بیگانہ بیٹابیگانہ بیٹا

0
0

آزاد عباس چوگلے
محمد علی صاحب جو بنیادی طور پر کولہاپور کے باشندے تھے جو پچھلے تیس سال سے کوکن میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اُس سے قبل اُن کے والد محترم بھی کوکن کے ایک اسکول میں زیرِ ملازمت تھے۔ والد صاحب کے ساتھ رہتے رہتے کوکنی ماحول و کوکنی تہذیب سے کافی وابستگی ہوچکی تھی اس لیے اُنھیں بھی کوکن میں ہی ملازمت کرنے میں کافی دلچسپی تھی اور یہ اُن کا سپناپورا بھی ہوگیا ۔ اکثر وہ غیرکوکنیوں سے یہ کہا کرتے تھے ”کوکن کسی کشمیر سے کم نہیں ہے۔“ دوران ملازمت وہ ایک دفعہ اپنے آبائی وطن گئے اور ازدواجی زندگی میں بندھ گئے ۔ شادی کے بعد اپنی بیگم کو بھی کوکن میں لایا وہ بھی کوکنی ماحول میں پوری طرح سے گھل مل گئی اور وہ اس طرح سے کوکنی رنگ میں رنگ گئی کہ واپس نہ جانے کا فیصلہ کیا۔ اُنہی ایام میں محمد علی صاحب کے والدین رحلت فرماگئے ۔ چونکہ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے تو دونوں کو کوکن میں ہی سپردخاک کیا اور مستقل طور پر کوکن میں ہی آباد ہونے کا فیصلہ کیا۔ والدین کی موت کا افسوس ضرور تھا مگر اُن کی ازدواجی زندگی کافی ہموار و خوش و خرم چل رہی تھی۔ اِنہی دنوں میں وہ ایک بیٹی اور ایک بیٹے کے باپ بن گئے ۔ بیٹی کا نام تھا سلمیٰ اور بیٹے کا نام سلیم تھا ۔ دونوں کی ابتدائی و ثانوی تعلیم وہیں گاو¿ں میں ہی ہوئی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے کوکن کے ہی ایک چھوٹے سے شہر سے بیٹی نے L.L.Bکیا اور بیٹے نے B.Eسند حاصل کرلی۔ دیکھتے ہی دیکھتے بچے جوان ہوگئے اب انھیں اُن کی شادی کی فکر ہونے لگی۔ دونوں کی ہی خواہش یہ تھی کہ بچوں کی شادی یہی کسی کوکنی گھرانے سے کردیں اور ایسا ہی ہوا۔ پڑوس کے گاو¿ں سے بیٹی کو نسبت آئی اور وہ پڑوس کے گاو¿ں میں شادی کرکے چلی گئی۔ چند سالوں بعد اُس کے میاں نے ممبرا میں ایک فلیٹ خریدا وہاں وہ مقیم ہوگئی اور وہیں سے کسی نامور وکیل کے زیر نگراں وکالت کرتی رہی۔ اب گاو¿ں میں والدین اپنے بیٹے کے ساتھ قیام پذیر تھے۔ بیٹا ملازمت کے لیے بمبئی جانے کی ضد کررہا تھا جبکہ اُن کے والد اُنھیں پڑوسی شہر میں ملازمت دلوانے کے چکر میں تھے۔ مگر بیٹے نے والد کی بات ماننے سے صاف انکار کیا اور بمبئی چلا گیا اور وہیں پر اپنے دوست کے ساتھ رہتے رہتے ملازمت تلاش کی۔ ایک کرایے کا مکان لیا اور والدین کو بھی بلانے پر بضد تھا مگر والد صاحب کے سبکدوشی کے ایام قریب تھے تو اُنھوں نے چند ماہ کے لیے بمبئی جانے کا ارادہ ملتوی کردیا۔ بلکہ بیٹے کو صلاح دی کہ اِسی گاو¿ں میں کوئی زمین کا ٹکڑا لے کر اِسی گاو¿ں میں آباد ہوجاتے ہیں ۔ تم بھی کسی کوکنی لڑکی سے شادی کرلو یہ کوکن کی دھرتی ہمیں قبول کرنے کو تیار ہے ۔ اب میرے آبائی وطن میں کوئی رشتہ دار نہ بچا ہے نہ ہی کوئی زمین جائیداد ہے ۔ ایک گھر تھا وہ بھی پڑوسیوں نے ہڑپ لیا ہے ۔ نہ ہی کوئی پہچان ہے نہ ہی کوئی پرسان حال ہے اور یہاں ہر کوئی پہچان کا ہے یہاں کا موسم و ماحول ہمیں کافی جچتا ہے ۔ میں نے اپنی زندگی کے چالیس سال یہاں گذارے ، تمہاری اور تمہاری بہن کی پیدائش اِسی گاو¿ں میں ہوئی تو تمہیں اس گاو¿ں کی تہذیب و تمدن سے وابستگی تو ہوگی تو یہاں آباد ہونے میں کیا حرج ہے….؟ مگر اُس نے اپنے والد کی ایک بات نہ مانی ۔ بس ضد پر ضد کیے جارہا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہو ۔ والدین چونکہ پڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکے تھے اور اُنھیں سہارے کی ضرورت تھی تو اپنے بیٹے کے بُلاوے پر اپنے بیٹے کے ساتھ رہنا شروع کردیا ۔ دراصل یہ اُن کی مجبوری تھی اُنھیں بمبئی آنا قطعاً پسند نہ تھا ۔ رہتے تو تھے بیٹے کے ساتھ مگر دونوں کو ہی ذرا بھی اطمینان نہ تھا۔ بس یوں سوچتے تھے کہ گھر میں بہو آئے گی پوتا آئے گا تو دِل لگ جائے گا۔ شادی کے معاملے پر بیٹے سے ماں نے بات چھیڑی تو اُس نے کہا کہ میں نے اپنے اِدھر کی لڑکی پسند کی ہے میں اُسی سے شادی کروں گا ۔ اب کبھی اِس موضوع پر بحث نہ ہوگی میں نے اُسے اور اس کے اہلِ خانہ سے شادی کا وعدہ کیا ہے جسے میں پورا کروں گا۔ بیٹے کی ضد کو تسلیم کیا اور بہو کو دیکھنے اُس کے گھر گئے تو اُن کے گھر والوں نے اُن کا کافی اچھا استقبال کیا۔ ہونے والی بہو کو دیکھا خوش ہوئے۔ رنگت و صورت میں بہت بہتر تھی مگر اُس کے اطوار کا پتہ اِس بات سے لگا کہ اُس نے بڑی آواز میں اپنی ملازمت کو جاری رکھنے کا تقاضہ کیا اور کہا میں آپ کی خدمت کے لیے ایک ملازمہ رکھوں گی جو ہم سب کا کھانا بھی بنائے گی اور گھر کو صاف ستھرا بھی رکھے گی۔ یہ ادا اُس کی اُنھیں بالکل پسند نہ آئی۔ لہٰذا اُنھوں نے اپنے بیٹے سے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا بلکہ یہ مشورہ دیا ک کسی کوکنی لڑکی سے بیاہ رچاو¿ ہم گاو¿ں میں جاکر شادی کرتے ہیں ۔ پچھلے چالیس سالوں سے اُن کی دعوتیں کھائی ہیں اب ہمارا بھی فرض ہے کہ اُنھیں اپنی خوشی میں شامل کریں۔ سچ مانو بیٹا جو سکون کوکن کی وادیوں میں حاصل ہے وہ تمہیں کہیں نہیں ملے گا۔مگر اُس نے والد کی باتوں کو پوری طرح سے ٹھکرادیا۔ پھر بھی ماں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ اب ہم ضعیف العمر ہوچکے ہیں اب ہمارا دل شہر میں نہیں لگتا تم ہماری بات مان لو۔ مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا بلکہ متنبہ کیا کہ اب کبھی بھی کوکن کا ذکر نہ کرنا آپ لوگوں نے اپنی پوری زندگی گاو¿ں دیہات میں بسر کرلی یہ زندگی اگر شہر میں بسر کرتے تو ہم اقتصادی طور پر بہت بہتر ہوتے۔ بیٹے کا اس طرح بآواز بلند والدین کے سامنے کہنا اُنھیں بہت بربریت بھرا لگا مگر وہ خاموش رہے۔ جب ماں نے کچھ کہنے کے لیے لب کشائی کی تو اُس کا ہاتھ جھڑک دیا اور یہ کہتے ہوئے گھر سے نکل گیا کہ اب میں کبھی یہاں تمہاری کڑوی باتیں سننے نہیں آو¿ں گا۔ اُس کے جانے کے بعد ماں اتنا روئی اتنا روئی کہ وہ نابینا ہوگئی۔ جب محمد علی صاحب اُسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے تو ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ اس کی روشنی تقریباً ختم ہوچکی ہے ۔ اِس عمر میں اُسے واپس لانا مشکل ہے اب وہ بہت مجبور و معذور ہوگئے کہ ایک تو بڑھاپا اور بیگم نابینا….کیسے گزارہ ہوگا….! بیٹی اپنی مشغولیت سے ذرا سا وقت نکال کر والدین کو ملی اور ایک نوکرانی کا بندوبست کیا اور روتے روتے واپس اپنے سسرال چلی گئی۔ ایسی بے بسی اور مجبوری کی حالت میں ایک سال نکل گیا ۔ اسی دوران سلیم نے اپنی پسند کی اُسی لڑکی سے شادی کی۔ ستم ظریفی یہ کہ والدین کو خبر تک نہ دی۔ اُن پر تو مایوسی کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ ایک ہی بیٹا جس کی شادی کے لیے بہت سارے سپنے دیکھے تھے وہ سب کے سب خاک ہوگئے۔ محمد علی صاحب تو اُسے مبارکباد دینے کے سخت خلاف تھے مگر اہلیہ کے سامنے جھک گئے۔ نابینا ماں نے کچھ زیورات اور مٹھائیاں لے کر بیٹے کے سسرال چلے گئی۔ اُنھیں مبارکباد اور بے شمار دعائیں دیں اور کہا بیٹا چلو اپنے گھر چلو۔ بیٹا تو بالکل خاموش تھا مگر بہو نے جھٹ سے کہا ”نہیں امی ہم وہاں نہیں آئے گے وہ گھر میرے مکتب سے کافی دور ہے اور یہ کافی نزدیک…. لہٰذا ہم ہفتہ میں ایک دفعہ آپ کو ملنے ضرور آئیں گے۔“ نکلتے وقت پھر ایک دفعہ ماں نے بیٹے کا ماتھا چوما اور کہا ”بیٹا جہاں بھی رہ رہا ہے خوشی سے اپنی زندگی گزار دے۔“ پھر ایک دفعہ دونوں روتے روتے اُس گھر سے نکل آئے۔ چند ماہ بعد پتہ چلا کہ بہو اُمید سے ہے ماں کا دِل للچانے لگا چاہتی تھی کہ اب کچھ مٹھائیاں لے کر جائے مگر محمد علی صاحب نے وہاں جانے سے صاف انکار کیامگر بیگم کے لگاتار اِسرار کے بعد جانے کو تیار ہوگئے۔ جب وہ دادا دادی بنے تو پھر ایک دفعہ وہاں پہنچے تینوں کو دعائیں دیں اور بیٹے سے کہا ”بیٹا تیرا بیٹا بالکل تیرے جیسا ہے۔“ پتہ نہیں ماں نے کس آنکھ سے دیکھا مگر جو کہا بالکل سچ کہا۔ نکلتے نکلتے التجا کی ”بے شک تم دونوں کام پر چلے جاو¿ ہم اس ننھے راجہ کو خوشی خوشی سنبھالیں گے۔“بیٹا تو خاموش تھا مگر بہو نے ترش لہجے میں کہا ”اِس ننھی سی جان کو آپ ضعیفوں کے حوالے کیسے کرسکتے ہیں….؟“ دونوں کی نگاہیں بیٹے پر منجمد تھیں مگر بیٹا بالکل بُت بناہوا تھا ۔ پھر ایک دفعہ وہ اپنا سا منہ لے کر واپس آئے۔ گھر آتے ہی نوکرانی نے کھانا کھانے کو کہا مگر وہ بھوکے سوگئے۔ سلمیٰ کے پاس وقت کی کافی قلّت تھی پھر بھی وہ کچھ وقت نکال کر اپنے بھانجے کو دیکھنے گئی اور واپسی میں ابا امی کو ملی اور ایک مشورہ دیا کہ یہاں پر جو کرایہ دیتے ہو اُس سے آدھے کرایے میں آپ ممبرا میں گھر لیں اوررہیں جہاں میں آپ کو ہر روز ملنے آیا کروں گی۔ دونوں نے اُس کامشورہ تسلیم کیا اور ممبرا میں بیٹی کے قریب منتقل ہوگئے۔ بیٹی روز کورٹ جانے سے قبل جلدی جلدی اُن کا کھانا بناتی تھی بلکہ کھلاتی بھی تھی ۔ شام کو کورٹ سے آتے وقت والدین کو مل کر اپنے گھر جاتی تھی۔ کسی طرح سے معاملہ ٹھیک چل رہا تھا اور دونوں مطمئن بھی تھے کہ خیر خیریت کے لیے بیٹی پڑوس میں تو ہے ۔ ایک دن اُن کی امی کی طبیعت کچھ زیادہ خراب ہوگئی۔ ڈاکٹر کو گھر بُلایا گیا مگر ڈاکٹر نے بتایا کہ اسے کسی ہسپتال میں داخل کرنے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا یہ اُس کی آخری سانسیں چل رہی ہیں ۔ یہ سُنتے ہی سلمیٰ نے اپنے بھائی کو فون کیا اور کہا ”جتنا جلدی ہوسکے ماں کو دیکھنے آجاو¿ وہ ابھی نزاع کی حالت میں ہے کبھی بھی سانس ٹوٹ سکتی ہے ۔ “ جواباً اُس نے کہا وہ یہاں نہیں رہتے ایڈریس بھیجو میں ابھی پہنچ جاتا ہوں ۔ جب سلمیٰ نے ایڈریس بھیجا تو اُس نے فون کیا اور کہا ” میں بھی اِسی بلڈنگ میں قیام پذیر ہوں بس فرق صرف اتنا ہے کہ یہ دوسرے مالے کا ایڈریس ہے اور میں اُسی بلڈنگ میں تیسرے مالے پر ہوں۔“ اوکے ۔ اوکے جلدی آو¿۔ وہ آیا اور ماں کے سرہانے کھڑا ہوگیا ۔ ماں نے اُسے ایک لمحے کے لیے دیکھا اور ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں بند کرلی۔ روتے روتے جب وہ ابا کے سامنے گیا تو اُنھوں نے کہا وہ نابینا بھی تیری وجہ سے ہوئی اور اپنا دم توڑا بھی تیری وجہ سے …. لہٰذا تو کبھی میرے سامنے مت آنا۔کیونکہ تیری وجہ سے میں ادھ مرا ہوچکا ہوں اور شاید تیری وجہ سے ہی موت مجھے گلے لگائے گی۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا