ڈاکٹر پرویز شہریار، نئی دہلی
ہم سبھی جانتے ہیں کہ بیمار کی تیمار داری کرنی چاہیے۔ ہر مذہب میں اس بات کی تاکید کی گئی ہے۔ ڈاکٹروں کا پیشہ بھی یہی ہے کہ وہ مریضوں کا علاج کرتے ہیں اور نرسیں ان کی خدمت کرتی ہیں۔ لیکن ولیم بھاگو جو ایک نو عیسائی ہے اور پیشے سے خاک روب ہے۔ گلیوں کی صفائی کرتا ہے۔ اچانک شہر میں پلیگ جیسی وبا کے پھیل جانے سے وہ انسانیت کی خدمت کے لیے اس مہلک وبا میں کود پڑتا ہے۔ لوگوں کو موت کے منھ سے نکالنے کے لیے اپنی جان تک لڑا دیتا ہے۔ صرف اس لیے کہ پادری مونت لابے نے اسے بتایا تھا کہ یسوع مسیح یہی سکھاتا ہے کہ بیمار کی مدد میں اپنی جان تک لڑادو۔ اس کے علاوہ اس کے اندر ایک عام آدمی کا عقیدہ بھی کارفرما ہے کہ بن آئی بال بھی بیکا نہیں ہوتا۔ اس کا یہ یقین اتنا راسخ ہے کہ ڈاکٹر بخشی کو بھی وہ پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ بھاگو اپنی بیوی اور بچے کی پرواہ کیے بغیر کوارنٹین جیسے جہنم میں انسانیت کی خدمت کرتا ہے۔ آگ میں جلتے ہوئے ایک زندہ انسان کو بچانے کے لیے اپنی جان کی بازی لگادیتا ہے۔ اس کم پڑھے لکھے اور معمولی حیثیت کے انسان میں ولیوں جیسی بے خوف اور بے لوث خدمت خلق کا جذبہ موجود ہوتا ہے جس کی وجہ سے پلیگ جیسی وبا پر قابو پانے میں محکمہ بلدیات کو کامیابی ملتی ہے۔ لیکن اس کے صلے میں ڈاکٹر بخشی کو انعام واعزاز سے نوازہ جاتا ہے اور وہ اس بات پر ماتم کناں ہے کہ بھاگو جیسے سچے خدمت گار کو سماج کیوں نہیں سراہتا ہے۔
نمائندہ کردار:ڈاکٹر بخشی جو کہ اس افسانے میں واحد متکلم ہیں اور پلیگ سے متاثرہ شہر میں دلجمئی کے ساتھ مریضوں کا علاج کرتے ہیں لیکن ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وہ موت کے سائے سے ڈرجاتے ہیں اور کوارنٹین جہاں مریضوں کو شہر کی آبادی سے الگ تھلگ علاج ومعالجہ چل رہا ہوتا ہے وہاں جانے سے کترانے لگتے ہیں مبادا انہیں بھی پلیگ کی وبا اپنی چپیٹ میں نہ لے لے۔ لیکن اپنے ساتھی ایک خاک روب کے حوصلوں اور دلیریوں کو دیکھ کر ایک بار پھر اپنی ہمت جٹانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور انجام کار پلیگ کی وبا پر قابو پالیا جاتا ہے۔ ان کاریکارڈ سوفیصد کامیابی کو چھولیتا ہے۔ لہٰذا اس کے صلے کے طور پر انہیں انعام واعزاز سے نوازہ جاتا ہے اور وہ لیفٹیننٹ کرنل بنادیے جاتے ہیں۔
اس افسانے کا دوسرا بلکہ پہلے کردار سے بھی زیادہ جاندار کردار ولیم بھاگو کا ہے۔ ولیم بھاگو پیشے سے بہت معمولی خاک روب ہے جس کا کام محلے کی گلیوں میں صفائی بنائے رکھنا ہے۔ پلیگ کی وبا جب پھیلتی ہے تو اس کے فرائض کے دائرۂ کار میں توسیع ہوجاتی ہے اور وہ اب کوارنٹین میں مریضوں کی مدد کرتا ہے شہر سے انہیں کوارنٹین پہنچاتا ہے۔ ایسے ماحول میں جبکہ لوگ کوارنٹین کو چھوٹا سا جہنم تصور کرتے ہیں۔ مریضوں کے خویش واقارب وہاں جانے سے ڈرتے ہیں۔ ایسے میں بھاگو وہاں بلاناغہ جاکر انسانیت کی خدمت کرتا ہے۔ وہ نوعیسائی ہے۔ اس کا انسانیت کی خدمت کا جذبہ اس قدر راسخ ہے کہ وہ اپنی بیمار بیوی کو گھر پر چھوڑ کر، اپنے ڈیڑھ سالہ دودھ پیتے بچے کو چھوڑ کر کوارنٹین چلاجاتا ہے۔ ڈاکٹر بخشی اس کی اس بات پر سرزنش کرتے ہیں لیکن اس کے جواز میں وہ کہتا ہے۔ پادری مونت لابے نے کہا ہے کہ ’’یسوع مسیح یہی سکھاتا ہے کہ بیمار کی مدد میں اپنی جان تک لڑا دو—‘‘ اس پر عمل کرتے ہوئے وہ ایک دن پلیگ کے مریضوں میں غلطی سے ایک زندہ انسان کو جلنے سے بچانے کے لیے خود بھی آگ میں کود جاتا ہے اور اس کی جان بچاتے بچاتے اپنا ایک بازو جلالیتا ہے۔ لیکن اسے اطمینان ہے۔ وہ موت سے نہیں ڈرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ بن آئی، کوئی بال بیکا نہیں کرسکتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ شہر میں پلیگ پھیل جاتی ہے جس کے خوف سے بچہ بچہ کانپ جاتا ہے۔ پلیگ تو خوفناک ہوتی ہی ہے لیکن اس سے زیادہ خوفناک وہ جگہ تھی جہاں پلیگ کے مریضوں کو اکٹھا کرکے شہر کی آبادی سے الگ تھلگ مقام ’’کوارنٹین‘‘ میں رکھ کر ان کا حتی الوسیع علاج کیا جاتا ہے۔ یہ جگہ جہنم سے کم نہیں تھی۔ پلیگ کے مریضوں کی خدمت کرنے والوں میں ڈاکٹر بخشی اور ولیم بھاگو جوایک نوعیسائی ہے اور گلیوں کی صفائی کرنے والا ایک خاک روب ہے دونوں بہت ہی تندہی سے اپنے فرائض منصبی انجام دیتے ہیں۔ دونوں کا پیشہ خدمت خلق ہے لیکن ایک کم تر سماجی حیثیت کا بھاگو اپنی انسانیت سے ہمدردی اور بے لوث خدمت کی وجہ سے تعلیم یافتہ اعلیٰ سماجی حیثیت رکھنے والے ڈاکٹر کو مات دے جاتا ہے۔ ڈاکٹر کو اپنی جان کی فکر ہے اور ایک موقع پر تنگ آکروہ کوارنٹین نہیں جاتا ہے جبکہ بھاگو اپنی بیوی کو بیماری کی حالت میں بھی گھر پر چھوڑ کر خود کوارنٹین میں صرف اس لیے چلاجاتا ہے کہ وہاں اس کی زیادہ ضرورت ہے جہاں اجتماعی طور پر لوگ زندگی کی آخری سانسیں لے رہے ہیں اور ان کی مدد کرنے سے دوسرے لوگ گھبراتے ہیں اور اپنا پنڈچھڑا کر خویش واقارب بھی وہاں سے بھاگ رہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں جب ایک مریض کو مردہ سمجھ کر کوارنٹین کے اصول کے مطابق کسی مذہبی رسوم کے بغیرمردوں کے انبوہ پر پٹرول چھڑک کر جلادیا جاتا ہے اور وہ مریض مردوں کو ہٹاتا ہوا اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو ولیم بھاگو اسے اپنی جان کی بازی لگا کر آگ سے باہر نکال لاتا ہے۔ اس خطرہ مول لینے میں اس کا ایک بازو بھی جل جاتا ہے۔ لیکن اسے اس کی پرواہ نہیں ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ بن آئی، کوئی اس کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا ہے اور یہ کہ ’’خداوند یسوع مسیح سکھاتا ہے کہ بیمار کی مدد میں اپنی جان تک لڑادو۔‘‘
آخرکار، پلیگ کی وبا پرقابو پالیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر بخشی کی بڑی تحسین وتعریف ہوتی ہے اور وزیربلدیات ان کی اس غیر معمولی خدمت کے صلے میں انہیں لیفٹیننٹ کرنل بنادیتے ہیں۔ لیکن خاک روب بھاگو کو کوئی نہیں جانتا تاہم ڈاکٹر بخشی کی آنکھوں میں بھاگو کی مرتی ہوئی بیوی اور ڈیڑھ سال کے دودھ پیتے ہوئے بچے کی تصویر کھنچ جاتی ہے اور وہ اعزاز حاصل کرنے کے باوجود بے توقیر ہوکر اس قدر ناشناس دنیا کا ماتم کرنے لگتا ہے۔
’’کوارنٹین‘‘ کو بعض نقادوں نے بیدی کی رمزیت اور اشاریت پر محمول کرتے ہوئے ایک علامت کے طور پر بھی لیا ہے۔ یہ وہ خاص جگہ ہوتی ہے جہاں کسی قسم کی وبا کو عوام میں پھیلنے سے روکنے کے لیے اور اس کے سدباب کے لیے لوگوں کو جبراً گھروں سے گھسیٹ گھسیٹ کر جمع کیا جاتا ہے۔ ان کا علاج ومعالجہ ہوتا ہے۔ اگر مریض ٹھیک ہونے کے بجائے موت کا شکار ہوجاتا ہے تو انہیں پٹرول ڈال کر کسی مذہبی رسوم کے ادا کیے بغیر اکٹھا جلادیا جاتا ہے۔ اس خوف سے لوگ باگ اپنا مرض چھپاتے ہیں اور ان کا مرض اس وقت پتہ چلتا ہے جب کسی گھر سے گھسیٹ کر متاثرہ شخص کی لاش باہر لائی جاتی ہے۔
پروفیسر قمررئیس نے اس افسانے کا زمانۂ تخلیق ایک ایسے زمانے کو ٹھہرایا ہے جب ہندوستان میں برطانوی سامراج کے جبراور تسلط سے آزادی کی جنگ آخری مرحلے میں داخل ہوچکی تھی۔ ان کا خیال ہے کہ اس جنگ کی قیادت بے شک بورژوا یا اعلیٰ طبقے کے لوگ کررہے تھے لیکن اس کے ہر محاذ پر لڑنے والے سپاہی گاؤوں، کارخانوں اور جھونپڑوں سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ اس نوآبادیاتی نظام کے ہمہ جہتی استحصال کا شکار اور اس کے غلام تھے۔ اس تناظر میں پروفیسر قمررئیس پلیگ سے انسداد کے لیے بنائے گئے کوارنٹین کو ایک علامت کے طور پر دیکھتے ہیں۔
’’پلیگ تو خوفناک تھی ہی مگر کوارنٹین اس سے بھی زیادہ خوفناک تھی۔ لوگ پلیگ سے اتنے ہراساں نہیں تھے جتنے کوارنٹین سے۔ اور یہی وجہ تھی کہ محکمۂ حفظان صحت نے شہریوں کو چوہوں سے بچنے کی تلقین کرنے کے لیے جو قد آدم اشتہار چھپواکر دروازوں، گزرگاہوں اور شاہراہوں پر لگایا تھا، اس پر ’’نہ چوہا نہ پلیگ‘‘ کے عنوان میں اضافہ کرتے ہوئے ’نہ چوہا نہ پلیگ نہ کوارنٹین‘ لکھا تھا۔‘‘
یعنی ذمہ داروں کو یہ احساس ہے کہ پلیگ (غیر ملکی غلامی) اور اسے لانے اور پھیلانے والے ’’سفید چوہوں‘‘ سے نجات کافی نہیں۔ کوارنٹین کے جبروتسلط سے آزادی بھی ضروری ہے۔
قاری آسانی سے محسوس کرلیتا ہے کہ یہ قرنطینہ یا جبری قید صرف جسمانی بلکہ ذہنی بھی ہے۔ صرف سامراجی نہیں طبقاتی بھی ہے اور یہ ہمہ گیر قرنطینہ ملک کے سماجی اور اقتصادی نظام کے ہرگوشے میں وائرس کی طرح پھیلا ہوا ہے اور اس لیے وہ پلیگ سے زیادہ مہلک ہے۔
اس ضمن میں پروفیسر قمررئیس بیدی کی ایک دوسری فینٹیسی ملی کہانی ’’الٰہ آباد کے حجام‘‘ کا حوالہ دیتے ہیں جس میں سنگم کے کنارے ایک ایسی انسانی کھوپڑی نظرآتی ہے جس کے ساتھ ریڑھ کی ہڈی لگی ہوئی ہے۔ مصنف یہ دیکھ کر حیران ہوجاتا ہے۔ ’’ہائیں۔ ہم ہندوستانیوں کے بھی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے!— یہ نہیں ہوسکتا۔ کسی اور قوم کا کوئی آکر یہاں ڈوب مرا ہو۔‘‘ پروفیسر قمررئیس نے اپنے تجزیے کے موقف کو واضح کرنے کے لیے مزید صراحت کے ساتھ رقم طراز ہیں کہ—
’’ہندوستانیوں کی بے حسی اور ہرظلم کو صبروشکر کے ساتھ سہنے کی عادت کا احساس کبھی کبھی بیدی کے لہجہ میں بڑی زہرناکی بھردیتا ہے۔ کوارنٹین میں مرنے والوں کی تفصیل کے بیان میں بھی ان کے کرب احساس کو دیکھا جاسکتا ہے۔ غلام ہندوستان میں عام لوگ براہ راست برطانوی حاکموں کے ظلم واستبداد سے اتنا نہیں مرتے تھے جتنا بے حسی، بے مایگی، جہالت، باہمی نفرت، مریضانہ قناعت، توہم پرستی اور ’رضائے الٰہی‘ کے عذاب سے ہلاک ہوتے تھے۔‘‘ ۲۷؎
بیدی نے حوصلہ اور پستی کی آویزش سے اس افسانے کی تعمیر کی ہے۔ منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے تعلیم اور تربیت سے زیادہ صداقت اور یقین محکم کی ضرورت پڑتی ہے۔ نیت میں اخلاص ہو، خدمت کا جذبۂ صادق ہو اور عمل پیہم کا ساتھ ہو تو ناممکن کو ممکن کر دکھانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں رہ جاتی ہے۔
ڈاکٹر بخشی کی علمی لیاقت اور تجربے کے عقب میں اپنی جان کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ جبکہ بھاگو ایک ادنیٰ حیثیت کا غیر تعلیم یافتہ انسان کے اندر حوصلہ ہے، عمل پیہم ہے اور ارادے میں صداقت ہے اسے کسی صلے کی پرواہ نہیں ہے۔ وہ موت سے گھبراتا نہیں ہے۔ اس کا اپنا کوئی نجی مفاد نہیں ہے بلکہ اپنے نجی مفاد کو تج کروہ بیوی بچے کو چھوڑ کر اجتماعی خدمت گاری میں جٹ جاتا ہے۔ بیدی قدروں کی آویزش وپیکار میں صالح قدروں کی فتح مندی کے قائل معلوم ہوتے ہیں۔
آخرکار، ڈاکٹر بخشی کو رشدوہدایت ایک معمولی بھنگی سے ملتی ہے اور وہ جان لیتا ہے کہ بن آئی کوئی بال بھی بیکا نہیں کرسکتا اور مریضوں کی خدمت میں جان تک کی بازی لگادینی چاہیے۔ اس کے اپنے نفس کی تطہیر ہوجاتی ہے تزکیۂ نفس کی اس منزل پر اسے اپنے معاشرے پر افسوس ہوتا ہے جو بظاہر ان پڑھ اور گنوار نظرآنے والے انسانوں کے اندر چھپے انسانیت کے جوہر کو دریافت نہیں کرسکتا ہے۔ وہ ایسے سماج
بھاگو کی قربانیوں کا نقطۂ اوج اس کہانی میں دوبار سامنے آتا ہے۔ جس میں وہ اپنے مال اور جان کی قربانی پیش کرتے ہوئے پادری لابے کے بے مثال چیلا ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔جب ڈاکٹر بحشتی دیکھتے ہیں کہ دوجوان بیٹیوں کا باپ اس مرض میں دم توڑ دیتا ہے تو اس کے غم میں بھاگو آنسو بہانے لگتا ہے اور کون اس کی موت پر آنسو بہاتا، کوئی اس کا وہاں ہوتا تو اپنے جگر دوز نالوں سے ارض وسما کوشق کردیتا۔ ایک بھاگو ہی تھا جو سب کا رشتہ دار تھا۔ سب کے لیے اس کے دل میں درد تھا۔ وہ سب کی خاطر روتا اور کڑھتا تھا۔
’’ایک دن اس نے خداوند یسوع مسیح کے حضور میں نہایت عجزوانکسار سے اپنے آپ کو بنی نوع انسان کے گناہ کے کفارے کے طور پر بھی پیش کیا۔‘‘
دوسرا واقعہ جب ڈاکٹر بخشی کوارنٹین کو دوزخ سے بھی زیادہ خوف ناک سمجھ کر وہاں سے بھاگ نکلنے کی ترکیب سوچ رہے ہوتے ہیں۔ اس وقت جبکہ ان کی خود کی طبیعت بہت خراب ہوجاتی ہے۔ بھاگو ڈاکٹر سے بتاتا ہے۔
’’آج ایک مریض جو بیماری کے کھوف سے بے ہوس ہوگیا تھا۔ اسے مردہ سمجھ کر کسی نے لاسوں کے ڈھیر میں جاڈالا۔ جب پٹرول چھڑکا گیا اور آگ نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو میں نے اسے شعلوں میں ہاتھ پاؤں مارتے دیکھا۔ میں نے کود کر اسے اٹھالیا۔ بابوجی! وہ بہت بری طرح جھلسا ہوا تھا— اسے بچاتے ہوئے میرا دایاں باجوبالکل جل گیا ہے۔‘‘
بھاگو کی قربانی کا اس سے بھی بڑا نقطہ اوج اور اس کے غیر معمولی اور ہمہ گیر جذبۂ خدمت کا پہلو اس وقت سامنے آتا ہے جب وہ ڈاکٹر بخشی کو بتاتا ہے:
’’بابوجی—میری بیوی بیمار ہوگئی— اس کے گلے میں گلٹیاں نکل آئی ہیں— کھدا واسطے اسے بچالو— اس کی چھاتی پر ڈیڑھ سالہ بچہ دودھ پیتا ہے، وہ بھی مرجائے گا۔‘‘
’’تو تم اپنی حد سے زیادہ مہربانی اور قربانی سے جراثیم کو گھرلے ہی آئے نا۔ میں نہ تم سے کہتا تھا کہ مریضوں کے اتنا قریب مت رہا کرو— دیکھو میں آج اسی وجہ سے وہاں نہیں گیا۔ اس میں سب تمہارا قصور ہے۔ اب میں کیا کرسکتا ہوں۔ تم سے جاں باز کو اپنی جاں بازی کا مزہ بھگتنا ہی چاہیے۔ جہاں شہر میں سیکڑوں مریض پڑے ہیں۔‘‘
’’میری غیر مرئی حریف نے جس کی عموماً فتح ہوتی تھی حسب معمول پھر مجھے چاروں شانے چت گرادیا۔ میں نے ندامت سے سرجھکاتے ہوئے کہا۔ ’’بھاگو! بدنصیب بھاگو! تمہیں اپنی قربانی کا یہ عجیب صلہ ملا ہے—!‘‘
بھاگو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
’’وہ نظارہ کتنا دل دوز تھا، جبکہ بھاگو نے اپنے بلبلاتے ہوئے بچے کو اس کی ماں سے ہمیشہ کے لیے علٰیحدہ کردیا اور مجھے نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ لوٹا دیا۔‘‘
کہانی کے واحد متکلم ڈاکٹر بخشی کا خیال تھا کہ اتنے بڑے حادثے سے دوچار ہوکر، اپنی دنیا کو تاریک پاکر اب وہ کسی کا خیال نہ کرے گا— لیکن واحد متکلم کا خیال غلط ثابت ہوا۔ اس سے اگلے روز ڈاکٹر بخشی نے دیکھا کہ ’’اس نے بیش از بیش مریضوں کی امداد کی اور سیکڑوں گھروں کو بے چراغ ہونے سے بچالیا— اور اپنی زندگی کو ہیچ سمجھا۔‘‘ اس واقعہ سے ڈاکٹر بخشی کا دل بھی پسیج جاتا ہے اور وہ بھاگو کی تقلید میں نہایت مستعدی سے کام کرتے ہوئے اسپتالوں اور کوارنٹین سے فارغ ہوکر شہر کے غریب طبقے کے لوگوں کے گھروں میں جاتا ہے جو کہ بدروؤں کے کنارے پر واقع ہونے کی وجہ سے غلاظت کے سبب بیماری کے مسکن بنے ہوئے تھے۔
لیکن راجندرسنگھ بیدی نے اس وقت کے سماجی نظام پر اپنے طنز کی چوٹ کرتے ہوئے اس کہانی کو آخری موڑ دے کر یوں اختتام پر لایا ہے جو قارئین کو گہرائی کے ساتھ متاثر کرتا ہے اور پڑھنے والا غریب بھاگو سے انسانی ہمدردی میں برابر کا شریک محسوس کرنے لگتا ہے۔
’’اعزاز واکرام سے لدے پھندے، اپنی پرغرور گردن اٹھائے ہوئے ڈاکٹر بخشی جب اپنے گھر پہنچتے ہیں تو ایک طرف سے انہیں ایک کمزور سی آواز سنائی دیتی ہے۔
’’بابوجی۔ بہت بہت مبارک ہو۔‘‘
—اور بھاگو نے مبارک باد دیتے وقت وہی پرانا جھاڑو قریب ہی کے گندے حوض کے ایک ڈھکنے پر رکھ دیا اور دونوں ہاتھوں سے منڈاسا کھول دیا۔ میں بھونچکا سا کھڑا رہ گیا۔
’’تم ہو؟ بھاگو بھائی!‘‘
میں نے بمشکل تمام کہا— ’’دنیا تمہیں نہیں جانتی بھاگو تو نہ جانے— میں تو جانتا ہوں۔ تمہارا یسوع تو جانتا ہے— پادری ل، آبے کے بے مثال چیلے— تجھ پر خدا کی رحمت ہو۔‘‘
ترقی پسندی کے سنہرے دور میں جب ترقی پسند ادیب سیاسی نعروں کی ہیجان آفریں لہروں میں بہہ رہے تھے اس دور میں بھی راجندر سنگھ بیدی نے اپنی نجی سوجھ بوجھ کی وجہ سے واقعیت پسندی اور فکری نظم وضبط کا دامن نہیں چھوڑا اور اپنے افسانوں میں سیاسی بالا دستی کی سرگزشت کو اصل متن کے بجائے ہمیشہ بین السطور میں بیان کیا ہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ’کوارنٹین‘ بھی راجندر سنگھ بیدی کی شاہکار کہانیوں میں سے ایک ناقابل فراموش کہانی ہے کیونکہ بظاہر طاعون ختم ہوچکاتھا لیکن معاشرے میں کرپشن اور فسادات کا سیاسی قرنطینہ اس کے بعد بھی جابجا رونما ہوتا رہتا تھا جو طاعون سے زیادہ خوفناک اور مہلک تھا۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کورونا وائرس کی شکل میں آج پوری دُنیا میں اس وبا نے انسانی رشتے کو پامال کیا ہے۔ قدرت کی مار ایک طرف اور دوسری طر ف انسان کے خودساختہ مسائل نے آج دُنیا میں زیادہ وسیع پیمانے پر لوگوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ہر جگہ رشوت خوری کا بازار گرم ہے۔ اسپتالوں میںسہولیات میسر نہیں ہیں۔ کورونا کا علاج کرنے والے کئی ڈاکٹر بھی جان بحق ہوچکے ہیں۔
(ختم شد)
drspahmad@gmail.com