فلیش فکشن عنوان۔۔۔ آدھے خدا

0
0

تحریر۔۔۔ محمدزبیرمظہرپنوار (حاصلپور۔ پاکستان)
آ گئی تم ودیا؟ بہت دیر کر دی۔
دیر کہاں ” پونے سے بنارس تک کا سفر تم تو جانتی ہی ہو۔
بیٹھ جا¶ ” پانی دوں
نہیں ” یہ بتا¶ کہ آخری دنوں میں ویر کیا کہا کرتا تھا” ودیا نے درد بھرے لہجے میں آنکھوں سے آنسو پونجھتے ہوئے کہا.
وہ کہتا تھا. اسے دیکھے ہوئے پچیس سال گزر گئے. نہ تو اب میرے سر پہ بال ہیں اور نہ ہی میرے ذہن پہ کچھ سوار ہے۔ بھلے وقتوں میں جب میری زلفیں میرا کندھا چوما کرتی تو مجھے یوں لگتا مجھ سا دوسرا کوئی نہیں اس جہان میں۔ میں سرسوتی کا راگ تھا اور میں ہی اندر کا وہ جمال تھا جو بارش برساتا اور بارش کے بعد آسمان پہ دھنک کے رنگ بکھیر دیتا۔ رات کو جب میرے آنگن میں چاند اترتا تو گویا میری آنکھوں کی چمک سے چاند کی چاندنی مدہم پڑ جایا کرتی تھی۔ میں آسمان تھا اور میں ہی دھرتی کا دان ویر تھا۔ ذرہ ذرہ میری نفاست میری کاریگری کا شاہد رہا مگر ایک میں تھا جسے خود کا ہی علم نہ تھا۔ میں اپنی ہی دھن میں مگن بےجان پتھروں میں روح پونک دیا کرتا تھا۔ دوسری طرف لوگ انہی پتھروں کو بھگوان سمجھ کر پوجنے لگے۔ سوچتا ہوں اس دوران میں کہاں تھا۔ ہاں شاید وہ جوگ تھا ایسا جوگ جس میں ساری کائنات اور خدائی یکجا ہو چکی تھی۔
سفید داڑھی آنکھوں پہ موٹے شیشوں والا چشمہ لگائے ” اس دن بھی ویر اپنے کٹے ہاتھوں اور چھلنی روح سے مورتیاں تراشتا رہا تھا۔ جب اسے آخری بار اسپتال لے جایا گیا۔
تم تو جانتی ہو ودیا” اس نے ہمیشہ اپنا خون سینچ کر مورتیوں کو رنگ دیا کہ دیکھنے والا بھی دیکھ کر تڑپ اٹھتا ہے۔
ہاں سچ کہتی ہو ” میرے رنگ بھی اسی کے ہیں۔ جو وہ مکمل نہ کر سکا۔
مکمل نا مکمل کا مجھے علم نہیں ودیا” لیکن ایک بات ہے جو مجھے سمجھ نہ آ سکی۔ آخر کیونکر وہ ساری زندگی بھگوان بناتا رہا۔ کیوں ہر وقت اسکے چاروں طرف بھگوان ہوتا تھا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ بھگوان نے اسے بنایا ہی اسلیے تھا کہ وہ بھگوان کو صورت دے سکے۔ اور چند لوگ ویر کو ہی بھگوان سمجھ بیٹھے۔
اس کی کاریگری جنونیت اور درد کے پیچھے کچھ تو انتہاءتھی۔ جو اذیت بن کر اسکے ہاتھوں سے ظاہر ہوتی رہی تھی۔ کیسی کیفیت رہی ہو گی کہ جیسے جیسے اسکا درد بڑھتا چلا گیا اسی حساب سے اسکی گاریگری نکھرتی رہی۔
کئی سالوں پہلے ڈاکٹروں نے اسے گلے اور چھاتی کے کینسر کا مرض بتایا تھا۔ وجہ مورتیاں تراشتے تراشتے اسکے اندر پتھروں کی دھول جمع ہوتی رہی اور وہی دھول کینسر کا باعث بنی۔ اسکا علاج ہو سکتا تھا جب مرض کی تشخیص ہوئی تھی۔ لیکن وہ مورتیاں تراشنے سے باز نہ آیا۔
جس دن وہ مرا لوگ کہتے ہیں۔اسکے چہرے پہ مسکراہٹ تھی اور وہ پرسکون تھا۔اب وہ مسکرا کیوں رہا تھا میں نہیں جانتی ”۔ شاید تمہیں علم ہو ودیا؟
آہ۔ کیسا اذیت بھرا آدھا خدا تھا۔ ودیا نے اپنا منہ آسمان کی طرف کرتے ہوئے کہا۔ کیا فائدہ جیتے جی میری بات سمجھ نہ سکا اور مرتے سمے سمجھ گیا۔
میں اسے اکثر کہا کرتی۔ جی لو ویر۔
مگر یاد رکھنا یہ جو بنا رہے ہو۔ نہ یہاں پا سکو گے اور نہ وہاں پا سکو گے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا