہ بھی نہیں لونگا اور اگر وہ میرے ساتھ رہنا چاہے تو میں ایسا نہیں ہوں کہ جو مجھ سے محبت کرے اسے خود سے جدا کردوں۔ حارثہ کو بالکل یہ توقع نہ تھی کہ آپ صلّٰی اللہ علیہ وسلم یہ جواب دیں گے۔ کیونکہ انہوں نے ایسا معاملہ کبھی دیکھا تھا اور نہ ہی سنا تھا۔ اس لئے انہوں نے برجستہ کہا کہ آپ نے تو انصاف سے بھی بڑھ کر بات کہہ دی۔ زید کو بلایا گیا۔ جب زید حاضر ہوئے تو رسول اللہ صلّٰی اللہ علیہ وسلم نے زید سے کہا تم ان دونوں کو پہچانتے ہو۔ زید نے جواب دیا جی ہاں! یہ میرے والد ہیں اور یہ چچا۔ حضور صلّٰی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ یہ دونوں تمہیں لینے آئے ہیں تم مجھے بھی جانتے ہو تم چاہو تو میرے ساتھ رہ سکتے ہو اور چاہو تو گھر جاسکتے ہو۔ حضرت زید نے جواب دیا کہ میں آپ کا ساتھ چھوڑ کر کہیں نہیں جاسکتا۔ حارثہ اور ان کے بھائی یہ جواب سن کر بہت حیران ہوئے اور کہا بیٹے! تم ماں، باپ، عزیز اور رشتہ دار گھر بار چھوڑ کر غلامی میں رہنا پسند کرتے ہو؟ زید نے جواب دیا جی ہاں! خدا کی قسم محمد صلّٰی اللہ علیہ وسلم کو میں نے جیسا پایا ویسا کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔ میں آپ پر اپنی جان لٹانے کو تیار ہوں۔ میں نے ان میں جو اوصاف دیکھے ہیں، اس کے بعد دنیا میں کسی کو بھی ان پر ترجیح نہیں دے سکتا۔ زید کا یہ جواب سن کر باپ اور چچا بہ خوشی راضی ہوگئے کہ زید کو حضور صلّٰی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہنے دیں۔  جب وہ مایوس ہوکر لوٹنے لگے تو حضور صلّٰی اللہ علیہ وسلم نے زید اور ان کے والد کو حرم میں لے جاکر قریش کے عام مجمع میں اعلان فرمایا کہ میں زید کو آزاد کرتا ہوں۔ آپ سب لوگ گواہ رہیں کہ آج سے زید میرا بیٹا ہے۔ یہ مجھ سے وراثت پائے گا اور میں اس سے اسی بنا پر لوگ ان کو زید بن محمد کہنے لگے۔ اسلامی تاریخ سے شغف رکھنے والے لوگ اس واقعہ سے بھی بخوبی واقف ہوں گے کہ صلح حدیبیہ کے موقع سے جب نبی کریم ﷺ مکہ سے روانہ ہونے لگے تو حضر ت امیر حمزہ ؓ کی ایک چھوٹی صاحبزادی جن کا نام ”امامہ“تھا نبی کریم ﷺ کو چچاچچا کہتی ہوئی دوڑ ی آئیں حضرت حمزہ ؓ جنگ احد میں شہید ہوچکے تھے یہ چھوٹی یتیم بچی مکہ میں رہ گئی تھیں۔حضرت زید بن حارثہ ؓ اس کمسن بچی کو مدینہ منورہ لے آئے لیکن مدینہ پہونچنے کے بعد حضرت علی ؓ اور حضرت جعفر ؓ موقع پر پہنچ گئے۔حضرت جعفرؓ کاکہنا تھاکہ اس بچی کی پرورش میں کرونگا کیونکہ یہ میرے چچا کی بچی ہے اور میری بیوی اس کی سگی خالہ ہے جبکہ حضرت علی ؓ کا فرمانا تھا یہ میرے بھی چچا کی بچی ہے اور میرے گھر میں نبی کریم ﷺ کی بیٹی بھی ہے ،یہ دیکھ حضرت زید بن حارثہ بھی مدعی بن گئے کہ میں اتنے طویل سفر اور دقت وپریشانی سے یہ بچی لایا ہوں ،اس لئے اس کی پرورش میں کرونگا۔آخرکار مقدمہ نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں پیش ہوا۔نبی کریم ﷺ نے مقدمے کی سماعت کے بعد فیصلہ فرمایا کہ چونکہ خالہ ما ں کی عدم موجود گی میں ماں کے برابر ہوتی ہے اور وہ حضرت جعفر ؓ کے حرم میں ہے ،اس لئے بچی کی پرورش وہ کریں گے ذرا غور تو کریں کہ یہ یہی عرب ہے جہاں لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے اور اب اسلام کی عظمت دیکھئے کہ صرف چند برسوں میں آج یہ کیفیت تھی کہ ایک چھوٹی بچی کی پرورش کے لئے وہی عرب کے لوگ جھگڑرہے تھے ۔(صحیح بخاری جلد۲)حضرت زیدؓ کا حضرت زینبؓ سے نکاحہجرت کے چار سال بعد حضور اقدس صلّٰی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید کے لئے حضرت زینب کے ساتھ نکاح کا پیغام دیا۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا حضور اکرم صلّٰی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کی بیٹی تھیں۔جب حضرت زینب رضی اللہ عنہا اور ان کے رشتہ داروں نے یہ رشتہ ناپسند کیا تو قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی: وَمَاکَانَ لِمُو¿±مِنٍ وَّلَامُو¿±مِنَةٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُو±لُہ¾ٓ اَم±رًا اَن± یَّکُو±نَ لَھُمُ ال±خِیَرَةُ مِن± اَم±رِھِم±۔ وَمَن± یَّع±صِ اللّٰہَ وَرَسُو±لَہ¾ فَقَد± ضَلَّ ضَلٰلاً مُّبِی±نًا۔ (سورہ احزاب: 34) کسی مو¿من مرد اور مو¿من عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول صلّٰی اللہ علیہ وسلم کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول صلّٰی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔ اللہ کے اس حکم کو سنتے ہی حضرت زینب رضی اللہ عنہا اور ان کے سب خاندان والوں نے بلا تا¿مل سراطاعت خم کر دیا۔ اس کے بعد حضور اقدس صلّٰی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح پڑھایا اور خود حضرت زید رضی اللہ عنہ کی طرف سے دس دینار اور ساٹھ درہم مہر ادا کیا اور گھر بسانے کے لئے ان کو ضروری سامان عنایت فرمایا۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے اگرچہ اللہ اور اس کے رسول صلّٰی اللہ علیہ وسلم کا حکم مان کر زید رضی اللہ عنہ کے نکاح میں جانا قبول کر لیا تھا لیکن ان کے ازدواجی تعلقات خوشگوار نہ رہے۔ اس لئے سال سے کچھ زائد عرصہ کے بعد ہی طلاق کی نوبت آگئی۔ دوسری طرف خود رسول اللہ صلّٰی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے اس عمل کا آغاز ہوا کہ بچوں کو ان کے حقیقی باپوں کے نام سے پکارا جائے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل کیا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا اصلی بیٹا قرار نہیں دیا تم جو انہیں بیٹا بنانے والے کا بیٹا سمجھتے ہو اور اس پر حقیقی کا قانون جاری کرتے ہو یہ غلط ہے۔ تمہاری اپنی منہ بولی باتیں ہیں۔ اللہ کی شریعت کے خلاف ہے اور اللہ تعالیٰ حق بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتلاتا ہے۔ منہ بولے بیٹے تمہارے بیٹے نہیں تو تم ان کو متبنی بنانے والوں کا بیٹا مت کہو بلکہ ان کے حقیقی باپوں کی طرف نسبت کرکے پکارو یہ اللہ کے نزدیک انصاف کی بات ہے اور اگر تم ان کے باپوں کو نہیں جانتے ہو تو ان کو اپنا بھائی یا اپنا دوست کہہ کر پکارو کیونکہ وہ تمہارا دینی بھائی ہے اور جو تم سے خطا ہوجائے اس کے بارے میں تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم بھولے سے منہ بولے بیٹے کو بیٹا بنانے والے کا طرف نسبت کر بیٹھو تو اس پر گناہ نہیں ہے لیکن اس کے خلاف ورزی دلی ارادہ کے ساتھ قصداً ہوجائے تو مواخذہ کی بات ہے اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا ہے مہربان ہے گناہ ہو جائے تو مغفرت طلب کرو توبہ کرو، چنانچہ اس کے بعد زید جو حضور اکرم صلّٰی اللہ علیہ وسلم کے منہ بولے بیٹے تھے اور زید بن محمد کے نام سے مشہور تھے ان کو زید ابن حارثہ کہا جانے لگا۔ بخاری، مسلم نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ حضور اکرم صلّٰی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَن± اَد±عٰی اِلٰی غَی±رِ اَبِی±ہ وَ ہُوَ یَع±لَمُ اَنَّہ¾ غَی±رُ اَبِی±ہ فَال±جَنَّةُ علیہ حَرَامµ۔ جس نے اپنے آپ کو باپ کے سوا کسی اور کا بیٹا کہا درآں حالانکہ وہ جانتا ہو کہ وہ شخص اس کا باپ نہیں ہے اس پر جنت حرام ہے۔“حضور اکرم صلّٰی اللہ علیہ وسلم معاشرت جاہلیت کے نشانے پر اس زمانے میں جب حضرت زیدؓ اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے درمیان ناخوشگوار حالات بڑھ رہے تھے اور ان دونوں کے درمیان دن بدن تلخیاں اور ناچاقیاں بڑھتی ہی جارہی تھیں اور حضور اکرم صلّٰی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اشارہ مل چکا تھا کہ جب حضرت زیدؓ اپنی بیوی کو طلاق دے دیں گے تو اس سے آپ کو نکاح کرنا ہوگا لیکن عرب کے جاہلی دستور کے مطابق منہ بولے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرنا نہایت معیوب سمجھا جاتا تھا۔ حضرت اکرم صلّٰی اللہ علیہ وسلم نے یہ سوچا کہ اس طرح تو اسلام کے خلاف منافقین اور مشرکین کو ہنگامہ آرائی کا موقع ہاتھ لگ جائے گا چنانچہ جب حضرت زید رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ کیا تو حضور اکرم صلّٰی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنی بیوی کو طلاق نہ دو۔ اس سے آپ صلّٰی اللہ علیہ وسلم کا منشاءیہ تھا کہ جب حضرت زید طلاق نہ دیں گے تو مجھے حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح نہ کرنا پڑے گا ورنہ طلاق دینے کی صورت میں مجھے حکم کی تعمیل کرنی ہوگی جس سے مشرکین و منافقین کو مجھ پر اور اسلام پر کیچڑ اچھالنے کا موقع ہاتھ لگ جائے گا۔ لیکن اللہ رب العزت آپ ﷺکو اولعزمی اور دعوت و عزیمت کے اعلیٰ مراتب پر فائز دیکھنا چاہتا تھا اور اس مصلحت سے زمانہ جاہلیت کے اس برے رسم کو ختم کرنا چاہتا تھا اور اس کی ابتداءخود آپ کی ذات اقدس سے کرنا چاہتا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ حکم نازل فرمایا: وَاِذ± تَقُو±لُ لِلَّذِی±ٓ اَن±عَمَ اللّٰہُ عَلَی±ہِ وَ اَن±عَم±تَ عَلَی±ہِ اَم±سِک± عَلَی±کَ زَو±جَکَ وَاتَّقِ اللّٰہَ وَتُخ±فِی± فِی± نَف±سِکَ مَا اللّٰہُ مُب±دِی±ہِ وَتَخ±شَی النَّاسَ۔ وَاللّٰہُ اَحَقُّ اَن± تَخ±شٰئہُ ۔ (سورہ احزاب: 37) اے نبی! یاد کرو وہ مواقع جب تم اس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ تعالیٰ نے اور تم نے احسان کیا تھا کہ اپنی بیوی کو نہ چھوڑو اور اللہ سے ڈرو۔ اس وقت تم اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جس کو اللہ کھولنا چاہتا تھا۔ تم لوگوں سے ڈر رہے تھے۔ حالانکہ اللہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو۔حضر ت زینب ؓ کا حضور ﷺ سے نکاح  حضرت حضرت زید رضی اللہ عنہ نے حضرت زینب کو طلاق دے دی اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی عدت پوری ہوگئی تو اس کے بعد حضور اقدس صلّٰی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم سے حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا۔ قرآن مجید میں ہے: فَلَمَّا قَضٰی زَی±دµ مِّن±ھَا وَطَرًا زَوَّج±نٰکَھَا لِکَی± لَا یَکُو±نَ عَلَی ال±مُو¿±مِنِی±نَ حَرَجµ فِی±ٓ اَز±وَاجِ اَد±عِیَآئِھِم± اِذَا قَضَو±ا مِن±ھُنَّ وَطَرًا۔ وَکَانَ اَم±رُاللّٰہِ مَف±عُو±لاَ۔(الاحزاب: 37) جب زید اس سے اپنی حاجت پوری کر چکے (یعنی عدت پوری ہوگئی) تو ہم نے اس (مطلقہ خاتون) کا نکاح تم سے کر دیا، تاکہ مو¿منوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملہ میں کوئی تنگی نہ رہے۔ جب کہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کرچکے ہوں اور اللہ کا حکم تو عمل میں آنا ہی چاہئے تھا۔ اس طرح زمانہ¿ جاہلیت کے اس فعل بد کو جس سے عرب جذباتی تعلق رکھتے تھے اس کو مٹانے کے لئے خود اللہ نے حضور اکرم صلّٰی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو انتخاب فرما کر اس رسم بد پر کاری ضرب لگائی۔یہ دنیا دارالامتحان ہے  متبنیٰ کے سلسلے میں قرآن کریم کی صریح آیت کے نزول کے بعد گود لئے ہوئے بچے کو وراثت میں حصے دار ماننا اور اس بچے کا حقیقی باپ کے بجائے گود لئے ہوئے شخص کی طرف نسبت کرنا میراث کے مسائل، کفالت کے مسائل، مال و جائیداد کے مسائل، نفقات و موالات کے مسائل، پردہ کے مسائل اور نکاح کے مسائل میں گود لئے ہوئے بچے کو حقیقی بچے کی طرح ماننا اسلام کی نگاہ میں ناجائز و حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حقیقی بیٹوں کے لئے میراث کے مسائل قرآن پاک میں نہایت واضح اور کھلے طور پر بیان کر دیے ہیں۔ قرآن کریم میں جتنی صراحت کے ساتھ وراثت کے احکام بیان کئے گئے ہیں نماز، روزہ، زکوٰة اور حج کے مسائل بھی اتنی صراحت سے بیان نہیں کئے گئے ہیں، اس لئے وراثت کو بانٹنا اللہ کی طرف سے فریضہ ہے۔ فریضہ فرض سے بڑھ کر ہے، جس طرح ہمارے ذہنوں میں ہے کہ فرض چھوڑ دیں گے تو سزا بھگتنا پڑے گی ویسے ہی اس پہلو پر بھی توجہ کرنی چاہئے کہ اتنے مہتم بالشان فریضہ میں کوتاہی کرکے اللہ کی گرفت سے کیسے بچ پائیں گے۔ اس لئے کہ وراثت کی ادائیگی فریضہ ہے اس کی ڈبل سزا بھگتنی پڑےگی۔اسلام میں یہ ہرگز جائز نہیں کہ کسی کا مال ناحق کھایا جائے۔ میراث کو شریعت کے مطابق تقسیم نہ کرنا ناحق حصہ داروں کا مال کھانا ہے۔ جسے نہ ہم غلط سمجھتے ہیں اور نہ ہی اس کی تقسیم کی صحیح شکلیں سیکھتے ہیں۔ حالانکہ یہ اللہ کی حدود ہیں جن کی فکر کرنی نہایت ضروری ہے۔ لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ گھر کا مال گھر میں ہی رہے کسی کو نا دیں تو اس سے مال بچ جائے گا اور بڑھے گا، گھٹے گا نہیں۔ جبکہ ایسا نہیں ہے بلکہ سب کو حصہ دیں گے جیسا اللہ کا حکم ہے تو مال بڑھے گا بھی اور اللہ کی طرف سے برکتیں بھی آئیں گی۔ گود لئے ہوئے بچے کے مسائل کو شریعت اسلامیہ نے نہایت صریح اور قطعی طور پر بیان کیا ہے جن کو قیامت تک کوئی انسان بدل نہیں سکتا۔ اسلام میں گود لئے ہوئے اولاد کو حقیقی اولاد کی طرح حقوق دینا خطا پر مبنی بات ہے کیوں کہ حقیقی بیٹے بیٹیوں کے لئے میراث کے مسائل قرآن پاک میں واضح طور پر بیان کر دئے گئے ہیں جس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں بالضبظ محفوظ ہیں جسے رد و بدل اور ترمیم و تنسیخ کرنے کا کسی انسان کو قیامت تک حق نہیں ہے۔ اسلام کا اپنا قانون وراثت موجود ہے اس لئے گود لئے ہوئے بچے کو وراثت کا حقدار بنانے کے لئے وصیت ضروری ہے اور وصیت بھی تہائی مال میں ہی نافذ ہوگی، جس طرح میت کا اپنا حقیقی بیٹا یا اپنی حقیقی بیٹی یا باپ وغیرہ وارث ہوسکتے ہیں اس طرح گود لیا ہوا بچہ نہیں ہوسکتا۔ وارث وہی ہوگا جو قانون شریعت کے تحت اس کا حقدار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر نعمت ہر انسان کو نہیں عطا کی بلکہ اس نے فرق رکھاہے اور یہ فرق بھی اس کی تخلیق کا کمال ہے کہ کسی کو اس نے صحت قابل رشک عطا کی، کسی کو علم دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا کسی کو دولت کم دی، کسی کو زیادہ دی، کسی کو بولنے کی صلاحیت غیر معمولی عطا کی، کسی کو تحریری صلاحیت بخشی، کسی کو کسی ہنر میں طاق بنایا، کسی کو بیٹے دیئے، کسی کو بیٹیاں، کسی کو بیٹے بیٹیاں، کسی کو اولاد زیادہ دی، کسی کو کم اور کسی کو دی ہی نہیں۔ یہ دنیا دار الامتحان ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کسی کو اولاد دے کر تو کسی کو اولاد سے محروم رکھ کر تو کسی کو اولاد کی قربانی مانگ کر آزماتا ہے تاکہ دیکھے کہ میرا کون بندہ میری مرضی کے مطابق زندگی گزار کر انعام و اکرام کا حقدار بنتا ہے۔  اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام تخلیقات میں سب سے معزز و مکرم انسان کو بنایا۔ اس کے لئے قوانین وضع کرکے جینے کا سلیقہ سکھایا، مثلاً نکاح کن لوگوں سے کن رشتوں میں ہو سکتا ہے، کن میں نہیں ہوسکتا، طلاق کے بعد عدت پوری ہونے پر عورت کس سے نکاح کرسکتی ہے، کس سے نہیں اسی طرح اسلام میں وراثت کا قانون خون کے حقیقی رشتوں کی بنیاد پر حصے مقرر کرتا ہے جب تک انسان اس قانون کے زیر سایہ زندگی گزارتا ہے تو دنیا و آخرت کی کامیابی و ترقی ملتی رہتی ہے اور معاشرہ و سماج امن و امان کا گہوارہ بنا رہتا ہے اور جب انسان خالق کائنات کے وضع کئے ہوئے قانون سے منہ موڑتا ہے تو ہر طرف معاشرے میں نت نئی برائیاں جنم لینے لگتی ہیں۔ اس کے برخلاف اسلام کے قانون کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور اطاعت کے لئے ہے جس پر عمل پیرا ہونے سے زمین سے فتنہ و فساد کا خاتمہ ہوتا ہے۔ قانون الٰہی پر عمل پیرا ہونے سے بندوں کے درمیان عدل و انصاف، امن و اطمینان کا قیام اور باہمی فزع و نزع اور فریب کا استیصال ہوتا ہے۔ اسلام میں انسانی معاملات کے سارے اصول فطری ہیں، ان میں نہ کوئی تغیر ہوا ہے نہ ہوگا۔ نیکی بدی نہیں بنتی، بدی نیکی نہیں، سچ جھوٹ نہیں ہوجاتا، جھوٹ سچ نہیں، ظلم انصاف کا نام نہیں پاتا اور انصاف ظلم کا نہیں، دوسروں کے حقوق غصب کرنا، دوسروں کی چیز ناحق لینا، دوسروں کے مال کو ناجائز طریق سے لے لینا، حق قانون کے بغیر کسی عورت پر تصرف کرنا، کسی کی جائیداد و ملکیت پر قبضہ کرنا ہمیشہ ناجائز رہا ہے اور رہے گا۔ اسلام نے میت کی جائیداد میں حق داروں کے حصے مقرر فرمائے ہیں تاکہ حقداروں کے حقوق محفوظ رہیں اگر میت کے رشتہ داروں اور والیوں میں سے کل جائیداد کا ایک ہی شخص کو کلی اختیار دے دیا جائے اور دوسرے اقرباءکے حصے اس میں مقرر نہ ہوں تو اکثر افراد جائیداد کو اپنی ذاتی اغراض میں اڑا دیتے ہیں اور اپنے فوائد و اغراض اور عیش و عشرت کے سوائے دوسرے حقداروں کی غور و پرداخت اور ان کے حقوق کی پرواہ نہیں کرتے اور جائیداد میں ظالمانہ تصرف شروع کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان ظالمانہ کارروائیوں کو روکنے اور ان کے انسداد کے لئے جائیداد میں ہر ایک حقدار کے حصے معین فرما دیئے ہیں تاکہ ایک ہی شخص دوسرے حقداروں کے حصوں کو اپنی اغراض میں خرد برد نہ کر سکے بلکہ حصوں کے حصول کے مطابق جائیداد سب اہل حقوق لے کر اپنے اپنے حصے سے آزادی کے ساتھ منتفع ہوسکے۔ زمانہ جاہلیت میں یہ طریقہ رائج تھا کہ عرب منہ بولے بیٹے کو تمام احکام میں حقیقی بیٹوں کی طرح مانتے تھے، بیٹا بنانے والا شخص اس بچے کو اپنی ہی طرف منسوب کرتا تھا اور اس بچے کے ساتھ اپنی سگی اولاد ہی جیسا معاملہ کرتا تھا۔ چنانچہ اس بچے کا سگی اولاد کی طرح وراثت میں حصہ ہوتا تھا، اسی طرح اس شخص کا انتقال ہوجائے یا اس کا اپنی بیوی سے طلاق ہوجائے تو اس کی بیوی سے گود لئے ہوئے شخص کا نکاح کرنا جائز نہیں تھا لیکن اللہ رب العزت نے عرب کے ان رسموں کا قلع قمع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جس طرح انسان کے پہلو میں دو دل نہیں ہوتے جس طرح بیوی کو ماں کے مثل کہنے سے بیوی ماں نہیں بن جاتی اسی طرح منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹے جیسا نہیں ہوسکتا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عرب کے دستور کے مطابق زید رضی اللہ عنہ کو زید ابن محمد کہہ کر بلاتے تھے کیوں کہ رسول اللہ صلّٰی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنا بیٹا بنا لیا تھا۔ پھر جب وہ ما جعل ادعیاءآیت نازل ہوئی تو ہم نے یہ عادت چھوڑ دی اور ہم نے زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زید ابن حارثہ کہہ کر پکارنا شروع کر دیا۔ اسی طرح جن رشتوں میں یہ ضروری ہے کہ عورت اور مرد، لڑکا اور لڑکی ایک ساتھ رہیں ایک ساتھ پلیں بڑھیں، ایک ساتھ زندگی گزاریں ان رشتوں میں اسلام نے ایسا ذہنی تقدس پیدا کر دیا ہے کہ کسی برے خیال کا ان کے درمیان گزر نہ ہوسکے۔ مثلاً بہن کا رشتہ، باپ بیٹی کا رشتہ، ماں اور اولاد کا رشتہ مگر منہ بولا بیٹا، بیٹی چونکہ حقیقی بیٹا بیٹی نہیں ہوجاتے اس لئے وہ محرم بھی نہیں ہیں اس لئے ان کے ساتھ غیر محرم والا معاملہ کیا جائے گا اور اس کے سمجھ دار ہوجانے پر پردہ کے احکام نافذ ہوں گے۔ اسی طرح کسی عورت نے اپنے بہن کی لڑکی کو پالا جس کا عورت کے شوہر سے کوئی رشتہ محرمیت کا نہیں ہے تو اس مرد کے حق میں وہ غیر ہوگی اس سے پردہ ہوگا، اجنبی بچے کو گود لینے کی وجہ سے اس طرح کے سینکڑوں مسائل کا سامنا ہوگا اس لئے اصل بیٹے کی طرح گود لئے ہوئے بچے کو حقوق دینا شریعت کی نگاہ میں جائز نہیں اور اسلام اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ منہ بولے بیٹے کو اصل بیٹے کی طرح حقوق دیا جائے۔کیونکہ متبنیٰ کو مثل بیٹے کے سمجھنا جھوٹ اور کذب بیانی ہے اور کذب بیانی کو ہر مذہب میں برا مانا گیا ہے۔ اسلام دین فطرت ہے اور کسی کی اولاد کو گود لے کر اسے حقیقی اولاد کا حق دینا بہت سے اخلاقی، معاشرتی اور نفسیاتی مسائل پیدا کرتا ہے۔ اس لئے اسلام نے اس رسم کا دروازہ پورے طور پر بند کر دیا ہے۔ مسلم پرسنل لاءمیں مداخلت کیوں؟ شریعت مطہرہ میں تبدیلی کی بے ہنگم باتیں مختلف زاویوں اور گوشوں سے سامنے آرہی ہیں۔ یہاں تک کہ عدالتوں سے بھی مسلم پرسنل لا کے خلاف جانے اَنجانے میں فیصلے صادر ہو رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں چیف جسٹس P-Sathasivam کی بینچ نے سماجی کارکن شبنم ہاشمی کی پٹیشن پر غورکرنے کے بعد یہ فیصلہ سنایا ہے کہ اگر مسلمان چاہیں تو 2006ءمیں بنائے ہوئے چائلڈ رائٹ ایکٹ (Child right act) کے تحت بچہ گود لے سکتے ہیں۔ عدلیہ کا یہ فیصلہ مسلم پرسنل لاءبل پاس ہوجانے کے باوجود کیا معنی رکھتا ہے؟ جب کہ ہمارا ملک جمہوری ہے، اس کا اپنا دستور و آئین ہے جس میں اپنے اپنے مذہب پر چلنے کی پوری آزادی ہے اور کسی کے بھی مذہب میں دخل اندازی، تحریف و ترمیم دستور ہند کی خلاف ورزی ہے کیوں کہ آئین کے دفعہ 25 کی تحت ملک کے تمام شہریوں کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود کھلے عام دستور ہند کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ ہندوستانی عوام کے مذاہب میں دخل اندازی کی جارہی ہے۔ فسطائی ذہن رکھنے والے لوگ کامن سول کوڈ(common civi code) کا راگ الاپ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ہماری معزز عدالتیں بھی فیصلے سنانے کے بجائے اپنے دائرہ کار سے باہر نکل کر قانون بنانے کا کام کر رہی ہے۔ جبکہ قانون بنانے کا کام مقننہ کا ہے۔ اسلام نے معاشرتی زندگی گزارنے کے لئے کچھ اصول اور اخلاقی معیار مقرر کئے ہیں جو خدا کا بنایا ہوا قانون ہے جو مکمل و جامع ہے، جو فطرت انسانی سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے اور انسانی زندگی کے جملہ تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ یہ قانون ابدی اور آفاقی ہے جو پوری انسانیت کے لئے ہے۔ یہ قانون نہایت عادلانہ اور منصفانہ ہے جو انسانی زندگی کے لئے امن و عافیت کا ضامن ہے۔خدا کا یہ قانون ہمارے لئے سایہ رحمت ہے جس سے نہ صرف ہمارے آخرت کی کامیابی متعلق ہے، بلکہ اسی میں دنیا کی کامرانی بھی مضمر ہے لیکن آج مسلمانوں کے خود شریعت پرعمل پیرا نہ ہونے کی وجہ سے دوسروں کو ہمارے دین اور ہماری شریعت کے خلاف زبان کھولنے کا موقع ملتا ہے۔ متبنیٰ بل کا مسئلہ عدالتوں میں پڑا ہوا ہے۔ شبنم ہاشمی کا کیس ہے ظاہر ہے کہ مسلمانوں کا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ شریعت پر ہونے والے بیرونی حملے اسی وقت کامیاب ہوتے ہیں جب اندرون مسلم معاشروں میں خود مسلمان شریعت پر عمل کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ یا دیگر فسطائی طاقتوں کو شریعت میں تبدیلی کے مطالبہ کا موقع اسی وقت ملتا ہے جب خود مسلمان اپنے نزاعات کو قرآن و شریعت کی روشنی میں حل کرنے اور قرآن شریعت کا فیصلہ قبول کرنے کے بجائے عدالتوں میں لے جاتے ہیں تو کیا اس طرح لڑ کر پرسنل لاءکو بچاپائیں گے؟ ہرگز نہیں اس کے لئے تومسلمانوں کو خود شریعت پر عمل کرنا ہوگا۔ مسلم پرسنل لاءہمارا شرعی عائلی قانون ہے، اسلام نے ہمیں اس کے مطابق زندگی گزارنے کا حکم کیا ہے، ہمارا یہ پرسنل لاءکوئی انسانوں کا وضع کردہ نہیں ہے بلکہ اللہ کا بنایا ہوا قانون ہے۔ اس لئے ہمیں اللہ کے فطری قانون یعنی پرسنل لاءکو کبھی نہیں چھوڑنا چاہئے کیونکہ للہ کا حکم ہے ۔اَ لَا لَہُ ال±خَل±قُ وَال±اَم±رُ۔ تَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ ال±عٰلَمِی±ن (الاعراف54) یاد رکھو اللہ ہی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا، بڑی خوبیوں سے بھرا ہوا ہے اللہ جو تمام جہان کا پروردگار ہے۔ 1978ءمیں راجیہ سبھا میں متبنیٰ بل پیش کیا گیا تھا، اس وقت کے وزیر قانون نے اعلان کیا کہ یہ قانون یکساں شہری قانون کی حیثیت سے تمام شہریوں پر نافذ ہوگا۔ ظاہر ہے کہ متبنیٰ بل اسلامی قانون وراثت، نکاح اور پردہ کے احکام پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ مسلم پرسنل لاءبورڈ نے اس کے خلاف اس وقت پورے ملک میں زبردست مہم چلاکر رائے عامہ کو متحرک کیا۔ اور ملک کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں جلسے منعقد کئے، جن میں حکومت پر یہ واضح کیا گیا تھاکہ یہ بل قانون شریعت کے سراسر مخالف ہے۔ آخر کار 1978ءمیں اس وقت کی حکومت نے اس بل کو واپس لے لیا اور اس وقت کے وزیر قانون نے پارلیامنٹ میں یہ اعلان کیا کہ اسلامی فقہ متبنیٰ کو وراثتی حقوق نہیں دیتی اس لئے اس بل کو واپس لیا جارہا ہے لیکن 1980ءمیں پھر اس بل کو پارلیامنٹ میں پیش کیا گیا لیکن بورڈ کے سخت موقف کے آگے حکومت کو جھکنا پڑا اور اس قانون سے مسلمانوں کو مستثنیٰ کر دیا گیا۔ لیکن ایک بار پھر ایک مسلمان عورت مسلم پرسنل لاءکی فریق بن کر عدالت میں متبنیٰ بل کے خلاف کیس دائر کررکھی ہے آج جو کچھ بھی اس ملک میں مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے یہ سب اللہ رب العزت کی مار ہے جو ہندوستانی مسلمانوں پر اسلام ،شریعت اور اپنے فرض منصبی سے بغاوت ،نیز اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام وفرامین سے منھ موڑ نے کا نتیجہ ہے ۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا