” آنکھوں کے اس پار“ کا تجزیاتی مطالعہ ”

0
0

از: پروفیسر احمد حسن دانش،

 

پورنیہ  ” آنکھوں کے اس پار“ اردو شاعری میں نو وارد لیکن پختہ آہنگ شاعرہ فوزیہ رباب کی غزلوں اور نظموں کا مجموعہ ہے جو ۷۱۰۲ئ کے ماہ ستمبر میں اشاعت پذیر ہو کر منصہ عام پر آیا ہے ۔ اس میں رباب کی ساٹھ غزلیں اور بائیس نظمیں شامل ہیں۔ سب سے پہلے ان کے انتساب کے شعر نے مجھے متاثر کیا© اب محبت کی اور کیا حد ہو میری بیٹی میں تو جھلکتا ہےیہیں سے شاعرہ کی، فن پر دسترس اور پختگی جھلکنے لگی اور میںان کے کلام کو انہماک سے پڑھنے لگا ۔ غزلیں بھی اچھی ہیں اور نظمیں بھی متاثر کن ہےں۔ دونوں صنفوں میں یکساں طور پر کامیاب ہیں۔ نظمیں اور غزلیں دونوں قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ فوزیہ رباب احساسات کی شاعرہ ہیں۔ خود بھی احساسات سے مغلوب ہوتی ہیںاور قاری کو بھی مغلوب کرتی ہیں۔ مجموعہ کے پیش لفظ میں یوں رقمطراز ہیں: ” میں کبھی لفظوں کا ہاتھ پکڑ کے دور کھیتوں کی طرف نکل جاتی ہوں جہاں سبزہ میرے پاﺅں چومتا ہے تو میرے احساسات شعروں میں ڈھلنے لگتے ہیں۔ کبھی رات گئے یہ لفظ مجھے چاند نگر لے جاتے ہیں۔ چاندنی بانہیں کھولے میری منتظر ہوتی ہے تو غزل تخلیق پاجاتی ہے اور کبھی یہ لفظ خوشبو بن کے مجھے مہکا جاتے ہیں تو نظم ہوتی ہے۔“ فوزیہ رباب کے یہاں الفاظ کی بڑی اہمیت ہے ۔ یہ الفاظ ہی ان غزلوںاور نظموں کے تانے بانے بنتے ہےں اور ان کی شاعری کا پیکر وجودپذیر ہوتا ہے۔ فوزیہ رباب کو مناظر فطرت اور کائنات کی خوبصورتی سے خاص وابستگی ہے جو ان کی شاعری کے لئے جواز پیش کرتی ہےں۔ وہ خود لکھتی ہیں کہ: ” مجھے کائنات کی خوبصورتی اپنی طرف کھینچتی ہے اور اس میں جو بھی مجھے محسوس ہوتا ہے اسے میں الفاظ میں انڈیل دیتی ہوں۔ شاید اسی کو شاعری کہتے ہیں۔“ کائنات کی خوبصورتی اور قدرت کے مناظر کی جھلک ان کی شاعری میں جگہ جگہ نمایاں ہے ۔ یہی ان کی شاعری کا حسن وجمال ہے۔ یہی ان کی شاعری کی اساس ہے۔ فوزیہ رباب کی غزلیہ شاعری کا مزاج جدا ہے اور منفرد ہے ۔ ان کو منفرد ردیفوں کی شاعرہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ شہزادے ، پاگل ، چپ خاموش، ناسائیں، ناجی بالکل نہیں ،ہے ناں،مرے سانولے جیسی ردیفیں انہوںنے استعمال کرکے اپنی انفرادیت قائم کی ہے۔ بعض نظموں کے عنوانات اور نئی ترکیبات سے بھی رباب کی انفرادیت جھلکتی ہے مثلاً تم جلدی لوٹ آﺅ گے ناں؟ ، مری نظمیں پڑھو گے ناں؟میرا مٹھرا سوہنا بالم اور من کا روپ سنہرا ، منڈیری پر کاگا بولے، چوری کوٹ کھلاﺅں دونیناں دو کملے نیناں روئیں ساری رین، کس کاری پھر نین نشیلے کس کاری سنگھار ، سوہنا مٹھرا سوہنا بالم اور سوہنا مٹھرا سا نول وغیرہ۔ فوزیہ رباب© کی غزلوں میں رومان اور جذبہ¿ عشق کا غلبہ ہے ۔ انہوںنے جس عمر میں شاعری شروع کی ہے، اس میں عشق و رومان کا ہونا لازمی ہے ۔ اس لئے انہوںنے اپنی غزلوں میںرومان و عشق کے جذبے کو بہتر طور پر نئے انداز میں پیش کیا ہے ۔ رباب کے آہنگ میں ایک نیاپن ہے اور شدید احساسات کی حسین کارفرمائی ہے۔ جب میں نے ان کی شاعری پر کچھ لکھنے کا ارادہ کیا اور ان کی غزلوں کا مطالعہ شروع کیا تو میںنے محسوس کیا کہ رباب کی غزلوں میں پروین شاکر کے انوکھے آہنگ اور منفرد تیور کا امتزاج ہے۔ وہ دانستہ نادانستہ پروین شاکر سے متاثر ہیں۔ اپنی ایک نظم ” لہو انسانیت کا ہے“ میںانہوںنے اعتراف بھی کیا ہے کہ آٹھ سال کی عمر سے ابن ِ صفی اور پروین شاکر کو پڑھتی رہتی تھی: میں اک معصوم سی لڑکی یہ دنیا جس کی نظروں میں بہت ہی خوبصورت تھی فقط جو زندگی کے آٹھویں ہی سال میں ہردن بڑے ہی شوق سے ابنِ صفی ، پروین شاکر کی کتابیں پڑھتی رہتی تھی۔ پروین شاکر نے پندرہ سال کی عمر میں شاعری شروع کی تھی اور فوزیہ رباب کا مجموعہ کلام انتیس سال کی عمر میں منصہ عام پر آچکا تھا ۔ غرض یہ کہ انہوںنے بھی کم عمر میں شاعری شروع کی ہوگی۔ دونوںشاعرات میں ایک یکسانیت اور ہے کہ پروین شاکر اپنے پہلے مجموعہ¿ کلام” خوشبو“ کے دیباچہ میں تحریر کرتی ہیں کہ : ” ایک لڑکی کھڑی ہے ۔ سناٹے میں اس نے اپنے رب سے دعا کی تھی کہ اس پر اس کے اندر کی لڑکی کو منکشف کردے۔ پر وہ اس کی بات مان گیا۔ چاند کی تمنا کرنے کی عمر میں ذات کے شہر ہزاردر کا اسم عطا کر دیا گیا ۔ پھولوں کی پنکھڑیاں چنتے چنتے، آئینہ در آئینہ خود کو کھوجتی یہ لڑکی شہر کی اس سنسان گلی تک آپہنچتی ہے کہ مڑکر دیکھتی ہے تو پیچھے دور دور تک جہاں تہاں کر چیاں بکھری پڑی ہیں۔“ فوزیہ رباب اپنی ایک نظم ” لہو انسانیت کا ہے“ میں لکھتی ہیں کہ : میں اک معصوم سی لڑکی یہ دنیا جس کی نظروں میں بہت ہی خوبصورت تھی وہ اک معصوم سی لڑکی کہ جس کی گفتگو بھی اور دعائیں بھی عجب سی تھیں بطورِ خاص وہ لڑکی تہجد میں کھڑی ہو کر دعا اک مانگا کرتی تھیخدایا تیرے بس میں کیا نہیں آخر تو مالک دو جہانوں کا مری بس اک خواہش ہے کہ میری ذات کو مجھ پر خدایا منکشف کردے مجھے حسّاس تو کردے کہ اس دنیا کے ہر غم کو میں اپنی روح تک محسوس کر پاﺅں دونوں کی خواہشات میں بلا کی یکسانیت ہے جس کی جھلک ان کی شاعری میں نمایاں ہیں۔ فوزیہ رباب ایک سریع الحس اور حساس شاعرہ ہیں۔ وہ اپنی غزلوں اور نظموں میں اپنے لطیف و نفیس احساسات کو انڈیل دیتی ہیں۔ احساسات میں ڈوبے ہوئے چند متاثر کن اشعار ملاحظہ ہوں: اپنے ہوش گنوا بیٹھی ہوں پھر سے آج
سوچ رہی ہوں تجھ کو ہر دم شہزادے میں بولی خواب کس کا دیکھتے ہو تم
وہ بولا آنکھ میں دیکھو کبھی میریہم جسے دیکھ لیں فقط اک بار
سب کے سب اس کو دیکھنے لگ جائیںاس شعر کوپڑھنے کے بعد حافظ شیرازی کا مشہور شعر ذہن میں عود کر آتا ہے: ہر کس کہ دید روئے توبوسید چشم من
کارے کہ کرددیدئہ من بے بصر نہ کرد یہ آئینہ بھی تری ہی جھلک دکھاتا ہے
میں آئینے سے بڑی دیر تک حجاب کروں تجھ میں ڈوبی تو مجھے اپنی خبر ہی کب تھی
میںنے یہ دوسرے لوگوں سے سنا ہے میں ہوں ہر ایک چہرے سے ایسا دھواں نہیں اٹھتا
یہ خاص روشنی ہوتی ہے خاص آنکھوں میںیہ شعر تو شاعرہ کی آنکھوں کا عکس پیش کرتا ہے ۔ ایک شعر سے ” زبان یار من ترکی“ کا لطف اٹھائیے اور رباب کے لطیف لہجے سے حظ اٹھائیے: میرے الفاظ کیوں لگیں میٹھے
میرے منہ میں تری زبان ہے کیا فارسی کا یہ ضرب المثل شعر دیکھئے: زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم
چہ خوش بودے اگر بودے زبانش دردہان منمندرجہ ذیل اشعار کے مزاج اور تیور دیکھئے کہ ایک کم عمر شاعرہ نے غزل میں کیا کیا گل بوٹے کھلائے ہیں۔ ان اشعار میں عشق کی کارفرمائی دیکھئے: عشق کا اک عذاب تھوری ہے
زیست مثلِ گلاب تھوڑی ہےعشق میں کوئی تو کشش ہوگی
ورنہ پاگل رباب تھوڑی ہے  رباب نے طویل غزلیں بھی کہی ہیں۔ایک غزل میں بیس اشعار ہیں اور سب میں روانی اور نغمگی برقرار ہے ۔ا سی غزل کی ردیف پر اس مجموعہ کا نام ” آنکھوں کے اس پار“ رکھا ہے ۔ چند اشعار میں شاعرہ کے لہجے اور آہنگ کی دلکشی دیکھئے: سپنا کوئی بکھر چکا ہے آنکھوں کے اس پار
دریا جیسے ٹوٹ پڑا ہے آنکھوں کے اس پار دن تعبیر مری چوکھٹ پر لاکر رکھ دے گا
رات نے تیرا خواب بنا ہے آنکھوں کے اس پار ہم نے تیری آنکھوں میں رہ کر محسوس کیا
کتنا درد چھپا رکھا ہے آنکھوں کے اس پار تجھ کو بھی سرشار نہ کردیں آنکھیں تو کہنا
ایک طلسمِ ہو ش ربا سے آنکھوں کے اس پارپتھر ہو کر رہ جائیں گی آنکھیں موند رباب
اب بھی اس کا خواب پڑا ہے آنکھوں کے اس پار اس مجموعہ میں کئی طویل غزلیں شامل ہیں جس سے رباب کی شاعری پر دست رس کا اندازہ ہوتا ہے ۔ اخیر میں غزلوں کے چند اچھے اشعار پیش ہیں، جن سے رباب کی غزلیہ شاعری کے اوصاف ظاہر ہوتے ہیں اور ان کے اسلوب اور لہجے کی دلکشی ظاہر ہوتی ہے: تم ہو میری زیست کا حاصل شہزادے
توڑ نہ دینا تم میرا دل شہزادے شہزادی نے دل ہارا اور جیتی جنگ
مالِ غنیمت میں تم شامل شہزادے اک جانب تو دوسری جانب تیری رباب
ایک زمانہ بیچ میں حائل شہزادے جانے کیا رنگ رباب اب انہیں دے گی دنیا
کس قدر درد سے لبریز ہیں اشعار ترے ایک مدت سے تری راہ میں آبیٹھی ہے
عشق میں تیرے ہوئی راجکماری پاگلمیںنے پوچھا کہ کوئی مجھ سے زیادہ ہے حسیں
آئینہ ہنس کے بولا اری جا ری پاگل ہم نے تو بس پیار کیا تھا پاپ نہیں
لوگوںنے تو بات بڑھا دی شہزادے جتنی عمر ہے باقی وہ بھی تیرے نام
جتنی تھی وہ تجھ پہ لٹادی شہزادے آس لگائے ،نین بچھائے ہرلمحہ
رستہ دیکھے یہ برہن شہزادے کا پریم کی گنگا جمنا من میں بہا دی ناں
تم نے اپنے خواب دکھاکر شہزادے میری روح میں تیری یاد اترتی ہے
ہولے ہولے مدھم مدھم شہزادے کب تک تنہا تنہا ٹوٹیں بکھریں گے
روح میں روح کو ہونے دے ضم شہزادےشہزادے! کچھ اور نہ مانگے شہزادی
نکلے تیری بانہوں میں دم شہزادے فوزیہ رباب کے مجموعہ میں کچھ نظمیں بھی شامل ہیں جن کی تعداد بیس ہے اور دو گیت ہیں۔ ان کی نظموں میں بھی غزلوں کی طرح جذبات و احساسات کی کارفرمائی ہے۔ سبھی نظمیں آزاد اور معریٰ ہیں۔ کوئی بھی نظم پابند اور روایتی نہیں۔ ان میں خیالات کی روانی ہے اور احساسات کی لہریں ہیں۔ ان غزلوں اور نظموں میں عصری حسن موجود ہے۔ عصری آگہی کے ساتھ عصری مسائل پر ان کا قلم اٹھتا ہے تو وہاں ترقی پسندی کی جھلک نمودار ہوتی ہے۔ان کی ایسی نظموں میں قلم اٹھاﺅ ، آنٹی مجھ کو ڈر لگتا ہے ، لہو انسانیت کا ہے، سنوبر می مسلمانو!اور بیٹیاں ہیں جو دل کے تار کو جھنجھنا دیتی ہیں۔ اخیر میں دو اچھے گیت” آنکھوں کے اس پار “ اور ” ہمارا ہندوستان“ ہیں ۔ پہلا گیت عشقیہ جذبے اور دوسرا دیش بھکتی کے جذبے سے لبریز ہے۔ دونوں گیتوں سے ایک ایک بند پیش کرتا ہوں، حظ اٹھائیں: منڈیری پر کاگا بولے ، چوری کوٹ کھلاﺅںمجھ سے پریتم آن ملیں یا ان سے ملنے جاﺅں وہ بیری تو سب جگ بیری کیسے یہ سمجھاﺅںاُن بِن اجڑا سونا سونا یہ گھر بار پریتم رستہ بھول گئے ہیں آنکھوں کے اس پار (آنکھوں کے اس پار)
اب تو رباب نے آنکھوں میں بھی سپنا ایک سجایا دیس کی خاطر مرمٹنے کا دل میں عزم جگایا ایک نہیں یہ لاکھوں جانیں ہوں اس پر قربان نہ تیرا نہ میرا دیکھ ہمارا ہندوستان  (ہماراہندوستان) ایک نظم ” میرا مٹھرا سوہنا بالم“ میں ہنوز میں ” مٹھرا “ کے معنی سے واقف نہیں ہو سکا ہوں، اس کے لئے گجرات کے ایک صاحب سے میںنے رابطہ بھی کیا لیکن انہوںنے ناواقفیت کا اظہار کرتے ہوئے آئندہ کا وعدہ کیا۔ میںنے شاعرہ کے لہجے سے اس لفظ کا معنی بہت ہی پیارا سمجھا ہے اور نظم کی تھیم کو سمجھ لیا ہے: میر ا مٹھرا سوہنا بالم مجھ سے گیا ہے روٹھ سوہنا مٹھرا سوہنا بالم مجھ سے گیا ہے روٹھ رباب کی شاعری میں گنگا جمنی رنگ و آہنگ بھی ہے۔ ان کو وطن سے پیار ہے ، وطن کی سوندھی مٹی کی سوندھی خوشبو سے پریم ہے ۔ پورے مجموعہ میں ہندی الفاظ کے موزوں استعمال سے ان کو ہندی سے محبت کا پتہ چلتا ہے ۔ ہندی کے خوبصورت اور سندر الفاظ نے رباب کی شاعری کوحسن و جمال بخشاہے ۔ الفاظ کا rhythmدیکھئے : سوہنا ، سانول ، سائیں ، بالم، کملے ، کاری ، نیناں، آس، پریتم ، منڈیری ، کاگا، ساون ، چوری، بیری، جھومر، پایل، جگ ، سنسار ، جیون ، دان، جھنکار، روپ، پیت ، سپھل، ساجن، پیا ، گجرے ، مول اور انمول وغیرہ کے خوبصورت اور برمحل استعمال سے شاعرہ کی ہنر مندی اور چابکدستی ظاہر ہوتی ہے۔ بہار اردو اکیڈمی ، پٹنہ کے ماہانہ مجلہ ” زبان و ادب“ کے شمارہ جولائی ۸۱۰۲ئ میں رباب کی تین نظمیں شائع ہوئی ہیں: (ا) میں شاعرہ ہوں (۲) سائیں اور (۳) جاودانی تینوں نظمیں جذبات و احساسات سے لبریز ہیں۔ تینوں نظموں سے چند سطریں پیش کرتا ہوں۔ تاکہ قاری مجموعہ سے الگ بھی ان کی شاعری کا لطف لیں: (ا) حسین لفظوں کی شاعرہ ہوں  مرا تخیل فلک نما ہے  میں اپنے خواب و خیال  تحریر کرتی ہوں   (میں شاعرہ ہوں) (۲) ہاں اکثر یہی ہوتا ہے  کہ تم اپنی محبت سے  بہت مغلوب ہوتے ہو  تمہاری سانس کی شدت  اور ان الفاظ کی حدت  میں اپنی روح تک محسوس کرتی ہوں  (سائیں) (۳) چھو لیا تجھے  تو یہ لگا کہ جیسے دیوتا کا لمس پالیا …………………… جو چھولیا تجھے تو یہ لگا  کہ میں جو مدتوں سے بے حیات تھی  مجھے حیات مل گئی   (جاودانی) اس مختصر سے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اپنی ابتدائی عمر میں ایسی پرکیف اور پر تاثیر شاعری کرنے والی فوزیہ رباب مستقبل میں اردو شاعری کے افق پر ایک درخشندہ ستارہ بن کر ابھریں گی۔ میری دعاءہے کہ ” زور قلم اور زیادہ“ رباب کے اس شعر کے ساتھ مقالہ ختم کرتا ہوں: جانے کیا رنگ رباب اب انہیں دے گی دنیا کس قدر درد سے لبریز ہیں اشعار ترے
از:

ڈاکٹر مشتاق احمد وانی9419336120 محمد فرقان سنبھلی کی کہانیوں میں تاریخی،سائنسی اور سماجی بیانیہ
اردو ادب میں محمد فرقان سنبھلی کی حیثیت ایک صحافی،مضمون نگار،مبصر اور افسانہ نگار کی ہے ۔وہ سیول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کرنے کے علاوہ اردو میں پی ایچ ڈی اور نیٹ ہیں ۔ان کی اب تک سات کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میںمصر قدیم،آئینہءفلکیات اردو صحافت اور ضلع مراد آباد، آب حیات(افسانوی مجموعہ، نقوش قلم( مجموعہ ءمضامین)ترک اور سرکار سنبھل(ترجمہ)،اسلم جمشید پوری کے دیہی افسانے قابلِ ذکر ہیں۔ ”غالب نامہ ”فکر ونظر“تہذیب الاخلاق“ایوان اردو“اردو دنیا“سب رس“اور ”فکر وتحریر “ جیسے معروف ومعیاری رسائل میں ان کی ادبی نگارشات کی اشاعت اس بات کا اعتراف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اردو کی خدمت کا جذبہ ودیعت فرمایا ہے۔   ”طلسم“محمد فرقان سنبھلی کا دوسرا افسانوی مجموعہ ہے جس میں 21افسانے اور 1افسانچہ شامل ہے ۔182صفحا ت پہ مشتمل یہ افسانوی مجموعہ چند ایسے افسانوں سے تعلق رکھتا ہے جن میں موصوف نے تاریخی،سائنسی اور سماجی تناظر میں اپنا صحت مند اور تعمیری موقف بیان کیا ہے ۔مثلاًافسانہ ”انصاف“میں جہاں افسانہ نگار نے حضرت زیبؓ،خدیجہؓ اور آپ ﷺ کے بہترین اخلاق وکردار کا ذکر کیا ہے تو وہیں ابوالعاص اور ابوالہب کے ظلم وزیادتی اور سرکشی کو بھی بیان کیا ہے۔اس افسانے کا آغاز الہ آباد ہائی کورٹ کے عجیب وغریب فیصلے سے کیا گیا ہے لیکن آگے اسلامی تاریخ کے ایک اہم اور سبق آموذ واقعے کا بیان افسانے کے عنوان کو تقویت بخشتا ہے۔ثبوت کے طور پر مذکورہ افسانے کا یہ اقتباس دیکھیے: ”زینبؓ۔۔۔خیریت تو ہے بیٹی “ حضرت خدیجہؓ نے زینب ؓکو پسینے میں شرابور وحشت زدہ ہرنی کی طرح گھر میں داخل ہوتے دیکھا تو بے اختیار  ان کی طرف لپکیں۔زینبؓ کو بانہوں میں بھر کر محبت بھر ے لہجے میں بولیں: ”کیا ہوا بیٹی۔۔۔۔تم اس قدر بد حواس سی کیوں ہو؟“ ”اماں۔۔۔میں نے دین اسلام میں مکمل شمولیت کا فیصلہ کرلیا ہے“زینبؓ نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا اور اپنے  اندر طویل عرصہ سے جاری کفر وایمان کی جنگ کی پوری داستان خدیجہؓ کے گوش گزار کردی “ افسانہ نگار کا اسلامی تاریخ کے ایک اہم واقعے کے بیان سے یہ یقین دہانی کرانا مقصود ہے کہ مذہب اسلام عدل وانصاف کا مذہب ہے کہ جس میں کسی بھی طرح کی کوئی کمی نہیں ہے۔مزید یہ حقیقت بھی سامنت آتی ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ کے دور میں اسلام قبول کرنے والوں کو کن کن شدائد ومصائب کا سامنا کرنا پڑاہے۔ افسانہ ”طلسم“کہ جو مذکورہ افسانوی مجموعے کا سرنامہ بھی ہے اس میں ہمیں بادشاہی نظام کے عروج وزوال کے ساتھ ساتھ دنیا کی ناپائداری کا احساس ہونے لگتا ہے ۔افسانے کی قرات کے دوران یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم داستانوی قصّہ پڑھ رہے ہوں ۔فتح اندلس سے پہلے بادشاہ راڈرک کا اپنے گھڑ سواروں کے ہمراہ گھوڑے دوڑاتے ہوئے تیزی سے قلعہ کی طرف جانا ،پہاڑیوں کی اوٹ میں ایک طلسماتی عمارت کا نظر آنا اور پھر قفل توڑ کر اندر داخل ہونے کے بعد ایک طرح کی غیبی جناتی طاقت کا آگ کی صورت میں ظہور اس طرح کی تمام باتیں افسانے میں تحیر وتجسس کا باعث بنی ہیں ۔افسانہ نگار نے اس مرکزی افسانے میں بھی ایک تاریخی واقعے کو بنیاد بناکر اس میں طلسماتی روح پھونکنے کی سعی کی ہے۔نمونے کے طور پر یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے: ”ہرقل اعظم نے قدیم شہر کے قریب ایک قلعہ نُما شاندار عمارت تعمیر کرائی تھی جس میں ایک طلسم بند ہے ۔عمارت کا راستہ بڑے وزنی پھاٹکوں سے بند کیا گیا ہے اور اس پھاٹک میں قفل پڑے ہوئے ہیں ۔ہر نئے تحت نشیں کے  لیے ضروری ہے کہ وہ ان میں اپنے قفل کا اضافہ کرے“ ”اس کا کیا مطلب ہے ؟“راڈرک حیران ہوا۔بوڑھے نے کہنا جاری رکھا ”جو بادشاہ اس طلسم کو کھولنے کی کوشش کرے گا وہ تباہ وبرباد ہوجائے گا“ ”آب حیات“محمد فرقان سنبھلی کا ایک ایسا افسانہ ہے جس کا تعلق سائنس فکشن سے ہے۔سائنسی انکشافات میں ایک انکشاف یہ بھی شامل ہے کہ سطح مریخ پر بھی ایک بستی آباد ہے ۔عادل اور عدینہ اس افسانے کے مرکزی کرار ہیں جن کی آپسی بات چیت سے کئی حیران کردینے والی باتیں سامنے آتی ہیں۔عادل اپنے طیارے کو خلا میں لے جانے کے بعد ایک چمکدار گولے کی طرف بڑھ جاتا ہے اور پھر ایک ایسی بستی میں پہنچ جاتا ہے جو زمینی مخلوق سے بالکل مختلف بستی ہوتی ہے ۔وہاں اس کی ملاقات عدینہ نام کی ایک دوشیزہ سے ہوتی ہے جو قدم قدم پہ اس کی مدد اور واقفیت کا باعث بنتی ہے ۔عادل وہاں کے اسٹیڈیم میں دوڑ میں حصّہ لیتا ہے مگر پانی کے لیے ترستا ہے ۔اسے وہاں پانی کے بدلے گلابی شربت پینے کو ملتی ہے ۔   1947ءمیںانگریزوں کے چنگل سے ہندوستان کا آزاد ہونا جہاں ایک طرف طویل جدوجہد کے بعد ایک مشترکہ قوم فتح ونصرت سے ہمکنار ہوتی ہے تو وہیں انگریزوں کی سازش سے ملک دو حصّوں میں تقسیم کردیا گیا جس کے نتیجے میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی گئی۔اس المیے کو محمد فرقان سنبھلی نے اپنے ایک افسانے ”تقسیم کے داغی“میں موضوع بنایا ہے جس میں ایک تاریخی واقعے کے پس منظر میں کہانی بُنی گئی ہے۔لارڈ ماونٹ بیٹن ،ایڈمرل،محمد علی جناح،نہرو اور پٹیل تک کا ذکر اس افسانے میں موجود ہے۔اس افسانے میں افسانہ نگار نے اس بات کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی ہے کہ نہرو اور جناح بھی یہ نہیں چاہتے تھے کہ ہندوستان دوحصّوں میں بٹ جائے لیکن انگریزوں کی سازش نے بالآخر ملک کو تقسیم کرکے رکھ دیا ۔مثلاً اس اقتباس پر دھیان دیجیے: ”ایڈمرل۔۔میں جاننا چاہتا ہوں کہ ہندوستان کو تقسیم کرنے کی بات تمہارے دماغ میںکب اور کیسے آئی“ ہم شکل کے سوال پر ماونٹ بیٹن چراغ پا ہوگیا ”میں نے ہمیشہ ہندوستان کو مُتحد رکھنے کی پیش کش کی ہے ۔میں قطعی تقسیم ہند نہیں چاہتا“ ہم شکل نے زور کا ٹھہاکا لگایا ”خود سے جھوٹ بول رہے ہو ایڈمرل“ ”آخر تم میرے پیچھے کیوں پڑے ہو“ماونٹ بیٹن نے تھوک نگلتے ہوئے پوچھا ”میں جاننا چاہتا ہوں کہ تم نے تقسیم ہند کا منصوبہ کب اور کیوں تیار کیا“۔۔۔۔۔   محمد فرقان سنبھلی کی کچھ کہانیوں میں ان کا سماجی شعور کارفرما نظر آتا ہے ۔ان کی نظر نہ صرف سماج میں رونما ہونے والے مایوس کُن حالات وواقعات پر رہتی ہے بلکہ انھیں سماجی برابری اور ایماندارانہ ذہنیت نہایت عزیز ہے۔اس سلسلے میں ان کی دلچسپ کہانیاں ”تیرا کچھ دُکھتا ہے کیا؟“واپسی“وراثت“دائمی جہیز“اور ”خوشی تیرا انتظار رہا“کو بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے۔موضوعاتی تنوّع کی حامل یہ کہانیاں قاری کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔”تیرا کچھ دُکھتا ہے کیا؟“میں ایک بہواپنی بیمار ساس پہ کڑھتی رہتی ہے کیونکہ اس نے اپنے بیٹے تابش کو محض روپے کمانے کی خاطر دوبئی کسی کمپنی میں بھیج دیا ہے ۔ادھر اس کی بیوی رضیہ مختلف طرح کی پریشانیوں سے جھوجھتی رہتی ہے ۔صبر وتحمل والی یہ خاتون اپنے شریک زندگی کی جدائی کا غم اندر ہی اندر سہتی رہتی ہے ۔ساس کے بار بار پوچھنے پر کہ تیرا کچھ دُکھتا ہے کیاپر وہ اسے کوئی بھی جواب نہیں دیتی لیکن ایک دن جب ساس اس امر کا انکشاف کرتی ہے کہ دوبئی کی کوئی دولت مند بیٹی اس کے بیٹے کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہے تو تب رضیہ کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی نے اس کے کانوں میں پگھلتا ہوا سیسہ ڈال دیا ہو۔اصل میں رضیہ کا کوئی بچّہ نہیں ہوتا ہے اور اس کی ساس پوتے کی کلکاریاں سُننے کو ترستی ہے ۔اس لیے وہ اپنے بیٹے کو دوبئی میں دولت مند لڑکی سے شادی کرنے کی اجازت دیتی ہے۔آج کل کے سماج کا ایک بھیانک رُخ یہ بھی ہے کہ جنس زدہ قسم کے مرد پہلی بیوی کے جسم ومزاج سے اُکتا کر اسے طلاق دے دیتے ہیں اور دوسری ڈھونڈنے لگتے ہیں ۔یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس پر افسانہ نگاروں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ظاہر ہے قوانین فطرت کے خلاف جب جب آدمی نے زندگی بسر کی ہے اس کے نتائج مایوس کُن سامنے آئے ہیں۔محمد فرقان سنبھلی کا مذکورہ افسانہ عورت کے استحصال اور اس کے ساتھ بے وفا مرد کے کھلواڑ کو درشاتا ہے۔ افسانہ ”واپسی“میں ایک بس کنڈیکٹر کی ایمانداری اور زندہ دلی کو موضوع بنایا گیا ہے ۔ہمارے سماج میں جہاں چوروں ،لُٹیروں اور بے ایمان لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود حسن میاں جیسے ایماندار اور زندہ ضمیر لوگ موجود ہیں جو روڈ ویز بس کنڈیکٹر کی حیثیت سے اپنی ایمانداری کی ایک پہچان قائم کرچکے ہیں ۔اسی لیے ان کی بس کی جونہی چیکنگ ہونے لگتی ہے تو آفیسران حسن میا ں کا نام سُنتے ہی چیکنگ نہیں کرتے۔ایک طرف وہ اپنی بیٹی ثنا کی اسکول فیس کی ادائیگی کے سلسلے میں پریشان ہیں اور دوسری طرف خوف خدا انھیں بے ایمانی پر آمادہ ہونے نہیں دیتا۔اس افسانے کا تانابانا بڑے دلچسپ انداز میں تیار کیا گیا ہے ۔افسانہ نگار نے حسن میاں اور اس کے کردار کو بڑے احسن طریقے سے بحال رکھا ہے اور یہ سبق دلانے کی کوشش کی ہے کہ آدمی جب ایماندار ہو تا ہے تو وہ کوئی بھی بُرا کام نہیں کرتا ہے۔افسانہ ”واپسی “میں افسانہ نگار نے اسی مسلے کو زیر بحث لایا ہے۔مثلاً یہ اقتباس قابل ملاحظہ ہے: ”اصغر بھی حسن میاں کے ساتھ ہی روڈویز میں ملازم ہوا تھا ۔اس نے جب حسن میاں کو پریشان دیکھا تو پوچھنے لگا ”کیا ہوا حسن کیوں پریشان ہو؟“ ”کچھ نہیں ،بس ذرا مہینہ تنگ چل رہا ہے“ ”کتنی بار سمجھایا تمھیں ،موقع دیکھ کر کچھ آمدنی کرلیا کرو۔اس زمانے میں سب ایسے ہی چلتا ہے دوست“اصغر نے کہا۔۔۔۔  افسانہ ”وراثت“میں ایک بیٹا اپنے بوڑھے والدین کی مرضی کے خلاف مکان بیچ کر بیرون ملک کسی کمپنی میں جانا چاہتا ہے۔وہ کیمیکل انجینئر ہے ۔اس افسانے میں مقّدس رشتوں کی پامالی ایک عجیب صورت میں سامنے آتی ہے ۔والدین اپنے بچّوں کو خون پلا کر جوان کرتے ہیں ،پڑھاتے ہیں اور آخر کار والدین کے حصّے میں تنہائی اور اُداسیاں آتی ہیں ۔اس افسانے کا ایک منفی پہلو یہ بھی سامنے آتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رشتوں میں بھی دراڑیں پیدا ہوجاتی ہیں ۔ ”دائمی جہیز“محمد فرقان سنبھلی کا ایک انتہائی سبق آموذ اور طنز آمیز افسانہ ہے ۔یہ افسانہ اپنے عنوان اور وحدت تاثر کے لحاظ سے بہت متاثر کُن ہے ۔حرص وہوس اور موہ مایا کے چکر میں آدمی بڑے بڑے حربے استعمال کرتا ہے ۔اشرف میاں اس افسانے کا مرکزی کردار ہے جو بہت زیادہ لالچی ہے۔اپنے تین بیٹوں کی شادیوں پر لڑکی والوں سے جہیز کا مطالبہ کرکے جہیز حاصل کرتا ہے لیکن چوتھے بیٹے ڈاکٹر کی شادی ایک معمولی ماسٹر کی لڑکی سے بغیر جہیز کے کرواتا ہے جو اس کے دوست اور رشتے داروں کے لیے حیرت کا باعث بنتا ہے ۔افسانہ نگار نے بڑی ہنر مندی سے افسانے کے آخر میں اشرف میاں کی زبانی دائمی جہیز کا انکشاف ایسے الفاظ میں کروایا ہے کہ جو دل کو چھو جاتے ہیں،مثلاً: ”میری بات پر اشرف میاں تھوڑے چوکنے ہوئے لیکن کھلے نہیں ۔میرے بہت کُریدنے پر بولے ”اب تُم سے کیا چھپانا بیٹے۔میں نے تین لڑکوں کی شادیاں کیں ۔انھوں نے مجھے بہت سا روپیہ جہیز میں دیا  لیکن وہ کتنے سال ساتھ دیتا ۔پانچ سال میں سب ختم ہوگیا“اشرف میاں نے چند سیکنڈ کی خاموشی کے بعد کہنا شروع کیا ”اس بار میں چاہتا تھا کہ مجھے دائمی جہیز ملے“ ”ایسا کون سا جہیز ہے “میں بھی اشرف میاں کی بات پر الجھ کر رہ گیا۔اچانک اشرف میاں کی آنکھوں میں چمک آگئی ۔وہ راز دارانہ انداز میں گویا ہوئے۔۔۔ محمد فرقان سنبھلی افسانہ مزاج آدمی ہیں ۔افسانے کی بافت سے وہ کسی حد تک واقف ہیں ۔انھوں نے اپنے افسانوں میں جن موضوعات پر خصوصی توجہ دی ہے ان میں رشوت،جہیز،اخلاقی وروحانی قدروں کا زوال اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی بے راہ روی اور ان کی بے حسی شامل ہے۔ان کے افسانوں کے کردار سیدھے سادے مگر حرکت وعمل میں چست درست نظر آتے ہیں ۔مکالمہ نگاری سے بھی وہ کسی حد تک واقف ہیں اور افسانوی زبان کا استعمال کرنا بھی جانتے ہیں ۔وہ عام فہیم زبان کا ستعمال کرتے ہیں اور افسانے میں تجسّس پیدا کرنا جانتے ہیں۔مجھے پوری توقع ہے کہ محمد فرقان سنبھلی اردو افسانہ نگاری سے اپناذہنی وجذباتی رشتہ اور زیادہ مستحکم کریں گے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا