اپنے ماضی سے سبق لیتے ہوئے موجودہ حالات کا مقابلہ کریں:

0
0

مفتی غلام رسول قاسمی

 

قبل از آزادی ہماری طاقت، بعد آزادی ہماری پستی،داستان اہل ایمان کے کوتاہیوں کی:

ہندوستان میں مسلمانوں کا عروج و زوال
بھارت میں آٹھ سو سال حکومت کرنے والے جب کبوتر بازی مرغ بازی کا شوق پالنے لگے اور ان کے بادشاہ و حکمران شراب کباب کے رسیا ہوگئے دین الہی کو پس پشت ڈال دیا تو اللہ نے ان سے حکومت چھین کر انگریزوں کو دے دیا پھر جب انگریزوں کے جبر و استبداد یہاں کے عوام پر بڑھنے لگے تو اللہ نے مساجد مدارس اور بوریہ نشیں بزرگان دین کو کھڑا کیا،انھوں نے کچھ برادران وطن کو ساتھ لیا پھر اپنی جان کی بازی لگا کر ملک کو انگریزوں کے تسلط سے آزاد کرایا، بھارت کی حریت و آزادی کے بعد بلا تفریق مذاہب و ملل یہاں کے تمام عوام کو برابری کے حقوق ملے، جتنا حق برہمنوں کو ملا اتنا ہی دلتوں آدی واسیوں کو بھی حاصل ہوا، اس وقت متحدہ ہندوستان میں اکثریت مسلمانوں کی تھی ( حقیقت کے آئینے سے دیکھا جائے تو دلت، سکھ، آدی واسی، بدھشت ہندو نہیں ہیں) مسلمانوں کو بھی برابری کے حقوق ملے اگر چاہتے تو اپنی اکثریت اور عقلمندی کی بنیاد اور قابلیت و صلاحیت و شعور کے بل بوتے پر حکومت کی باگ دوڑ اپنے قبضے میں لے لیتے (کیونکہ اس وقت جنگ آزادی لڑنے والی غیر مسلموں کی کوئی ایسی منظم تنظیم نہیں تھی جو مسلم اور مسلم تنظیموں کا مقابلہ کرتی) لیکن آزادی کے بعد ہمارے بعض اکابر اور جنگ آزادی لڑنے والی بعض مسلم تنظیموں نے ایسی عاجزی دکھلائی کہ علی الاعلان خود کو سیاست سے دانستہ طور پر الگ کر لیا، دوسری طرف مدارس و خانقاہ سے آئے اکثر مجاہدین آزادی پھر مدارس و خوانق کی طرف کوچ کر گئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ وہ سیاست میں بھی حصہ لیتے! وہیں کچھ مسلمانوں نے ایک علیحدہ ملک کا مطالبہ کیا(اگر علحدہ ملک کا مطالبہ نہ کیے ہوتے تو مسلمان تقسیم نہ ہوتے اور آج اپنی ایک طاقت ہوتی، پٹھانی طاقتور قوم بھی ہر آن ہمارے ساتھ ہوتیں، آر ایس ایس نسیاً منسیا ہوچکی ہوتی) پھر ہوا یوں کہ لوگوں میں حریت و آزادی کی روح پھونکنے اور آزادی دلانی والی "مسلم اجتماعیت ومسلم طاقت” بعد آزادی پاش پاش ہو کر رہ گئی، دوسری طرف غیر مسلموں(ہندوؤں) کی ایک تنظیم آگے آئی اور اس تنظیم کے افراد جس وقت ہمارے اکابر انگریز کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنے ہوئے تھے اس وقت انگریزوں کی کاسہ لیسی کرتے رہے پھر اس نے ایک سو سالہ منشور تیار کیا، جس میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اتنے سالوں میں ہمیں ان ٹارگٹس کی تکمیل کرنی ہے، اور آج دو ہزار بائیس میں وہ تنظیم پوری طرح ہندوستان کو اپنے قبضہ میں لے چکی ہے کہ وہ اگر ظلم کرے تو دیش بھکتی لیکن دیگر اقوام اپنے حقوق کے لئے آواز بھی بلند کرے تو دہشت گرد کہلائی جاتی ہے، یہی نہیں وہ تنظیم ملک کے ہر شعبے میں اپنے ہم مزاج افراد کو مامور کر رکھا ہے. افسوس ہمیں یہ نہیں کہ اس تنظیم (آر ایس ایس) کے لوگ ملک پر قابض ہوگئے بلکہ اس بات کا ہے کہ یہاں بچے کھچے مسلمانوں نے بعد آزادی کوئی لائحہ عمل اپنے لیے طے نہیں کیا حالانکہ سب کو مساوی حقوق ملے تھے، ابھی تک بھی اسی بغیر لائحہ عمل کی زندگی بسر کرنے پر ہم مجبور ہیں، آزادی کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کی کوئی ایسی تنظیم یا طاقت نہیں ابھری جس پر مسلمانوں کو مکمل اعتماد ہوا ہو ایک دو تنظیم و تحریک تھیں بھی تو وہ خاندانی موروثیت کی بھینٹ چڑھ کر اپنا وقار کھو بیٹھیں. ہم چاہتے تو تعلیمی میدان میں اتر کر اور اپنی نسلوں کو تعلیم یافتہ کرکر وہ مقام یا اس کمی کو پورا کر کے کامیاب ترین قوم بن سکتے تھے، یہی دیکھ لیں کہ جمہوریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت کے پانچ فیصد برہمنوں نے خود دال روٹی کھا کر اپنے بچوں کو پڑھانا شروع کیا یہاں تک کہ آج وہ خود کو بھارت کی فاتح قوم سمجھ رہے ہیں اور ایک ہم مسلمان ہیں کہ بعد آزادی تعلیم میں آگے بڑھنے کے بجائے عیش و راحت بلکہ غفلت کی نیند سوتے رہ گئے اپنے بچوں کو چھوٹے موٹے کاروبار کے حوالے کر دیا، اسی خواب غفلت کا رزلٹ (نتیجہ) آج ہمارے سامنے ہے، حالانکہ اب بھی مسلمانوں کا ستر فیصد طبقہ سکولز و کالجز کا رخ کرتا ہے اور دو فیصد طبقہ دینی مدارس کا رخ کرتا ہے باقی ماندہ تعلیم سے نابلد ہیں، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے سکولز و کالجز جانے والے اکثر بچے دسویں بارہویں کے بعد پڑھتے نہیں یا انھیں کوئی صحیح گائیڈنگ کرنے والا نہیں ہوتا جس کی وجہ سے بھی ایسے حالات سے ہم گزر رہے ہیں، سال پیوستہ کی خبر ہے کہ آئی ایس آفیسرز کے لیے بھارت کے پندرہ فیصد مسلمانوں میں سے صرف پچاس مسلم طلبہ منتخب ہوے اور برہمنوں کی تعداد بھارت میں صرف پانچ فیصد ہے لیکن ساڑھے تین سو طلبہ آئی ایس کے لیے سلیکٹ ہوے ہیں، اور یہ حقیقت ہے کہ جو قوم تعلیم میں آگے بڑھتی ہے وہی قوم جمہوریت والے ملک میں اپنا پنجہ جماتی ہے، کیوں کہ اعلی سرکاری ملازمتیں بغیر اعلی تعلیم کے نہیں ملتیں. اس لیے اگر ہم کو اس ملک میں سرخرو ہونا ہے اور ہم اپنے جان و مال کا تحفظ چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے بچوں کو مکمل تعلیم دینی ہوگی انھیں آئی ایس اور آئی پی ایس آفیسرز بنانا ہوگا اس کے لیے ہمیں مہم چلانے کی ضرورت ہے، نیز امت کے امیر طبقے کو غریب کے بچوں کی تعلیمی کفالت بھی کرنی پڑے گی، دوسری بات آپ جس ریاست میں ہیں اس ریاست کی زبان میں بچوں کو تعلیم دینے کی کوشش کریں کیونکہ سرکاری ملازمت ملنے میں ریاستی زبان کا اہم رول ہوتا ہے. تیسری بات یہ ہے ہمیں ایک طاقت بننے کے لئے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا ہوگا جس کے سایہ تلے رہ کر مسلمانان بھارت اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرے! کیوں کہ: متحد ہو تو بدلتے سکتے ہو دنیا کا نظام
منتشر ہو تو، مرو! شور مجاتے کیوں ہو؟

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا